"NNC" (space) message & send to 7575

تنگ نظر بھارتی

آج میں ان دو لیڈروں کو یاد کر رہا ہوں‘ جو ہندوستان کو دو قوموں میں تقسیم کرنے کے تصورات سے نبرد آزما تھے۔ کلدیپ نیئر نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ''تقسیم وطن سے قبل قائد اعظم محمد علی جناح نے مجھے یہ مثال دی تھی ‘ جب میں نے ان سے پوچھا تھا کہ انگریزوں کے جانے کے بعد ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کا گلا پکڑ لیں گے‘ تو قائد اعظم نے کہا تھا‘ہم سب اچھے دوست ہوں گے۔ مجھے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایک دن ایسا ہی ہو گا۔ سابق وزرائے اعظم ‘اٹل بہاری واجپائی اور من موہن سنگھ نے کئی مرتبہ کہا ہے کہ معیشت نے بھارت اور پاکستان کو ساتھ ساتھ کھڑا کر دیا ہے اور اچھا دوست ہونے کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں‘‘۔ قائد اعظم نے یہ امید 70سال پہلے ظاہر کی ہو گی اور بھارت کے دو سابق وزرائے اعظم نے ‘قائد سے 50 سال بعد اور کلدیپ نیئر نے 7سال پہلے۔ مختلف ادوار میں‘ اعلیٰ درجے کے مدبروں اور دانشوروں نے اسی ایک امید کے ساتھ‘ مستقبل کے خواب دیکھے ہوں گے۔ لیکن وہ مستقبل آیا اور گزر گیا۔ ابھی تک گزر رہا ہے۔ لیکن ہر عہد میں دیکھے گئے کسی خواب کی تعبیر سامنے نہیں آئی۔ یہی برصغیر تھا جس میں متعدد باہمی جنگیں برپا ہوئیں۔ لیکن ان میں ایک دو سے زیادہ جنگیں‘ مذہب کی بنیادوں پر نہیں تھیں۔ ایسی جنگیں زیادہ تر اورنگزیب کے عہد میں ہوئی تھیں۔ لیکن انگریز کی غلامی سے آزادی حاصل کرنے کی جنگوں میں سے ‘ایک بھی بنیادی طور پر مذہبی نہیں تھی۔ برصغیر کی طویل تاریخ میں ‘چند برس کی مذہبی جنگوں کے سوا بیشتر سیاسی یا علاقائی جنگیں تھیں۔ زیادہ تر قومی آزادی کی جنگیں ہوئیں۔ خصوصاً انگریز کی غلامی کے خلاف لڑی جانے والی جنگیں‘ مذہبی منافرت سے محفوظ تھیں۔
بنگال میں بیرونی حکمرانوں کے خلاف لڑی گئی بیشتر جنگیں‘ قومی آزادی کی جنگیں تھیں۔ ان میں ہندو‘ مسلم‘ عیسائی اور سکھ‘ سب کے سب ایک ہی صف میں ہوتے تھے۔ آزادی کی جنگیں لڑنے والوں سے‘ جن لوگوں نے غداریاں کیں‘ ان میں مذہب کو خصوصی امتیاز حاصل نہیں تھا۔ جنگ آزادی لڑنے والے مسلمانوں سے غداریاں کرنے والے بھی مسلمان تھے۔جعفر از بنگال‘ صادق از دکن۔جب برصغیر کی قومی آزادی کا دور آیا‘ تو اس میں مذہب کا رنگ حاوی نہیں تھا۔ پہلی جنگ آزادی ‘ ہندوئوں‘ مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں نے دوش بدوش لڑی۔ قائد اعظم‘ مہاتما گاندھی‘ پنڈت جواہر لال نہرو‘ لیاقت علی خان‘ مولانا شوکت علی‘ مولانا محمد علی جوہر‘ غرض پورے ہندوستان کو محیط آزادی کی جنگیں لڑنے والے‘ ایک ہی سیاسی تنظیم سے منسلک تھے۔ مجموعی طور پر یہ سب آل انڈیا کانگرس کے پرچم تلے اکٹھے تھے۔ جدوجہد آزادی کے آخری دنوں میں‘ بعض مذہبی عناصر نے‘ سیاسی جدوجہد میں پھوٹ ڈالنے کی کوششیں کیں۔ ان میں علاقائی شناختیں رکھنے والے زیادہ تر ہندو تھے‘ جو مسلمانوں کے دوش بدوش ‘ہندوستانی قوم کی شناخت میں یکجا ہونے سے گریزاں تھے۔ مسلمانوں میں علیحدگی پسندی کا زیادہ رجحان نہیں تھا۔ ہندوئوں کے بیشتر رہنما بھی اندرونی طور پر مذہبی تعصب سے آزاد تھے۔ 
گاندھی جی کی مثال سب سے الگ ہے۔ بیشک وہ اپنے رہن سہن اور بودوباش میں ہندو تھے اور اپنی سوچ میں مذہب اورتہذیبی پس منظر کے زیراثر رہے‘ مگرسیاست میں انہوں نے انسانیت کے جذبے کو نمایاں رکھا۔ جہاں بھی ہندو مسلم مفادات کا سوال پیدا ہوتا‘ گاندھی جی کا جھکائو‘ ہندو کی طرف ہوتا۔ ان کا یہ انداز‘ انتہاپسند ہندوئوں کے لئے ناقابل برداشت تھا۔ایسے انتہاپسند بہت کم تعداد میں تھے۔ لیکن وہ انتہاپسندی میں کوئی لچک برداشت نہیں کرتے تھے۔ اس کی سب سے بڑی مثال خودگاندھی جی کی موت ہے۔ جب آزادی کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان‘ اثاثوں کی تقسیم کا سوال پیدا ہوا‘ تو پٹیل اور نہرو جیسے لیڈر‘ پاکستان کا حصہ دینے میں تامل کر رہے تھے۔ جبکہ گاندھی جی اس کے سخت مخالف تھے۔ ان کا اصرار تھا کہ اس تقسیم میں انصاف اور برابری کے اصولوں کو سامنے رکھا جائے۔ انتہاپسند ہندو‘ گاندھی جی سے یہ امید نہیں رکھتے تھے۔ لیکن انہوں نے پاکستان کا حصہ منصفانہ بنیادوں پر دینے کے لئے اصرار کیا اور اس مطالبے کے ساتھ مرن برت رکھ کر بیٹھ گئے کہ جب تک پاکستان کو اس کا جائز حصہ ‘منصفانہ انداز میں دینے کا فیصلہ نہیں کیا جاتا‘ وہ اپنی موت تک کوئی چیز نہیں کھائیں پئیں گے۔ وہ برت رکھ کر بیٹھے ہوئے تھے کہ انتہا پسند ہندو تنظیم کا ایک رکن‘ ناتھورام گوڈسے ‘چادر میں پستول چھپا کر گاندھی جی کی مجلس میں آ بیٹھا۔ گاندھی جی ہمیشہ کی طرح حفاظتی انتظامات کے بغیر اپنی مجلس میں آئے۔ گوڈسے نے اطمینان سے چادر میں چھپا ہوا پستول نکالا اور گاندھی جی کے دل کا نشانہ باندھ کر‘ یکے بعد دیگر تین گولیاں چلا دیں۔ گاندھی جی کی انسان دوستی کا اثر یہ تھا کہ ان کی موت پر سارے ہندوستان نے آنسو بہائے۔ ان میں ہندو‘ مسلم‘ سکھ‘ عیسائی‘ ہر ایک شریکِ غم ہوا۔ 
یہاں یہ پس منظر بیان کرنا ضروری ہے کہ گوڈسے کا تعلق مہاراشٹر کے شہرپٹنہ سے تھا اور تنگ نظری میں انتہاپسندی کے رجحانات رکھنے والے‘ ہندو اسی ریاست میں پائے جاتے تھے اور آج تک ہیں۔ انتہاپسند ہندو تنظیم ‘شیوسینا کا سربراہ بھی بال ٹھاکرے تھا‘ جس کی سیاسی سوچ کے اثرات آج بھی مہاراشٹر میں بہت گہرے ہیں۔ بال ٹھاکرے‘ مذہبی تعصب کے علاوہ علاقائی تعصب بھی رکھتا تھا اور وہ اپنی زندگی کے دوران کئی بار دوسری ریاستوں سے روزگار کی تلاش میں آنے والے ہندوئوں کے خلاف بھی منافرت کے جذبات بھڑکاتا رہتا تھا۔ خصوصاً بہار سے آنے والے محنت کشوں کے قتل کی مہمات وہ اکثر چلاتا رہتا تھا۔ بھارت کا موجودہ وزیراعظم نریندر مودی‘ متعصب ہندو گروپ‘ آر ایس ایس کا رکن تھا۔ یہ ہندو مہاسبھاکی ایک شاخ تھی۔ جس کے ہندو انتہاپسند‘ مسلمانوں سے شدید نفرت کرتے تھے۔ جب کانگریس کے مقابل‘ مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے انتہاپسند ہندوئوں نے‘ ایک جماعت میں اکٹھے ہو کر‘ اس کا نام بھارتیہ جنتا پارٹی رکھا‘ تو سارے آزادخیال اور انتہاپسند انہ سیاست کرنے والے ہندو ایک ہی تنظیم‘ بھارتیہ جنتا پارٹی میں شامل ہو گئے۔ آج بھی اس کے صف اول کے لیڈروں میں انتہاپسند ہندو ہی شامل ہیں اور مودی اسی گروپ کا حصہ ہے۔ وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر برقرار رہنے کے لئے 
مودی کو بظاہر ایک آزاد خیال ہندو سیاستدان کا روپ دھارنا پڑا۔ لیکن حقیقت میں وہ انتہائی متعصب ہندو لیڈروں کا پیروکار ہے۔ گجرات کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے‘ اس نے مسلمانوں کا جو بے رحمانہ قتل عام کیا‘ اس کی وجہ سے وہ انتہاپسند ہندوئوں میں مقبول ہو گیا اور اپنی اسی شہرت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ اس نے ہندو انتہاپسندوئوں کی مدد سے اپنی انتخابی مہم چلائی۔ انتہاپسند ہندوئوں نے اکٹھے ہو کرمودی کی بھرپور حمایت کی۔مودی کی انتخابی مہم‘ بیشک ایک ہندو سیاستدان کی حیثیت سے چلائی گئی لیکن مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے کے لئے ‘گجرات کی مثالیں بھی دی گئیں کہ ''اگر مودی کو ووٹ نہ دیئے گئے‘ تو وزیراعظم بن کر وہ گجرات جیسا قتل عام کرائے گا۔‘‘ یہ کانگریس کی سیکولر روایت ہی تھی‘ جس کی وجہ سے بھارت میں ‘سیاسی رواداری کا بھرم باقی رکھا گیا۔ جبکہ نہرو خاندان کی آزاد خیالی کے اثرات بھی موجود رہے۔ اندراگاندھی کے قتل کے بعد‘ نہرو خاندان‘ خالص ہندو بنیادوں سے محروم ہو گیا۔ سونیا گاندھی نے ‘کانگرس کی قیادت سنبھالی‘ تو متعصب ہندو جماعتوں نے ان کے خلاف نفرت اور تعصب پر مبنی مہم چلائی اور بی جے پی کی خواتین لیڈروں نے احتجاجاً کہا کہ '' اگر سونیا گاندھی بھارت کی وزیراعظم بنیں‘ تو وہ گیروے لباس پہن کر احتجاجاً اپنے سر منڈا لیں گی۔‘‘ ان عورتوں میںموجودہ وزیراطلاعات و نشریات سشما سوراج بھی شامل ہیں۔ اس خاتون کا تعلق لاہور سے ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں