"NNC" (space) message & send to 7575

ٹھینگا باجے

محاورے اجتماعی شعور کا نچوڑ ہوتے ہیں۔اگر عملی زندگی کے معاملات میں ان سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے تو کافی استفادہ کیا جا سکتا ہے۔خاص طور پر جب کوئی اجتماعی تجربہ ٹھس ہو جائے تو وہاں پر محاورہ کام آتا ہے۔ اس وقت میرے پیش نظر‘عوام کاایک جانا بوجھا محاورہ ہے:
جس کا کام اسی کو ساجھے
اور کرے تو ٹھینگا باجے
گزشتہ دو تین روز سے اپنی وزارت خزانہ کے'' کرشمے‘‘ دیکھ کر تکلیف اور پریشانی میں مبتلا ہوں۔منشی اسحق ڈار کی ماہرانہ سکیموں میںسے ایک یہ بھی ہے‘ جس کے تحت وہ تمام پنشنرز کو پنشن کی ادائی نیشنل بنک کے ذریعے کرتے ہیں۔پنشن ہر سرکاری ملازم کواس وقت ملتی ہے‘ جب وہ کام کاج کی عمر گزار کے‘ بڑھاپے میں قدم رکھتا ہے۔ اس سے پہلے وہ اپنی عمر کا بہترین حصہ حکومت کے محکموں میں خدمات انجام دیتے ہوئے گزارتا ہے۔بڑھاپا گزارنے کے لئے وہ ہر ماہ اپنی تنخواہ سے کچھ رقم‘ سرکاری خزانے میں بطور امانت جمع کراتا ہے‘ جس میں حکومت اپنی طرف سے مزید تھوڑی سی رقم شامل کر کے‘ اسے باقی عمر کے لئے پنشن کا حصہ بنا دیتی ہے تاکہ بڑھاپے میں وہ کسی کا محتاج نہ بنے اور اپنی ضروریات ‘عزت و آبرو کے ساتھ پوری کر سکے۔لیکن ہماری حکومت جو عزت و آبرو پنشنرز کو دیتی ہے‘ اس کی مثال ہر ماہ ‘ ہم ہر شہر میں جابجا دیکھتے ہیں۔آج کل شدید گرمی اور حبس کا موسم ہے اور ہم موجودہ مہینہ شامل کر کے تین ماہ سے پنشنروں کی عزت و آبرو کے جو مظاہرے دیکھ رہے ہیں‘ ا ن کی کیفیت دیکھ کر وزیر خزانہ‘ منشی اسحق ڈار کے لئے‘ دل سے یہی دعا نکلتی ہے کہ انہوں نے پیسہ تو ضرورت سے زیادہ اکٹھا کر لیا ہے‘ خدا انہیں ایسابڑھاپا عطا فرمائے‘ جس میں ان کا پیسہ کسی کام نہ آ سکے ۔ انہیںایسی ایسی ناگہانی تکالیف کا سامنا کرنا پڑے ‘ جس طرح بوڑھے پنشنرز کرتے ہیں۔
پنشنرز کی بد قسمتی کہ اس مرتبہ مہینے کی پہلی تاریخ عید کے دنوں میں آگئی۔ پنشنرز کے لئے عید کے ایام میں یکم تاریخ آجائے تو انہیں اضافی بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔سب سے پہلے تو ان کا ذاتی مسئلہ ہوتا ہے۔ وہ کئی کئی مہینے ایک جوڑے میں گزارتے ہیں اور عید سے پہلے کا جوڑا تو انہوں نے کئی ماہ پہلے خریدا ہوتا ہے اور عید نزدیک آجائے تو کوشش کرتے ہیں کہ پرانا جوڑا چاند رات تک چلائیں اور عید کے دن نیا جوڑا پہن کر نماز عید ادا کریں۔اس عید کی یہ خوشی‘ منشی اسحق ڈار نے چھین لی ۔ پنشن کسی بھی صورت بر وقت نہیں مل پائے گی۔ پنشن ملنے کے بعد‘ نہ کپڑا لے کر نیا جوڑا بنوایا جا سکے گا اور نہ ہی اس میں ریڈی میڈ جوڑا خریدنے کی استطاعت ہو گی۔گویا اس بار تو نوے فیصد پنشنرز کی عید تو غرق ہوئی۔ اس کے بعد وہ اپنے بیٹے بیٹیوں‘ پوتے پوتیوں میں سے جو بھی اللہ تعالیٰ نے دے رکھا ہو‘ اس کے لئے عید کا کوئی تحفہ یا چھوٹے بچوں کو کچھ کھلونے لے کر دے سکے‘ اس کی یہ خوشی بھی گئی۔ چاند رات کو بازاروں میں اتنا رش ہوتا ہے کہ کوئی بھی معمر شخص‘ نوجوانوں کی دھکم پیل میں اپنا راستہ کیسے بنا سکتا ہے؟نیشنل بنک پنشن کی ادائی کے لئے‘ معمر لوگوں کو جو سہولتیں فراہم کرتا ہے‘ ان سے زیادہ سہولتیں توجیلوں میں قیدیوں کو میسر ہوتی ہیں۔مثلاً جب قیدی راشن لینے کے لئے قطاریں لگاتے ہیں تو وہاں انہیں سایہ فراہم کر دیا جاتا ہے لیکن پنشنر جو طویل مدت پر پھیلی ہوئی‘ اپنی محنت کا صلہ وصول کرنے جاتا ہے تو اسے اپنی زندگی کے بدترین لمحوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ بنکوں کی طرف سے ایسا کوئی انتظام نہیں کیا جاتا کہ ریٹائرڈ لوگ اپنی پنشن کی رقم لینے کے لئے ‘ آرام سے اس کھڑکی تک پہنچ سکیں ‘جہاں سے ادائی کی جاتی ہے۔ نہ تو ان کے لئے اتنی جگہ ہوتی ہے کہ وہ قطار بنا سکیں اور‘ جگہ ہو تو قطار اتنی لمبی بنتی ہے کہ آخر میں جگہ پانے والے کی باری آنے تک کھڑکی بند ہو جاتی ہے۔
ضروری نہیں کہ پنشنر بنک کی مقررہ برانچ کے قریب رہتا ہو۔ ہمارے ملک میں بڑے سے بڑے بنک کی برانچ ہر گائوں میںموجود نہیں ہوتی۔ عام طور سے یہ برانچیں شہروں اور قصبوں میں ہوتی ہیں۔ پنشنرز کو اس معاملے میں کوئی امتیازی سہولت فراہم نہیں کی جاتی۔ حالانکہ آسانی سے یہ اہتمام کیا جا سکتا ہے کہ متعلقہ برانچ‘ پنشنرز کی فہرستیں تیار کر کے‘ نام کے ساتھ بنک برانچ سے فاصلے کا اندراج کر لے اور سب سے پہلے انہیں فارغ کیا جائے تاکہ وہ بروقت اپنے گھر واپس پہنچ سکیں اور جو جتنا نزدیک ہے‘اسے بعد میں پنشن دی جائے۔ یہ اتنا آسان بندوبست ہے کہ ایک بار کر لیا جائے تو پنشنرز کی پوری زندگی‘ اس کے لئے سہولت کا ذریعہ بنا رہے گا۔مگر یہ ایسے معاشروں میں ممکن ہے جہاں حکومتیں اور ادارے اپنے شہریوں کو عزت دینا جانتے ہیں اور خصوصاً ایسے لوگوں کو جنہوں نے زندگی بھر ریاست کی خدمت کی ہو۔حیرت کی بات یہ ہے کہ سرکاری اداروں کو چلانے والے وہی لوگ ہو تے ہیں‘ جنہیں ریٹائرمنٹ کے بعد خود بھی پنشن لینا ہوتی ہے۔جب گرمی اور حبس کے دنوں میں پنشنرز سائے کے بغیر‘زمین پر بیٹھے انتظار میں بھیگ رہے ہوتے ہیں اور ان کے بوڑھے پھیپھڑوں کو سانس لینے میں دشواریاں پیش آتی ہیں‘ اس وقت بنک کی برانچ کے اندر کام کرنے والے یہ نہیں سوچتے کہ ایک دن ‘انہیں بھی اس عذاب سے گزرنا پڑے گا۔پنشن کے انتظار میں کھڑکی سے باہر‘ انتظارکرنے والوں کے لئے نہ بیٹھنے کی جگہ ہوتی ہے ‘نہ موسمی حالات سے محفوظ رہنے کے لئے کوئی انتظام۔ میں نے موسم گرما کا ذکر دیا جبکہ موسم سرما کا انتظار مزید تکلیف دہ ہوتا ہے۔ سردی کے موسم میں جب ٹھنڈی ہوا چلتی ہے اور پنشنرز کے پاس مناسب کپڑے بھی نہیں ہوتے‘ تو وہ اپنے بوسیدہ لباسوں میں سردی سے بچنے کے لئے ‘کیسی کیسی تکالیف سے گزرتے ہیں؟ اس کا اندازہ سخت سردی میں بنکو ں کے باہر بیٹھے بوڑھے پنشنرز کی حالت دیکھ کر کیا جا سکتا ہے۔وہ سردی سے مناسب حفاظت کرنے والے گرم لباس خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ عموماً سوتی کپڑوں کے ساتھ سردی کا مقابلہ کرتے ہیں‘ جیسے ہمارے پنجاب میں کوئی موٹی سوتی چادر‘ کھیس یا لنڈے سے لیا ہوا کوئی کمبل۔سردی میں بیچارے پنشنرز کی حالت زار دیکھنا کسی بھی خدا ترس کے لئے تکلیف دہ منظر ہوتا ہے۔سب سے بڑی بات یہ کہ یہ ضعیف اور کمزور لوگ خیرات بھی نہیں مانگ سکتے۔ان پر ریٹائرڈ سرکاری ملازم کا ٹھپہ لگا ہوتا ہے۔ یہ اپنی عزت نفس کو قائم رکھنے کے لئے‘ خدا جانے کیسی کیسی تکالیف برداشت کرتے ہیں؟ جتنے سرکاری ملازم اپنے اپنے عہدوں یا کلرکیوں پر ٹھاٹ سے فرائض ادا کررہے ہوتے ہیں‘ کاش یہ سوچ لیں کہ ایک دن انہیں بھی پنشن لینا ہے اور ہر سرکاری ملازم کے لئے پنشن کی اہمیت کیا ہوتی ہے؟ اس کا اندازہ آپ نیب کے چیئرمین کو دیکھ کے کر سکتے ہیں جو انتہائی با اختیار منصب پر ہونے کے باوجود‘ پنشن چھوڑنا پسند نہیں کرتے۔گورنر سٹیٹ بنک کو آج جتنی سہولتیں اور تنخواہ حاصل ہے ‘ ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے پاس اس کا عشرعشیر بھی حاصل نہ ہو گا۔ پنشن کتنی بھی کم ہو‘ بہر حال منصب کے اعتبار سے حسب حیثیت نہیں ہوتی۔
آخر میں یہ جائزہ لیا جائے تو مناسب ہو گا کہ مختلف معاشروں نے‘ اپنے اپنے حالات میں ترقی کرتے ہوئے جو ریاستی نظام دریافت کئے ہیں‘ ان میں سب سے بہتر وہی قرار پائے‘جن میں عوامی نمائندوں کو برتری حاصل ہو۔عوامی نمائندگی کی خوبی کیا ہے؟ صرف یہ کہ جو شخص اپنے اپنے حلقے میں سب سے زیادہ ووٹ لے کر‘ کسی بھی ادارے کے لئے منتخب ہوتا ہے‘ اسی کو سب سے زیادہ اہل سمجھنا چاہئے۔یہ جاننے کی سب سے عمدہ مثال ہمارے وزیر خزانہ ہیں۔ وہ صرف حساب کتا ب کے ماہر ہیں۔ لیکن ان کی معاشی پالیسیوں میں انسانی ضرورتوں اور مجبوریوں کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ جہاں تک پیشہ وارانہ مہارتوں کا تعلق ہے‘ ان کی خدمات معاوضے پر حاصل کی جا سکتی ہیں۔ مثال کے طور پربھارتی بنئیو ں کی قوم ہے‘ اس کے چند وزرائے خزانہ کے نام پیش خدمت ہیں۔ پنڈت جواہر لعل نہرو‘ اندرا گاندھی‘ یشونت رائو چوہان‘ ہری بائی پٹیل‘ پرناب مکھر جی‘ وی پی سنگھ‘ راجیو گاندھی‘یشونت سنہا‘ من موہن سنگھ‘ جسونت سنگھ‘ پی چدم برم‘ اے کے گجرال۔پہلے تو یہی دیکھ لیں کہ ان کی قابلیت اور نمائندہ حیثیت کیا تھی؟ان میں چارٹرڈ اکائونٹنٹ کون تھا؟ اور ایک نظر اپنے وزرائے خزانہ کی فہرست پر بھی ڈال لیں۔ خود ہی سامنے آجائے گا کہ آج ہمارے مالیاتی نظام کی یہ حالت کیوں ہے؟ ہم نے ہمیشہ حساب دانوں فوقیت دی۔ لیکن عوامی نمائندگی کا حق اکثریتی ووٹ لینے والوں کو حاصل ہوتا ہے‘ عوام کی ضرورتوں اور مجبوریوں کو وہی سمجھ سکتے ہیں۔ تنخواہ سے غرض رکھنے والے کسی بڑے سے بڑے ماہر کو بھی یہ فکر نہیں ہوتی کہ عہدے سے فارغ ہونے کے بعد‘ اسے عوام کے درمیان جانا ہے۔ جس کی نوکری پکی اور ریٹائرمنٹ کے بعد کا سارا بوجھ حکومت پر ہو ‘ اسے کسی کی کیا فکر؟ جمہوریت میں حکمرانی کا حق صرف عوامی نمائندوں کو حاصل ہوتا ہے:
جس کا کام اسی کو ساجھے 
اور کرے تو ٹھینگا باجے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں