"NNC" (space) message & send to 7575

کیوں نہ انتظار کر لیا جائے؟

پاکستان میں حکومت اور عسکری قوتوں کے درمیان جب بظاہر کوئی کشیدگی نظر آتی ہے‘ تو اس کے محض دو مقاصد ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ کوئی فریق دوسرے کے لئے کرسی خالی کر کے‘ جیل بھگتے یا جلاوطنی۔ یہ واضح طور سے ایک فریق کی جیت ہوتی ہے۔ دوسرا یہ کہ حکومت کو بحران سے عارضی طور پر نکلنے کا موقع دے کر‘ اسے اپنی جاری اننگز مکمل کرنے کی مہلت دی جائے اور اگر آنے والے انتخابات ممکن ہو سکیں‘ تو ان میں جیت ہار کے فیصلے کو قبول کر کے‘ آئندہ انتخابات سے پہلے حکومت چلانے کی کوئی راہ نکال لی جائے۔ اس کی بہترین مثال پیپلزپارٹی اور ن لیگ کا سمجھوتہ تھا۔ اس وقت دونوں پارٹیوں کی کمر ٹوٹ چکی تھی اور عسکری قیادت براہ راست اقتدار پر قبضے کے قابل نہیں تھی۔ یہ ''تین زخمیوں‘‘ کاباامر مجبوری سمجھوتہ تھا۔ اس سمجھوتے کے مطابق فوجی قیادت پس پردہ رہ کرمعاملات کو خود چلانے لگی۔ سامنے پاکستان پیپلزپارٹی کو رکھ دیا گیا۔جبکہ ن لیگ کو یہ کردار دیا گیا کہ وہ نہ تو فوج کو اقتدار پر قبضہ کرنے کا موقع دے اور نہ ہی پیپلزپارٹی کو من مانی کرنے دے۔ یہ طاقتوں کا ایک عجیب سا توازن تھا‘ جس میں نہ تو کوئی فریق مکمل اقتدار پر قابض ہوا اور نہ کسی فریق نے پوری طرح ہتھیار پھینک کر‘ کسی دوسرے فریق کی بالادستی قبول کی۔ تینوں اپنی اپنی جگہ شریک اقتدار بھی تھے اور تینوں ہی مکمل اقتدار سے باہر بھی۔ یہ اس قدر غیرمتوازن بندوبست تھا کہ نہ اقتدار کے تینوں فریقوں میں سے کوئی ایک پوری طرح مقتدر تھا اور نہ ہی کسی ایک نے دوسرے کی بالادستی قبول کی تھی۔ تینوں کمزور تھے اور تینوں میں سے کوئی ایک براہ راست اقتدار پر مکمل قبضہ کرنے کے قابل نہ تھا۔ میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ ''توازن طاقت‘‘ کا یہ فارمولا کسی باضابطہ سمجھوتے کے نتیجے میں بروئے عمل آیا۔ حالات کی مجبوری نے ان سب کو ''نیمے دروں نیمے بروں‘‘ کی کیفیت میں قناعت کرنے پر مجبور کیا۔ ہر کوئی باقی دو فریقوں سے اپنی مرضی منوانے کا اختیار نہیں رکھتا تھا۔ تینوں کو اپنا اپنا کردار بادل نخواستہ ادا کرنا پڑا اور وہ کرتے رہے۔ 
حکومت پیپلزپارٹی کی تھی۔ اس کے سربراہ آصف زرداری تھے۔ پارلیمنٹ میں اکثریت پیپلزپارٹی کی تھی۔ لیکن اختیارات وزیراعظم کے پاس ہوا کرتے۔ بے شمار مواقع ایسے آئے ‘ جب ایوان صدر سے احکامات کے تحت آئی ہوئی فائلوں کو ایک طرف پھینک دیا جاتا۔ جس پر صدر زرداری بہت تلملاتے۔ لیکن وہ اسی قسم کے حالات میں کام کرنے پر مجبور تھے۔ جب صدر زرداری کو اپنی اس بے بسی پر غصہ آتا‘ تو وزیراعظم گیلانی ذرا دیر کئے بغیر‘ لاہور کا رخ کرتے۔ دونوں بڑے چھوٹے بھائی‘ ان کی راہ میں دیدہ و دل فرش راہ کر دیتے۔ دونوں طرف سے فائلوں کے دو بنڈل ایک دوسرے کے سپرد کئے جاتے ۔ دونوں فریق اپنے اپنے پرنسپل سیکرٹریوں کو چھان بین کا حکم دیتے۔ یہ چھان بین کرنے کے بعد جو فائل منظور شدہ ہوتی‘ اسے ایک طرف رکھ دیا جاتا اور غیرمنظورشدہ فائلیں مزید غور کے لئے محفوظ کر لی جاتیں۔ اس زمانے کے باخبر لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ غیرتحریری انتظام کیسے چلتا رہا؟ 
خارجہ پالیسی پر بظاہر صدر زرداری کی بالادستی تھی۔ وزیراعظم بظاہر اس میں مداخلت نہیں کرتے تھے۔ لیکن صدر زرداری پر نگرانی رکھنے کا اختیار جی ایچ کیو کے پاس تھا۔ جس کی نمایاں مثالیں پاک بھارت تعلقات اور دہشت گردوں کے بارے میں پالیسی تھی۔ ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں کہ صدر زرداری نے بھارت کے ساتھ کسی باہمی فیصلے پر اتفاق کیا اور فو ج کی طرف سے اس اتفاق رائے کو بے معنی کر کے رکھ دیا گیا۔ اس معاملے میں ان گنت مثالیں موجود ہیں۔ حکومت نے امریکہ کے ساتھ کوئی سمجھوتہ کیا‘ تو فوج کی طرف سے اسے بے وقعت کر کے رکھ دیا گیا۔ امریکہ نے اپنی بعض شرائط کے تحت کوئی امدادی منصوبہ پیش کیا۔ صدر زرداری نے اسے قبول کر لیا۔ لیکن فوج کی طرف سے اسے سبوتاژ کر دیا گیا۔ صدر کی طرف سے دہشت گردوں کے خلاف کسی پالیسی پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا جاتا‘ تو فوج اسے رد کر دیتی۔ اس کی ایک مثال حامد کرزئی اور صدر زرداری کے باہمی تعلقات ہیں۔ 
جب صدر زرداری نے منتخب ہونے کے بعد‘ حلف وفاداری کی تقریب میں افغانستان کے صدر حامد کرزئی کو بطور مہمان خصوصی شرکت کے لئے مدعو کیا‘ تو تاثر دیا گیا تھا کہ اب افغانستان کے معاملے میں پاک افغان پالیسی میں خیرسگالی غالب آ جائے گی۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہو سکا۔ افغانستان کے بارے میں صدر جو احکامات جاری کرتے‘ فوج انہیں خاطر میں نہیں لاتی تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ صدر زرداری کے دور اقتدار میں حامد کرزئی کے ساتھ دوستی کی جو پالیسی اختیار کرنے کی کوشش کی گئی‘ وہ کبھی زیرعمل نہ آئی۔ وہی کچھ ہوا‘ جو امریکہ چاہتا تھا اور فوج کرتی تھی۔ اس کی وجہ سے امریکہ ‘صدر زرداری پر کھلی ناراضی کا اظہار کرنے لگا۔ امریکہ کی ایک سفارتی تقریب میں جہاں صدر زرداری بھی گئے ہوئے تھے‘ امریکی صدر بارک اوباما نے صدر زرداری کے ساتھ کھلی بے رخی کا مظاہرہ کیا۔ 
ادھر پاکستان میں نوازشریف ‘ اس زمانے کے چیف جسٹس آف پاکستان افتخار چوہدری کے ساتھ سازباز کر کے‘ پیپلزپارٹی کی حکومت کو ٹھیک ٹھیک دھچکے لگا رہے تھے۔ زرداری صاحب کے ذاتی کھاتوں میں ‘ بیرون ملک پڑی رقوم کو ‘ نوازشریف نے واپس لانے کے لئے متعدد اقدامات کئے اور اس مقصد کے لئے اس زمانے کے چیف جسٹس آف پاکستان نے پے درپے احکامات جاری کئے۔ لیکن زرداری ایسے تمام احکامات کے جال میں پھنسنے سے بچ نکلتے رہے۔ زرداری صاحب پیسہ تو بچا گئے لیکن مکمل بااختیار صدر بننے کے لئے ان کی ہر کوشش ناکام بنا دی گئی۔ صدر زرداری کے ‘بھارت سے کئے گئے سمجھوتے جس طرح ناکام بنائے گئے‘ اسی طرح امریکہ کے ساتھ انڈرسٹینڈنگ کی جو درپردہ کوشش کی گئی‘ اسے نوازشریف نے کامیاب نہ ہونے دیا۔ ایک زبردست سفارتی کشمکش چلی۔ زرداری کی مرکزی ٹیم کے سربراہ حسین حقانی تھے۔ انہیں جس مشن پر لگایا گیا تھا‘ نوازشریف نے اسے بری طرح ناکام کر دیا اور ایک مرحلے پر نوازشریف خود بھی کالاکوٹ پہن کر سپریم کورٹ میں پیش ہو گئے۔ حسین حقانی کے سپرد کیا گیا مشن بری طرح سے ناکام ہوا ۔وہ مشکل سے اپنی جان بچا کر نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ 
2013ء میں عام انتخابات ہوئے‘ تو جنرل کیانی ‘ چوہدری افتخار اور نوازشریف کے درمیان مکمل انڈرسٹینڈنگ ہو چکی تھی۔ 2013ء کے جو انتخابات ہوئے‘ وہ پوری طرح سے چوہدری افتخار‘ نوازشریف اور جنرل کیانی کے کنٹرول میں تھے۔ نوازشریف کے اعتماد کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے ووٹوں کی گنتی مکمل ہونے سے پہلے ہی نتائج میں اپنی کامیابی کا اعلان کر دیا۔ فوج‘ عدلیہ اور انتظامیہ پہلے ہی سے ان کی اطاعت قبول کرنے پر تیار تھی۔ اس طرح دو حریف پارٹیوں نے مل جُل کر حکومت کرنے کے ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ جس کے پہلے ہفتے میں ہی کشمکش شروع ہو گئی۔ 2018ء کے اوائل میں نوازشریف کی مدت اقتدار پوری ہو جائے گی۔ لیکن یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اپنا موجودہ عرصہ اقتدار پورا کر لیں گے۔ بحران شروع ہو چکا ہے۔ عمران خان کی مخالفانہ تحریک کا ایک دور بظاہر ختم ہو گیا۔ لیکن کشیدگی جاری رہے گی اور کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ بظاہریوں نظر آتا ہے کہ اقتدار پر نوازشریف کی گرفت باقی نہیں رہے گی۔وہ اپنی خفیہ دولت سے کبھی پردہ نہیں ہٹائیں گے۔ اقتدار اپنے گھر میں رکھنے کی کوشش کریں گے۔ کیا وہ اس میں کامیاب ہو سکیں گے؟ اس سوال کا واضح جواب دینا فی الحال مشکل ہے۔ لیکن عمران خان نے بہرحال پہلے معرکے میں نوازشریف کا زور توڑ دیا ہے۔ اگر اقتدار پر ایک مرتبہ گرفت ڈھیلی پڑ جائے‘ تو اسے دوبارہ بحال کرنا دشوار ہوتا ہے۔ نوازشریف کے لئے دشواری کے دن شروع ہو چکے ہیں۔ کب تک رہیں گے؟ کیوں نہ انتظار کر کے دیکھ لیا جائے؟

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں