منتخب اسمبلیوں کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ان میں ہر طرح کے عوامی جذبات سامنے آتے رہتے ہیں۔ معاشرے میں کسی بھی گروپ اور فریق کو گھٹن کا احساس نہیں ہوتا اور نہ ہی عوام کے غیرمنظم انبوہ‘ انفرادی خیالات اور بحث و مباحثے کے متنوع موضوعات کی کمی محسوس کرتے ہیں۔ یوں معاشرہ ہر وقت متحرک اور نئے نئے خیالات سے مالامال ہوتا رہتا ہے۔ زندگی کے تمام تر مسائل اور مشکلات پر غیرمحسوس انداز میں قابو پا لیا جاتا ہے۔ کہیں گھٹن محسوس نہیں ہوتی۔ اختلاف رائے‘ تنازعات کا سبب نہیں بنتا۔ چوراہوں میں جمنے والی محفلیں‘ کسی نہ کسی انداز میں انفرادی خیالات کو اجتماعی دھارے میں شامل کرتی رہتی ہیں۔ اعلیٰ تعلیمی ادارے‘ مختلف موضوعات پر بحث و مباحثے کا اہتمام کرتے ہیں۔ مختلف رہائشی کالونیوں میں باہمی میل جول اور تبادلہ خیال کے مواقع پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ گردوپیش میں تبادلہ خیال کے مراکز قائم کرکے‘ شہری مسا ئل اور قومی سطح کے معاملات کو ہر سطح پر زیر بحث لایا جاتا ہے۔ لیکن وہ مربوط سلسلہ جو پوری قوم کی سوچوں اور رجحانات میں ہر سطح پر اپنا حصہ ڈالتا ہے‘ منتشر سرگرمیوں میں ربط کے عنصر کو نمایاں نہیں کرتا۔ بلدیاتی اداروں میں‘ شہری مسائل کے حل تلاش کئے جاتے ہیں۔ اسمبلیاں‘ صوبائی اور قومی معاملات پر غور کرکے‘ تبدیلی کے عمل کو قوانین کی شکل میں ڈھالتی رہتی ہیں۔ معاشرے میں کسی بھی سطح پر جمود پیدا نہیں ہوتا‘ لیکن ہمیں آمریتوں کے طویل ادوار میں‘ ان آزادیوں سے محروم رکھا گیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ ہم تبادلہ خیال کے مواقع سے محروم ہوتے گئے اور آج ہمارا یہ حال ہے کہ اسمبلیاں‘ عوامی مسائل اور ضروریات کو سامنے رکھ کر قانون سازی نہیں کرتیں۔ بلدیاتی اداروں کا وجود ہی ختم کر دیا گیا ہے۔ چھوٹے شہروں اور قصبوں میں مقامی مسائل پر‘ اجتماعی سوچ بچار کی گنجائش ہی نہیں۔ مزدور اور کسان‘ جو ہمارے معاشرے کے انتہائی
فعال اور طاقتور طبقے ہیں‘ انہیں سوچنے سمجھنے اور اجتماعی معاملات پر بات چیت کرنے کے مواقع ہی نہیں ملتے۔ جمہوری عمل کی اس عدم موجودگی کی وجہ سے‘ طاقت غالب آتی جا رہی ہے۔ پہلے افراد‘ طاقت کے ذریعے چھوٹے چھوٹے مقاصد پورے کیا کرتے تھے۔ اب یہ رجحان سیاسی جماعتوں کی طرف منتقل ہو گیا ہے۔ آپ حکومت سے اپنے مسائل حل کرنے کے لئے کوئی مطالبہ ہی نہیں کر سکتے۔ نام نہاد منتخب نمائندوں پر‘ اپنا حق جتا کر‘ اجتماعی مسائل کے حل کے لئے دبائو نہیں ڈال سکتے۔ صوبائی اور وفاقی حکومتیں‘ استحصالی گروہوں کے گٹھ جوڑ کا اجتماعی پلیٹ فارم ہیں‘ جہاں عوام کے استحصال کے منصوبے بنائے اور ان کے لئے فنڈز حاصل کئے جاتے ہیں۔ مذاکرات اور مباحثوں کی گنجائش ہی نہیں۔ حکمران طبقے نے گزشتہ دو اڑھائی عشروں کے دوران‘ جمہوری رویوں کو بری طرح کچل کے رکھ دیا ہے۔ اب کسی بھی کمیونٹی کو اپنے اجتماعی مفادات کے لئے حکومت سے مدد مانگنے کا اختیار ہی نہیں رہ گیا۔
جمہوری اداروں کے اراکین‘ ایک نئی طرح کی مخلوق بن کر سامنے آئے ہیں۔ ڈیرے داروں‘ مافیا ٹائپ تنظیموں اور ذات برادری کی بنیاد پر‘ گروہ بندی کرنے والوں نے اپنی طرز کا ایک نیا معاشرہ تشکیل دینا شروع کر دیا ہے۔ مفادات کے رشتے‘ انسانی رشتوں کی ہر قسم
پر غالب آ گئے ہیں۔آپ نے 2013ء سے لے کر اب تک وسیع پیمانے پر دو طرح کا انتخابی عمل دیکھا ہے۔ پہلا قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لئے 2013ء میں اور مقامی حکومتوں کے لئے بلدیاتی انتخابات 2015ء میں ہوئے۔ یہ دونوں انتخابات عجیب طرح کے تھے۔ ان میں تمام سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا۔ انتخابی مہمات بھی دیکھنے میں آئیں اور ووٹ بھی ڈالے گئے لیکن پاکستانی عوام جمہوری عمل کے مشاہدے اور تجربے سے آج تک محروم ہیں۔ قومی اور صوبائی انتخابات‘ عوامی طاقت کا اظہار نہیں بلکہ بالادستی کا مظاہرہ تھے۔ پنجاب اور سندھ میں دولت‘ اسلحے اور مقامی مافیائوں کی طاقت کا اظہار تھا۔ نام نہاد غیر جانبدار عبوری حکومت‘ درحقیقت پہلے سے برسر اقتدار طبقوں کی حاشیہ بردار تھی۔ بیورو کریسی پر سابق حکمرانوں کا پورا قبضہ تھا۔ انتخابی نتائج کے اعلانات مکمل ہونے سے پہلے ہی‘ وفاق اور پنجاب کی حکومتوں کے نہ صرف اعلانات کر دیے گئے بلکہ آگے بڑھ کر نظم و نسق پر بھی کنٹرول قائم کر لیا۔ ان انتخابات میں عوام جس قدر بے بس تھے‘ اس کی پاکستانی تاریخ میں کوئی مثال موجود نہیں۔ انتخابی نتائج کو ہر سطح پر مایوس کن قرار دیا گیا‘ لیکن انتخابی نتائج مکمل ہونے سے پہلے اقتدار پر قبضہ کرنے والوں نے ساری انتظامی مشینری بے دست و پا کرکے رکھ دی۔ متنازعہ انتخابات کی آڑ میں سندھ اور پنجاب کے طاقتور گروہوں نے نظم و نسق پر کنٹرول حاصل کرکے عوامی قوتوں کو بے اثر کر دیا۔ جو پارٹیاں بیوروکریسی میں اثر و رسوخ سے محروم تھیں‘ وہ فریاد ہی کرتی رہ گئیں کہ ان کے کامیاب امیدواروں کو شکست خوردہ قرار دے کر‘ پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ جن کے پاس طاقت اور پیسہ تھا‘ انہوں نے انتخابی نتائج کو چیلنج ضرور کیا لیکن اقتدار پر قبضہ کرکے بیٹھ جانے والے ٹس سے مس نہ ہوئے۔
عمران خان کی واحد آواز تھی جس نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کو چیلنج کیا لیکن یہاں انصاف حاصل کرنے کے لئے سٹریٹ پاور‘ الیکشن کمیشن کے حکام اور اس زمانے کی عدلیہ کی بیجا مداخلت‘ انصاف کی راہ میں دیوار بن کر کھڑی ہو گئی۔ جتنے کمزور امیدواروں کو طاقت کے بل بوتے پر زبردستی حصول انصاف سے محروم کیا گیا‘ وہ ٹھنڈی آہیں بھر کر گھروں میں بیٹھ گئے۔ یہاں ایک اور بات عرض کر دوں کہ انصاف لینے کے لئے‘ کروڑوں روپے کی رقوم درکار تھیں۔ ہر امیدوار اتنا بڑا‘ خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا کیونکہ حکومت پر قابض ہونے والے عناصر‘ نہ صرف اپنی گرفت مضبوط کر چکے تھے بلکہ انہوں نے حکومتیں چلانا بھی شروع کر دی تھیں۔ خان صاحب نے بے تحاشہ دھاندلی والے حلقوں کی نشاندہی کرکے ان میں صرف چار حلقے منتخب کرکے‘ وہاں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ شروع کر دیا۔ ان حلقوں سے حکومت پر قبضہ کرنے والی جماعت کے سرکردہ لیڈر شامل تھے۔ اپیل کرنے والے امیدواروں کو بھاری رقوم دے کر دوبارہ گنتی کی سہولت حاصل کرنا پڑی‘ لیکن وہاں بھی عجیب تماشے ہوئے۔ دوبارہ گنتی کے دوران‘ ووٹوں کے تھیلے ہی غائب کر دیے گئے۔ اس کے باوجود جو امیدوار حقیقت میں کامیاب تھے انہیں ناکام کرنے کے لئے منفی ہتھکنڈے استعمال کئے گئے۔ کسی امیدوار نے عدلیہ کی آڑ میں حکم امتناعی لے کر‘ اقتدار کے مزے اڑائے اور آج تک اڑا رہے ہیں۔ کسی نے قانونی موشگافیاں کرکے‘ اپنی دھاندلی سے جیتی ہوئی سیٹ برقرار رکھی اور بعض ایسے بھی ہیں‘ جنہوں نے دوبارہ گنتی کا موقع ہی نہیں آنے دیا۔ جمہوریت کے نام پر ایسی غیر نمائندہ حکومت‘ دھڑلے سے قائم کرنے اور چلانے کی یہ ایک شرمناک مثال ہے۔ لیکن شرم تو اسے آتی ہے جو اقتدار کی ہڈی چبانے کے بجائے‘ عزت کی روکھی سوکھی کھانے کو ترجیح دیتا ہے۔ آج ہماری جمہوریت ایسے ہی لوگوں کے قبضے میں ہے‘ جنہیں نہ عوام کے مسائل کا احساس ہے‘ نہ قانون و انصاف کی پروا۔ کسی زمانے میں کرپشن کی حدود ہوا کرتی تھیں‘ جو اب مٹا دی گئی ہیں۔ مختصر اور کمزور سی اپوزیشن کا مطالبہ مان کر‘ کرپشن کے سوال پر مذاکرات کے لئے آمادگی ظاہر کی گئی لیکن پہلی ہی نشست میں حکمران جماعت یا گروہ کے نمائندوں نے کہہ دیا کہ ''آپ ہمارے لیڈر اوراس کے بال بچوں پر لگائے گئے الزامات کا ذکر نہیں کریں گے۔ باقی ہم ہر مسئلے پر بات چیت کے لئے تیار ہیں‘‘۔ ایسی غاصبانہ دلیل‘ اندھی طاقت کے زعم میں ہی دی جا سکتی ہے اور ہمارے ہاں یہی ہو رہا ہے۔
میں نے اپنی بات جمہوریت کے لوازمات سے شروع کی تھی اور مختلف مثالیں دے کر عرض کیا تھا کہ جمہوریت کے لوازمات کیا ہوتے ہیں؟ موضوع بہت وسیع تھا۔ میں نے اختصار کے ساتھ ‘چیدہ چیدہ مثالیں پیش کی ہیں مگر میں مایوس ہرگز نہیں۔ جتنا عوام کو کچلا جاتا ہے‘ اتنی ہی شدت سے ان کی طرف سے‘ جواب بھی آیا کرتا ہے۔ پاکستانی عوام بے پناہ صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ جس طرح وہ ظلم اور نا انصافی برداشت کر رہے ہیں‘ تاریخ بتاتی ہے کہ جواب بھی اسی انداز میں آیا کرتا ہے۔ یہ جواب کسی بھی وقت آ سکتا ہے۔ جبر کے دن تھوڑے ہیں۔ صبر کے دن تھوڑے ہیں۔