"NNC" (space) message & send to 7575

اثاثے‘ پاناما کے انتظار میں

برصغیر کے تینوں ممالک موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار رہتے ہیں۔ ان سے بچائو کے معاملے میں بھارت‘ ہم سے کہیں بہتر پوزیشن میں ہے۔ وہ بارشوں اور طغیانیوں کے اثرات سے اپنے عوام اور تنصیبات کو زیادہ تباہ کن اثرات سے بچانے میں بڑی حد تک کامیاب رہتا ہے۔ اگر ماضی کو یاد کریں تو بھارت کو بھی ہماری طرح طوفانی بارشوں اور طغیانیوں کا شکار ہو کر ہزاروں افراد کی حادثاتی اموات اور اثاثوں کی تباہی کا خسارہ برداشت کرنا پڑتا تھا۔ لیکن بھارت کویہ سہولت حاصل ہے کہ وہاں مسلسل منتخب حکومتیں قائم رہیں۔ کچھ عرصے کے لئے ایمرجنسی نافذ ہوئی تھی‘ تو اس کی اتنی شدید مخالفت اور مزاحمت رہی کہ مسز گاندھی کو آخر کار پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ اب کسی میں یہ ہمت نہیں کہ وہ عوام کو جمہوری آزادیوں سے محروم کر کے‘ من مانی کر سکے۔ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ان میں مسلسل بحث و مباحثہ جاری رہتا ہے اور عوام کے منتخب نمائندے مسائل کی نشاندہی کر کے‘ ان کے حل پر زور دیتے رہتے ہیں اور اس طرح وقت کے بدلتے تقاضوں کے مطابق تبدیلیاں لا کربھارتی ریاست اپنے عوام کو ناگہانی قدرتی آفات سے بڑی حد تک بچانے میں کامیاب رہتی ہے۔ بنگلہ دیش برصغیر میں قدرتی آفات کا سب سے زیادہ شکار رہتا ہے۔ وہاں سمندری طوفانوں اور بارشوں سے جو تباہی پھیلتی ہے‘ اس سے بچناکسی کے اختیار میں نہیں۔ اس کے باوجود بنگلہ دیش میں بھی مختلف قدرتی آفات سے بچائو کے لئے کوئی نہ کوئی تدبیر ہوتی رہتی ہے۔ 
پاکستان اس سلسلے میں تینوں ملکوں میں سب سے پیچھے جا رہا ہے۔ ہم نے توجہ دی ہوتی تو معمولی سی احتیاطی تدابیر اختیار کر کے‘ اپنے عوام کو سیلابوں‘ طوفانوں اور زلزلوں کے تباہ کن نقصانات سے بچا سکتے تھے۔لیکن ہمارے حکمرانوں کی دلچسپی عوام کو سہولتیں اور تحفظات فراہم کرنے میں کبھی نہیں رہی اور گزشتہ دو تین عشروں سے تولوٹ مار کی رفتار میں اتنی تیزی آئی ہے کہ عوامی مفادات کے لئے چھوٹے منصوبوں پر تو کوئی توجہ ہی نہیں دیتا۔ ہر حکمران کی کوشش رہتی ہے کہ وہ بڑے سے بڑے منصوبے تیار کر کے‘ بھاری فنڈز حاصل کرے تاکہ اپنے لئے زیادہ سے زیادہ رقوم بٹور سکے اور چند برسوں سے تو ناجائز کمائی گئی دولت کو بیرون ملک منتقل کرنے کا مقابلہ شروع ہے۔ جو بھی لاکھوں اور کروڑوں میں کماتا ہے‘ وہ اسے بیرونی ملکوں میں چھپا لیتا ہے۔ تھوڑی رقم کا چھپا کے رکھناتو آسان نہیں ہوتا کیونکہ رازداری کی بہت زیادہ قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ لیکن اگر رقم بھاری ہو‘ تو اسے چھپانے کی قیمت رقم کی نسبت سے کافی مناسب ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ اب زیادہ سے زیادہ سرمایہ بٹورنے کے لئے جان بوجھ کر بڑے منصوبے تیار کئے جاتے ہیں اور ان میں ایسے منصوبوں کو ترجیح دی جاتی ہے‘ جن میں بیرون ملک سے خریداریاں کرنا پڑتی ہوں۔ وہ بھی جتنی بڑی خریداری ہوتی ہو‘ اتنی ہی ''بچت‘‘ زیادہ ہو جاتی ہے۔ 
آپ نے دیکھا ہو گا کہ کئی برسوں سے چین کو بڑے بڑے آرڈر دیئے جا رہے ہیں۔ ریلوے کی مثال تو ہمارے سامنے ہے۔اس کے لئے جتنی بھی خریداریاں ہوتی ہیں‘ ان میں بھاری نفع لیا جاتا ہے۔ پاکستان میں چونکہ جوابدہی کا رواج نہیں‘ اس لئے خریداریوں کے ذمے دار افراد اور ادارے سب سے پہلے چین کو ترجیح دیتے ہیں۔ ریلوے کے لئے بڑے بڑے سودے کر کے متعلقہ وزیر یا افسر ایک ہی دائو میں بڑی بڑی رقوم کما لیتا ہے۔ ایک سابق فوجی وزیر نے تو کمال ہی کر دیا تھا۔ ریلوے کے انجن خریدتے ہوئے موصوف نے یہ بھی خیال نہ رکھا کہ انجن کا سائز کیا ہے؟ آنکھیں بند کر کے انجن خرید لئے گئے اور جب انہیں پاکستان لا کر چلایا گیا‘ تو پتہ چلا کہ ہمارے پلیٹ فارم ٹوٹتے جا رہے ہیں۔ وجہ یہ تھی کہ انجن زیادہ چوڑے تھے اور پلیٹ فارموں پر ان کے لئے چھوڑی گئی جگہ کم تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان انجنوں کی آمدورفت کو محدود کر کے چند ریلوے سٹیشنوں کی گنجائش میں اضافہ کیا گیا۔ موجودہ صورتحال کا مجھے علم نہیں کہ نئی گنجائشیں آج بھی زیراستعمال ہیں یا انہیں بعد میں پرانے سائز پر لایا گیا ہے۔ 
پی آئی اے کی کہانی تو بے حد المناک ہے۔ ایئرمارشل اصغر خان اور ایئرمارشل نورخان نے اس ادارے کو معیار‘ سہولتوں اورکرایوں کے معاملے میںانتہائی اعلیٰ معیار پر رکھا۔ اس کے باوجود اس کا سالانہ منافع بھی معقول رہا۔ سقوط مشرقی پاکستان کے بعد جب بھٹو صاحب اقتدار میں آئے‘ تو انہیں ایک حقیقی عوامی نمائندے کی حیثیت میں یہ اختیار رہا کہ دونوں سابق فوجی سربراہوں کے قائم کئے گئے معیاروں کو برقرار رکھا جائے۔ اس وقت سہگلوں کا گروپ صنعت کاری میں صف اول کے خاندانوں میں شمار ہوتا تھا۔ بھٹو صاحب کو خیال آیا کہ کیوں نہ رفیق سہگل کی خدمات سے فائدہ اٹھا کر‘ پی آئی اے کا معیار قائم رکھا جائے۔ انہوں نے ذاتی طور پر رفیق سہگل سے رابطہ کر کے انہیں منایا کہ وہ اپنے نجی کاروبار کو خاندان کے دیگر افراد کے سپرد کر کے‘ اپنی صلاحیتیں پی آئی اے کے لئے وقف کر دیں تاکہ یہ قومی ادارہ تباہی سے بچ جائے۔ ان دنوں مَیں پی ٹی وی پر ایک شو کا سکرپٹ لکھا کرتا تھا۔ اس میں رفیق سہگل کو بطور مہمان بلایا گیا اور ان سے پوچھا گیا کہ اگر ان سے کسی قومی خدمت کے لئے درخواست کی جائے تو کیا وہ اسے منظور کر لیں گے؟ رفیق سہگل نے بلاتامل جواب دیا کہ ''اپنے وطن کی خدمت کے لئے مجھے جھاڑو بھی دینا پڑے‘ تو میں خوشی سے دینے کو تیار ہوں۔‘‘ بھٹو صاحب‘ رفیق سہگل کا ردعمل جاننا چاہتے تھے۔ جب یہ جواب نشر ہوا‘ تو بھٹو صاحب نے بلاتاخیر ان سے پی آئی اے سنبھالنے کی فرمائش کر دی‘ جو قبول کر لی گئی اور انہیں پی آئی اے کی ذمہ داریاں سونپ دی گئیں۔ رفیق سہگل نے نہ صرف پی آئی اے کا معیار برقرار رکھا بلکہ اسے بہتر بھی بنایا۔ افسوس کہ ان کے بعد جو کوئی بھی آیا‘ وہ پی آئی اے کو سنبھالنے میں ناکام رہا۔ ہمارے ہاتھی کے جسم سے گھڑوں میں بھر کے خون نکالا گیا اور آج اس کا صرف ڈھانچہ باقی رہ گیا ہے۔ اس ''تبرک‘‘ کو جس فراخ دلی سے بانٹا گیا‘ اس کی کہانیاں زبان زدعام ہیں اور اب تو پی آئی اے کے وسائل سے ایک نجی ایئرلائن کھڑی کی جا رہی ہے‘ اس ایئر لائن کو سرکاری وسائل سے سرمایہ بھی فراہم کیا جائے گا اور انتظامی امور کے ذمہ دار‘ نئے مالکان کی جیبیں بھرنے کے لئے خدمات بھی انجام دیں گے۔ 
پاکستان میں ہر نیا تجارتی ادارہ قائم کر کے اسے فائدے میں چلانے کا نسخہ یہ ہوتا ہے کہ کسی بڑے سرکاری ادارے کا خون نکال کر‘ اپنے نجی ادارے کو تنومند کیا جائے۔ پاکستان میں تجارت سے وابستہ کوئی بھی تاجر آپ کو آسانی سے بتا دے گا کہ کونسا نجی ادارہ‘ کس سرکاری ادارے کا خون چوس کر کامیابی سے ہمکنار ہوا ہے؟ ریلوے کے اثاثے تو شمار میں ہی نہیں لائے جا سکے تھے۔ جس کسی کو بھی ریلوے کی ذمہ داریاں ملیں‘ وہ دیکھتے ہی دیکھتے کروڑوں اور اربوں میں کھیلنے لگا۔ ریلوے سے چرائے گئے لوہے کی بنیاد پر ان گنت تاجر کروڑ پتی بن گئے۔ افغان جنگ نے اس مارکیٹ کو نئی زندگی بخشی۔ افغانستان کا سکریپ انتہائی ارزاں داموں میں دستیاب ہے۔ یہ مصری شاہ لا کر اونے پونے نرخوں پر بیچا جاتا ہے۔ سکریپ کی آڑ میں ریلوے کا اپنا لوہا بھی سکریپ کے ریٹ پر فروخت کیا جاتا ہے۔ ایک انجن کا واقعہ تو آپ نے سن رکھا ہو گا۔ اللہ جانے غلط الزام تھا یا درست؟ لیکن یہ کہانی بہت چلی تھی کہ ریلوے کے ایک وزیرصاحب پورا انجن ہی بیچ گئے تھے۔ ریلوے کے پاس پاکستان کے طول و عرض میں وسیع زمین موجود ہے۔ اس کا ہر نیا سربراہ‘ ریل کے لوہے اور زمین سے پیٹ بھر کے استفادہ کرتا ہے اور ریلوے وہ ہاتھی ہے‘ جس کا ابھی تک کچھ نہیں بگڑا۔ ابھی تک اربوں روپے کی زمین محفوظ ہے‘ جو آنے والوں کی لوٹ مار کے انتظار میں ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ ریلوے کے قیمتی اثاثے فروخت کر کے‘ جو دولت کمائی جائے گی‘ وہ پاناما‘ ہانگ کانگ اوربرطانیہ کہاںجائے گی؟ اور جو شیر کا بچہ سٹیل ملز کے دام بٹورے گاوہ پاناما کا بادشاہ کہلائے گا۔ ہمارے شہروں اور دیہات میں ہر دوسرے تیسرے سال بارشوں اور سیلابوں سے تباہی ہوتی ہے۔ لیکن میں یہ جان کر حیران رہ گیا کہ ہمارے پاس آنے والی تباہی کی پیش گوئی کرنے والے آلات موجود نہیں۔ گزشتہ دنوں جاپانیوں کی ایک ٹیم ‘ پاکستان میں موسمی تباہ کاریوں کا جائزہ لینے آئی‘ تو اس نے آلات کا جائزہ لینے کے بعد ہمارے پیشگی نظام اطلاعات کی تصویریں حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ دریافت کرنے پر مہمانوں نے بتایا کہ ہم انہیں اپنے ملک لے جا کر عجائب گھر میں رکھیں گے اور لکھیں گے کہ آج کی دنیا میں بھی ایک ایسا ملک ہے‘ جو ان آلات کو پیشگوئی کے لئے استعمال کرتا ہے۔ حالانکہ یہ سامان اب ناقابل استعمال ہو چکا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں