نسلی‘ مذہبی یا تہذیبی بنیادوں پر جب مختلف انسانی گروہوں کو نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا‘ تو وہ اپنے نئے وطن کے ایسے علاقوں میں جا کر آباد ہوئے‘ جہاں مقامی لوگوں کے ساتھ ان کے مذہبی‘ نسلی یا تہذیبی رشتے موجود تھے اور انہی رشتوں کی بنیاد پر وہ جلد ہی مقامی آبادیوں میں گھل مل گئے۔ برصغیر میں جس وسیع پیمانے پر عوام کو بھاری تعداد میں نقل مکانی کرنا پڑی‘ اس کی بنیاد مذہب تھی۔ ہندوستان کے مخصوص تہذیبی حالات میں ‘انسانی گروہوں کے درمیان پہلے ہی ذات پات کی شکل میں‘ ایک منفرد تقسیم موجود تھی اور یہ اتنی خوفناک تھی کہ برصغیر کی آزادی کے بعد آج بھی اسے ختم نہیں کیا جا سکا۔ بھارت کی مقامی آبادیوں میں مذہب کی یکسانیت اس تقسیم پر غالب نہیں آ سکی۔ مسلمان‘ فاتحین کی حیثیت سے برصغیر پر حملہ آور ہوئے اور یہیں کے ہو رہے۔ یہ فاتحین جو بڑی تعداد میں برصغیر کے اندر آبادہوتے رہے‘ وقت کے ساتھ ساتھ مقامی آبادیوں میں گھلتے ملتے گئے۔ لیکن ہندوستان کے تہذیبی ڈھانچے میں‘ ذات پات کی جو تقسیم پہلے سے موجود تھی‘ مقامی آبادی اس سے نجات حاصل نہ کر سکی۔ فاتحین کے درمیان مختلف بنیادوں پر تقسیم ضرور موجود تھی‘ جیسے برتر نسلی امتیاز یا پیشہ ورانہ تقسیم‘ جو عموماً جنگ کے مختلف پیشوں سے تعلق رکھتی تھی۔ لیکن پیدائشی بنیادوں پر نسلی کمتری یا برتری کا تصور ‘ فاتحین میں مذہبی بنیادوں پر موجود نہیں تھا۔ مقامی ہندو آبادی میں‘ مذہب ایک ہونے کے باوجود ‘ اس میں برابری کا وہ تصور جگہ نہ پا سکا‘ جو مسلمانوں کے درمیان تھا۔ یہ رنگارنگ معاشرہ ‘ایک ہزارسال کے باہمی میل جول کے باوجود‘ مضبوط رشتے پیدا نہ کر سکا۔ فاتحین اور مفتوحوں کوایک ساتھ رہنا پڑا توضرورتوں نے توسماجی رشتے استوار کر دیئے‘ لیکن دوریاںختم نہ ہو سکیں۔ غیرملکی مسلمانوں اور مقامی ہندوئوں کا باہمی میل جول بھی ان کی دوریوں کو ختم نہ کر سکا۔برہمن اور راجپوت‘ جو ہندو معاشرے کے برترنسلی تصورات کے اسیر تھے‘ انہوں نے بیرونی آبادکاروں کے لئے ‘اپنے سماج میں جو نئی جگہ پیدا کی‘ اس کو ہندو معاشرے نے نچلی ذات پات کے درجے میں رکھ لیا۔انفرادی طور پر کسی بھی طبقے سے ‘ کوئی بھی شخص ‘ذاتی صلاحیتوں کی بنا پر‘ امتیازی حیثیت حاصل کر لیتا‘ تو اونچی ذات کے ہندو ‘ انفرادی سطح پر تو اس کے ساتھ میل جول گوارا کر لیتے لیکن ہمسری کا درجہ ہرگز نہیں دیتے تھے۔ اس کی ایک مثال مجھے ہمیشہ یاد رہتی ہے۔ ہندوستان کے چند بڑے صنعتکاروں میں سے ایک خاندان قائداعظم محمد علی جناحؒ کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتا تھا۔ ملک کے ممتاز سیاستدانوں سے اس کے ذاتی مراسم تھے۔ پنڈت نہرو اور قائد اعظمؒ کے مابین آزادی کے بعد کی حکومت سازی پر اختلاف تھا۔ یہ مسئلہ حل کرنے کے لئے‘ ہندوصنعتکار نے اپنے گھر پہ فریقین کو ایک دعوت دی۔ جب سارے چلے گئے تو قائداعظمؒ نے اپنے دوست سے کہا''تمہیں اندازہ ہے کہ جو برتن میرے کھانے میں استعمال ہوئے‘ہمارے جانے کے بعد یہ سارے ٹریش میں پھینکوا دے گا۔‘‘حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں پر جبراً علیحدہ وطن مسلط کیا گیا۔ ہماری خوش نصیبی تھی کہ ہم نے پاکستان کو مضبوط اور ناقابل تسخیر بنا کر ‘ ہندو کے منصوبے خاک میں ملا دیئے‘ ورنہ اس کے عزائم کچھ اور تھے۔ مسلمانوں کے جتنے بھی گروپ ‘باہمی یکجہتی کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں‘ درحقیقت وہ مسلمانوں کو باہم برسرپیکار کر کے‘ ان کی اجتماعی طاقت کو پارہ پارہ کرنے کے لئے مسلسل کوشاں رہتے ہیں۔ الطاف حسین کے تازہ ارشادات اسی منصوبے کا حصہ ہیں۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ ہندوقیادت نے مشرقی پاکستانیوں کے بعد‘ مغربی پاکستان کی مہاجرآبادی پر بھی توجہ مرکوز کر دی۔ بلوچوں اور مہاجرلیڈر الطاف حسین کے ساتھ مودی کی ہمدردیاں اور نوازشریف سے دوستی ‘سب ایک ہی منصوبے کا حصہ ہیں۔ مشرقی پاکستان میں مسلمان مہاجروں کو جس المیے سے گزرنا پڑا‘ اس کی ایک جھلک علی احمد خان کی یادداشتوں پر مبنی ایک کتاب میں ملتی ہے۔ اس کتاب پر محمدحنیف کاتبصرہ ‘بی بی سی ڈاٹ کام میں پڑھنے کو ملا۔ پیش کر رہا ہوں:
''انڈیا کی تقسیم ‘مشرقی یو پی کے ایک گھر میں بٹوارا ڈال دیتی ہے۔ باپ پاکستان جانے سے انکار کر دیتا ہے۔ دو بچے ‘چچا اور باقی خاندان کے ساتھ ایک جہاز میں پاکستان کے لیے روانہ ہوتے ہیں۔ الوداع کہنے کا وقت آتا ہے تو بچے کو رونا آتا ہے لیکن وہ پھر جہاز کے اپنے پہلے سفر کی حیرت میں گم ہو جاتا ہے۔چند سال بعد یہی دو بچے کراچی سے چٹاگانگ جانے والے ایک بحری جہاز کے عرشے پر اپنے باپ سے ملنے کے لئے مشرقی پاکستان جا رہے ہیں۔ مشرقی یو پی سے لاکھوں لوگوں کی طرح بچوں کا باپ بھی مشرقی بنگال پہنچ چکا ہے اور ایک کھاتی پیتی بہاری برادری کا حصہ بن چکا ہے۔کئی سالوں بعد یہی بچہ جوان ہو کر فاطمہ جناح کی اِنتخابی مہم میں شریک ہے۔ اْس کی ذمے داری ہے کہ ڈھاکہ کے مقامی محلے میں بنے ایک دفتر سے سارے بی ڈی ممبرز کو خط لِکھے اور انہیں قائل کرے۔ وہ دِن رات فاطمہ جناح کے حق میں پیغامات لکھتا ہے، لفافوں میں بند کر کے اڈریس لکھتا ہے‘ جِسے اْس کے ساتھی کارکن ڈاک کے ذریعے بی ڈی ممبروں کو بھیجتے ہیں۔بعد میں یہ نوجوان سوچتا ہے کہ جتنے الفاظ اْس نے اِن لفافوں میں بند کئے ہیں‘ اِن سے ایک ڈائری یا ایک مْفید اور ضخیم کتاب مرتب ہو سکتی ہے۔علی احمد خان کی یہ کتاب لِکھی گئی لیکن کوئی نِصف صدی بعد۔ دیر آید درست آید شاید اِسی کتاب کے لیے کہا گیا تھا۔ میں نے بچپن سے مہم جوؤں کی، بادشاہوں کی، شاعروں کی اور شکاریوں کی یاداشتیں پڑھی ہیں لیکن بہت کم ایسا ہوا ہے کہ صفحہ پلٹنے سے پہلے گہرا سانس لینا پڑے۔صفحے سے اْٹھتی ہوئی کشیدگی اِتنی شّدت اِختیار کر جائے کہ آپ کو چند مِنٹوں کے لیے کتاب بند کرنی پڑے اور بعض دفعہ ایک پیرا دوبارہ پڑھنا پڑے کہ یا خدا کوئی اِتنی ہولناک بات، اِتنے سپاٹ، غیر جذباتی اور تصنع سے پاک پیرائے میں کیسے کر سکتا ہے۔
سقوط مشرقی پاکستان یا بنگلہ دیش کی آزادی، آپ اپنی پسند کا کوئی بھی نام دے دیں 1971ء پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ سمجھا جاتا ہے ۔لیکن اگر آپ یاد کرنے کی کوشش کریں کہ کیا آپ نے اِس کے بارے میں کوئی ڈاکومنٹری فلم دیکھی ہے یا کتاب پڑھی ہے تو زیادہ پڑھے لکھے لوگوں کو بھی بریگیڈئیر صدیق سالک مرحوم کی کتاب ''میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘ کے علاوہ شاید کوئی کتاب یاد نہ آئے۔( یہ بھی ستم ظریفی ہے کہ کتاب کا انگریزی میں نام "witness to surrender" ہے‘ جِس کا اْردو ترجمہ شکست کی گواہی بنتا ہے لیکن اْردو میں یہی کتاب ''میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘ بن جاتی ہے)۔ جیسے ڈھاکا ساون کی گھٹاؤں کی نذر ہو گیا۔ اِس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ہم انگریز کی زبان میں تو اپنی شکست پر بات کر سکتے ہیں لیکن اپنی زبان میں ،اپنی تاریخ پر بات کرتے ہوئے شرماتے ہیں۔
''میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘ بھی ہم تک غالباً اِس لئے پہنچی کہ صدیق سالک مرحوم بریگیڈئیر تھے اور کتاب کو سکولوں، کالجوں کی لائبریریوں تک پہنچایا گیا۔ اگر آپ واقعی جاننا چاہتے ہیں کہ ڈھاکا کیسے ڈوبا؟ تو علی احمد خان کی کتاب کا صفحہ 133 کھولیں۔ ڈھاکا میں فوجی ایکشن کے بعد ایک گڑھے میں تین لاشیں تیر رہی ہیں ۔اْن کے گرد گدھوں کا ایک ہجوم ہے۔ وقفے وقفے سے گِدھ اْڑ کر لاش پر پنجے جماتا ہے۔ لاش گِدھ کے بوجھ سے ڈوبنے لگتی ہے۔ گِدھ اْڑ جاتا ہے۔ یہ کاروائی دو تین دِن چلتی ہے۔ آخر پانی سوکھتا ہے اور گِدھوں کو اپنی خوراک ملتی ہے۔
علی احمد خان نے ڈھاکہ ڈوبتے ہی نہیں دیکھا اپنا خاندان بھی اْسی ڈھاکہ کے ساتھ ڈوبتے دیکھا اور اپنے ہی وطن میں پناہ گزین ہوئے اور پھر ایک ایسی طویل ہجرت کی جو کِسی اْداس ایڈونچر فلم کا اِختتامیہ لگتی ہے۔ نئے نئے آزاد ہوئے بنگلہ دیش سے جعلی پاسپورٹ پر واپس انڈیا جہاں سے سفر شروع ہوا تھا۔ وہاں سے نیپال اور نیپال سے تھائی لینڈ اور وہاں سے واپس کراچی۔
اور اِس پورے عرصے میں زندہ رہنے والوں کو یہ نہیں پتہ کہ باقی زندہ رہنے والے کہاں گئے؟ جن کے بارے میں پتہ چلا کہ مارے گئے ،اْن کی نہ کوئی قبر نہ کوئی نشان۔ کراچی واپسی کے بعد خبر ملتی ہے کہ ایک بھائی جس کے بارے میں پتہ چلا تھا کہ مارا گیا، بھارت کے کسی جنگی قیدیوں کے کیمپ میں دکھائی دیتا ہے۔ بعد میں پتہ چلتا ہے کہ نہیں وہ کوئی اور تھا۔ ایک مبہم سی اْمید بھی آخری ہچکی لے کر دم توڑ دیتی ہے۔
جو لوگ آج تک بحث کرتے ہیں کہ ڈھاکا میں شکست کی ذّمہ دار فوج تھی، ہمارے سیاستدان یا یہ سب کچھ بھارت کا انتقام تھا۔ وہ یہ کبھی نہیں پوچھتے کہ مشرقی پاکستان میں لوگ کیسے رہتے تھے؟ بنگالیوں اور غیر بنگالیوں کے رشتے کیسے تھے؟ اگر وہ لوگ یہ کتاب پڑھ لیں تو اْنہیں پتہ چلے کہ جب ایک جسم کو دو ٹکڑوں میں کاٹا جاتا ہے تو کیسے کیسے غیر متوقع زخم لگتے ہیں؟ کہاں کہاں سے خون بہتا ہے اور کب تک بہتا رہتا ہے؟پوری کتاب میں بیان کئے گئے دردناک واقعات کے باوجود بیانیے پر ایک اْداس سی مسکراہٹ بکھری ہوئی ہے۔ بعض دفعہ آپ مسکراتے ہیں اور پھر شرمندہ ہوتے ہیں اور کبھی روتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ مصنف نے تو کوئی جذباتی بات کی ہی نہیں۔ کیونکہ مصنف کتاب کی غالباً واحد جذباتی بات کتاب کی آخری سطروں میں کہتے ہیں:
''میرے حال پر میرے ماضی کا غلبہ کچھ زیادہ ہو گیا ہے اور مستقبل کا خوف ہمہ وقت ذہن پر مسلط رہتا ہے۔ گھر میں بیٹھا سوچتا رہتا ہوں یہ کہیں پھر نہ لْٹ جائے؟ بچوں کو جوان ہوتے دیکھتا ہوں تو ڈر لگتا ہے کہ کہیں پھر نہ قتل ہو جائیں؟‘‘