پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی تمام جنگیں‘ کہیں نہ کہیں زمینی قبضے کی جنگیں تھیں۔ پہلی جنگ 1965ء میں‘رن کچھ کے تنازعے پر ہوئی تھی۔وہ جنگ بین الاقوامی ثالثوں کی مدد سے اختتام کو پہنچی۔ لیکن دونوں ملکوں کے درمیان جو کشیدگی اور بدگمانی پیدا ہو گئی تھی‘ وہ ختم نہ ہو سکی۔ اور اسی سال ستمبر میں‘1965 ء کی مشہور جنگ شروع ہوئی۔ جس نے پاکستان اور بھارت کے درمیان ‘زمینی تنازعے کو انجام تک پہنچا دیا۔یہ جنگ پاکستان کے فوجی حکمران‘ جنرل ایوب خان نے شروع کی تھی اور فوجی ذہن جس طرزِ فکر کا عادی ہوتا ہے‘اس میں فتح اور شکست کو زمینی قبضوں کی صورت میں دیکھا جاتا ہے لیکن سیاسی ذہن‘ ہمیشہ بنیادی تنازعے کے حل کی طرف دیکھتا ہے۔ ایوب خان کو رن کچھ میں ‘تھوڑی سی ریتلی زمین لے کر یہ زعم ہو گیا کہ وہ بھارت کو زمینی جنگ میں پسپا کر سکتا ہے۔65ء کی جنگ میں ایوب خان نے جموں کے علاقے میں دریائے توی پار کر کے‘ وہاں کے بڑے قصبے‘ اکھنور کی طرف پیش قدمی شروع کر دی۔اس بار بھارت رن کچھ کا حساب چکانے پر تلا تھا۔ اس نے فوراً ہی سیالکوٹ اور لاہور پر قبضے کا فیصلہ کیا اور گوجرانوالہ کے قریب جی ٹی روڈ پار کرنے کی تیاری کر لی۔ ایوب خان اور اس کے ساتھیوں کو جب بھارتی منصوبوں کا اندازہ ہوا تو اسے کشمیر لینے کے بجائے‘ خود پاکستان کی سلامتی خطرے میں نظر آئی۔ مجبوراً عالمی طاقتوں کی مدد سے مذاکرات شروع کرنا پڑے۔
جنگ کی ابتدا میں ہی‘ بھارت کا پلہ بھاری نظر آنے لگا اور پاکستان کے فوجی حکمرانوں کو اپنے سرپرست‘ امریکہ سے مدد کی درخواست کرنا پڑی کہ وہ دونوں ملکوں کے مابین جنگ بندی کرا دے۔امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے مل کر‘ جنگ بندی کا معاہدہ کرایا۔ اس کے بعد‘ آئندہ کی جنگوں سے محفوظ رہنے کے لئے‘ امریکہ ہی سے مدد مانگنا پڑی کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان صلح کا معاہدہ کرا دے لیکن امریکہ کو اس مرتبہ یہ شکایت تھی کہ اس نے جو اسلحہ‘ سوویت بلاک کے خلاف استعمال کرنے کے لئے پاکستان کو دیا تھا‘ بھارت کے خلاف استعمال کیا گیا ۔ جس پر امریکہ سخت ناراض تھا اور اس نے پاکستان اور بھارت کے درمیان صلح کا معاہدہ کرانے سے انکار کر دیا اور حریف‘ سوویت یونین سے فرمائش کی کہ وہ اپنے ہی کسی علاقے میں پاکستان اور بھار ت کے مابین ثالثی کا کردار ادا کر تے ہوئے‘ امن معاہدہ کرائے۔معاہدہ تاشقند کے نام سے امن کا سمجھوتہ کرایا گیا ۔ایوب خان کے وزیر خارجہ‘ ذوالفقار علی بھٹو اس معاہدے کے حق میں نہیں تھے۔ چنانچہ وہ شروع سے آخر تک‘ اس معاہدے سے لاتعلق رہے۔ انہوں نے معاہدے پر کسی قسم کے تبصرے سے انکار کر دیا اور واپس پاکستان آنے کے بعد‘ معاہدے کی مخالفت شر وع کردی۔اسی معاہدے کے خلاف بھرپور عوامی مہم چلا کر ‘بھٹو صاحب نے ایوب خان کی سیاسی طاقت کو مجروح کر دیا۔اس کے بعد‘ ایوب خان کے قدم نہ جم سکے۔1965ء کی جنگ میں ‘مشرقی پاکستان کے لیڈروں نے‘ وہاں کے عوام کو باور کرادیا کہ جنگ صرف مغربی پاکستان کے لئے لڑی گئی جبکہ مشرقی پاکستان کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا۔
1970ء میں عام انتخابات آئے تو پاکستان کی تقسیم کے انتظامات کئے جا چکے تھے۔ مشرقی پاکستانیوں کی اکثریت کو ختم کرنے کے لئے‘مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کو یکجا کر کے‘ مغربی پاکستان کے نام سے ایک صوبہ بنا دیا گیا تھااور دونو ں کو پارلیمنٹ میں مساوی حیثیت دے کردویونٹوں پر مشتمل ملک قرار دے دیا گیا۔اس کا مقصد یہ تھا کہ مشرقی پاکستانیوں کی اکثریت کو تسلیم کرنے کے بجائے‘ اسے مغربی پاکستان کی تھوڑی آبادی کے مساوی قرار دے دیا جائے۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کے دونوں یونٹوں کو مساوی قرار دے کر‘ قومی اسمبلی ان کی نشستیں برابر کر دی گئیں۔ یہ وہ زخم تھا‘ جو مغربی پاکستان کے حکمران سیاست دانوں اور جرنیلوں نے مشرقی پاکستان کو لگایا۔ جمہوریت وہ نظام حکومت ہے ‘جس میں ہر فرد‘ اپنے ووٹ کی بنیاد پر‘ حق مانگتا ہے لیکن یہ جہالت کی انتہا تھی کہ اپنے ہی ملک کے اکثریتی صوبے کو ‘اقلیتی صوبے کے مساوی قرار دے کر‘ برابر کا حق اقتدار دے دیا گیا۔مشرقی پاکستان کے عوام‘ یہ نا انصافی کسی طور برداشت کرنے کو تیار نہیں تھے۔ جب1970ء کی انتخابی مہم چلی تو ون یونٹ ٹوٹنے کے بعد‘ پانچوں صوبوں کو ان کی آبادی کے مطابق حقوق دینا پڑے لیکن مغربی پاکستان کے جاگیردار سیاست دانوںاور جرنیلوں کویہ صورت حال ہرگز قبول نہ تھی۔ جب انتخابی نتائج سامنے آئے تو عوامی لیگ‘ صرف اپنے اکثریتی ووٹوں کے بل بوتے پر‘ پورے ملک کی حکمرانی کی دعویدار بن گئی۔ جس کی وہ بجا طور پر حق دار تھی۔
مغربی پاکستان کے سیاست دانوں نے مشرقی پاکستان کا اکثریتی حق تو مان لیا لیکن آئین سازی میں جھگڑا ڈال کے‘ شیخ مجیب الرحمن کو اس کا حق دینے سے انکار کر دیا۔شیخ مجیب واحد اکثریتی صوبے سے فیصلہ کن اکثریت لے کر‘ وزارت عظمیٰ کے امیدوار بن گئے تھے۔ یہ پاکستان کو بچانے کا آخری موقع تھا۔ جمہوری اصولوں کے مطابق‘ وزارت عظمیٰ ان کا حق تھا‘ جسے سازشی سیاست دانوں نے ایک بار پھر دھوکے‘فریب اور سازش کے ذریعے‘ سلب کرنے کی کوشش کی ۔ جب قومی اسمبلی میں‘ مشرقی پاکستان کے سیاست دان کسی دوسرے کی مددکے بغیر‘ حکومت بنانے پر اصرار کرنے لگے تو مغربی پاکستان کے سازشی ٹولے نے‘ اپنے ہی ملک پر چڑھائی کر دی۔ مشرقی پاکستان‘ بھارتی فوج کی مدد سے الگ ہو گیا ۔ آج وہ بنگلہ دیش ہے۔میں نے یہ المناک واقعہ‘ انتہائی اختصار سے بیان کیا ہے۔
ان دنوں بھارت کے سائز اور طاقت کا اندازہ کئے بغیر ‘اس سے ٹکرا جانے کے جو دعوے کئے جا رہے ہیں ‘ مجھے پھر70ء کا عشرہ یاد آرہا ہے۔واحد اکثریتی صوبہ ہونے کی وجہ سے‘ پنجاب کے حکمران‘ دیگر صوبوں کے ساتھ جو سلوک کر رہے ہیں۔ مجھے اس کے انجام پر بھی تشویش ہے۔ اقتصادی راہداری کے اصل چینی منصوبے کااہم ترین حصہ‘ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں تعمیر ہونا تھا۔چونکہ وفاقی حکومت‘ پنجابی سیاست دانوں کے کنٹرول میں ہے۔اس لئے وہ حیلے بہانوں سے اصل نقشے میں ردوبدل کرتے جا رہے ہیں جبکہ مذکورہ دونوں صوبوں کے سیاست دان‘ان کے سب ارادوں کو بھانپ چکے ہیں۔ مجھے ان دونوں صوبوں کے سیاست دانوں کی حب الوطنی پر کوئی شبہ نہیں۔ا بھی تک ان کے حصے میں آنے والی اقتصادی راہداری کے بہت سے حصے کی کانٹ چھانٹ کی جا رہی ہے ۔ جس پر دونوں صوبوں کی حکمران کولیشنیں‘ دبی آواز میں بے اطمینانی کا اظہار کر رہی ہیں۔بھارتی حکمرانوں نے زبردستی بلوچستان کے ساتھ ہمدردیاں جتانا شروع کر دی ہیں۔خیبر پختونخوا کے پرانے سیاست دانوں کے ‘بھارتی سیاست دانوں سے دیرینہ رشتے ہیں ۔ سندھ کی دوسری بڑی جماعت پر ' را‘ سے تعلقات کے مسلسل الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ آج کی نئی نسل کو شاید اندازہ نہیں کہ مہاراشٹرا‘گجرات اور راجستھا ن میں سندھیوں کی قریبی رشتے داریاں ہیں ۔ ان تینوں صوبوں کے عوام کو ایسی کوئی مجبوری نہیں کہ وہ پنجاب کے حکمرانوں کے حاشیہ بردار بن کر زندگی گزاریں۔ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں‘ پنجاب کے حکمران طبقوں نے بنیادی کردار ادا کیا تھا۔آج پنجاب کے حکمرانوں کا کردار‘ ماضی سے کہیں زیادہ موثر ہے۔وقت کے متعدد دھارے ‘جو مختلف سمتوں میں بہتے چلے جا رہے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ان کی منزل کیا ہو گی؟ اور اس سے بھی زیادہ نا قابل فہم بات یہ ہے کہ موجودہ پاکستان میں سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے طبقے‘ اپنے ہی راستوں کو دشوار کیوں بناتے جا رہے ہیں؟