حالات حاضرہ کا تجزیہ کرنے میں‘ دور حاضر کے سیاسی اور تاریخی مبصر‘ نوم چومسکی اپنی مثال آپ ہیں۔میرا نہیں خیال کہ ان کے تجزیوں اور افکار کے بارے میں کوئی تبصرہ کرنا ضروری ہے۔میں ان کی تازہ تحریر‘ جو امریکہ کے حالیہ انتخابات کے بارے میں ہے‘ کو بغیر کسی تبصرے کے قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ یہ مضمون قدرے طویل ہے لہٰذا دو قسطوں میں شائع کیا جا رہا ہے۔ملاحظہ فرمائیے۔
سوال: ناقابل ِ تصور واقعہ پیش آچکا۔ تمام پیش گوئیوںکے برعکس ‘ڈونلڈ ٹرمپ نے ہیلری کلنٹن پر فیصلہ کن برتری حاصل کر لی اور وہ شخص جسے مائیکل مور نے ''گھٹیا‘ جاہل‘ خطرناک مسخرہ اورسماجی رویوں سے مکمل طور پر عدم مطابقت رکھنے والا شخص ‘‘ قرار دیا تھا‘ اب اگلا امریکی صدر ہوگا۔ آپ کے خیال میں وہ کون سے عوامل تھے جن کی وجہ سے امریکی رائے دہندگان نے امریکی سیاسی تاریخ کا سب سے بڑا اپ سیٹ کردیا؟
جواب:سوال کی طرف آنے سے پہلے ‘ میرا خیال ہے چند لمحوں تک ہم ذرا غور کرلیں کہ آٹھ نومبر کو کیا ہوا؟ یہ انسانی تاریخ کا سب سے اہم دن بن سکتا ہے ‘ تاہم اس کا دارومدار اس بات پر ہے کہ ہمار ا رد ِعمل کیا ہو گا؟۔ اس میں کوئی مبالغہ آرائی والی بات نہیں ہے ۔آٹھ نومبر کو آنے والی سب سے اہم خبر کو‘ ہم نے بمشکل ہی نوٹ کیا ہو گا اور یہ بات بذات ِ خود بہت اہم ہے ۔ آٹھ نومبر کو ''ڈبلیو ایم او‘‘(ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن ) نے ماحولیاتی تبدیلیوں پر‘ مراکش میں ہونے والی ایک کانفرنس (COP22) میں ایک رپورٹ پیش کی ۔ یہ کانفرنس پیرس معاہدے (COP21) کو آگے بڑھانے کے لیے بلائی گئی تھی۔ ''ڈبلیو ایم او‘‘نے کہا کہ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران موسم گرم ترین رہا ۔ قطبین‘ خاص طور پر قطب جنوبی کے ‘عظیم الشان گلیشیرز کی برف کے خوفناک سرعت سے پگھلنے کے نتیجے میں سطح سمندر بلند ہورہی ہے ۔ اس سے پہلے قطب ِشمالی کے سمندر میں ‘گزشتہ پانچ برسوں کے دوران پڑنے والی برف ‘گزشتہ انتیس برسوں میں پڑنے والی اوسط برف سے‘ 28 فیصد کم رہی ۔ چنانچہ صرف سطح سمندر ہی بلند نہیںہورہی بلکہ قطب پر کم برف باری ہونے کی وجہ سے‘ ٹھنڈک میں کمی واقع ہورہی ہے۔چنانچہ گلوبل وارمنگ کے ‘خوفناک اثرات بڑھ رہے ہیں۔ ـــ''ڈبلیو ایم او‘‘ نے مزید کہا کہ درجہ حرات COP21 میں تعین کردہ لیول کے خطرناک حد تک قریب ہوتا جارہا ہے۔ کانفرنس میں اس کے علاوہ دیگر سنگین رپورٹس اور پیش گوئیوں کی بازگشت بھی سنائی دی گئی۔آٹھ نومبر کو پیش آنے والے ایک اور واقعے کو غیر معمولی حد تک تاریخی اہمیت حاصل ہے اور ایک مرتبہ پھر‘ اس کے اصل مضمرات کازیادہ نوٹس نہیں لیا گیا۔ آٹھ نومبر کو دنیاکی تاریخ کے طاقتور ترین ملک میں انتخابات ہوئے ۔ نتائج نے حکومت‘ ایگزیکٹو‘ کانگرس اور سپریم کورٹ‘ سب کا کنٹرول ریپبلکن پارٹی ‘ جو دنیا کی خطرناک ترین جماعت بن چکی ہے‘ کے ہاتھ میں تھما دیا۔ اس جملے کے آخری حصے کے علاوہ پیش کیے گئے دیگر تمام معروضات غیر متنازعہ ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ یہ جملہ عجیب‘ بلکہ اشتعال انگیز لگے ‘ لیکن کیا یہ بات درست نہیں؟کیا حقائق ا س کی غمازی نہیں کرتے ؟یہ پارٹی جتنی جلدی ممکن ہوسکے ‘ منظم انسانی زندگی کو ممکنہ تباہی سے دوچار کرنے جارہی ہے ۔تاریخ اس قبیل کی کسی کاوش کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے ۔ کیا یہ مبالغہ آرائی ہے ؟ ذرا پیش آنے والے واقعات پر غور کریں۔ انتخابی مہم کے ابتدائی مرحلے میں ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ہر امیدوار نے ماحولیاتی تبدیلیوں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ جو کچھ ہورہا ہے‘ ہونے دو۔ سوائے کچھ سمجھدار
معتدل افراد ‘ جیسے جیب بش جن کا کہنا تھا کہ'' سب کچھ غیر یقینی ہے‘‘ لیکن وہ اس سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتے کیونکہ وہ کافی مقدار میں قدرتی گیس پیدا کررہے ہیں۔ یہ گیس ''فریکنگ ٹیکنالوجی‘‘ (زیر ِ زمین ہائی پریشر سے پانی انجیکٹ کرکے تیل یا گیس نکالنا) سے حاصل کی جارہی ہے ۔ یا پھر جان کیسک(John Kasich) جنہوں نے تسلیم تو کیا کہ گلوبل وارمنگ ایک حقیقت ہے اور کہا کہ۔'' ہم Ohio میں کوئلہ جلائیں اور ہمیں اس پر کسی معذرت کی ضرورت نہیں‘‘ ۔ کامیاب نامزد امیدوار ‘ جو اب صدر بن چکے ہیں‘ نے فوسل ایندھن‘ بشمول کوئلہ کا استعمال بڑھانے کیے گئے عالمی معاہدوں کو پھاڑ پھینکنے اور ترقی پذیر ممالک ‘ جو توانائی کے دیرپاذرائع تلاش کررہے ہیں‘ کی مددسے انکار کی بات کی۔ نیز سمندری چٹانوں سے تیل اورگیس کی تلاش میں تیزی لانے کا عزم کیا۔
ٹرمپ نے پہلے ہی امریکہ کی ''ای پی اے ‘‘ (تحفظ ِ ماحولیات کی ایجنسی) کو تحلیل کرنے کے اقدامات کا اعلان کر رکھا ہے ۔وہ اس ایجنسی کی سربراہی‘ میرون ابیل کے سپرد کرنا چاہتے ہیں‘ جو ماحولیاتی تبدیلیوں کو تسلیم کرنے سے انکار ی ہیں اور ٹرمپ کے اہم ترین مشیر‘ برائے توانائی و تیل کے ارب پتی سوداگر‘ ہورالڈ ہیم ہیں۔ جنہوں نے توقع کے مطابق‘ اپنی ترجیحات کا اعلان کردیا ہے‘ جن میں ریگولیشنز کی منسوخی‘ صنعت کے لیے ٹیکس کی چھوٹ‘ فوسل فیول کی زیادہ پیداوار اور''ڈکوٹہ ایکسس پائپ لائن ‘‘ پر صدر اوباما کی طرف سے عائد کردہ عارضی پابندی کو اٹھانا شامل ہیں ۔ اس پر مارکیٹ نے فوری رد ِعمل کا اظہار کیا۔ انرجی کارپوریشنز کے حصص میں تیزی آئی۔ مارکیٹ میں آنے والی تیزی کا دنیا کی سب سے بڑی کوئلے کی کان کنی کرنے والی فرم‘Peabody Energyکو بے حد فائدہ ہوا۔ یہ فرم دیوالیہ ہوچکی تھی‘ لیکن ٹرمپ کی فتح کے بعد ‘اس نے اپنا پچاس فیصد نقصان پورا کرلیا ہے ۔ چنانچہ رپبلکن کا
ماحولیاتی تبدیلیوں سے انکار قابل ِفہم ہے اور اس کے واضح اثرات دکھائی دے رہے ہیں۔ پیرس معاہدے‘ COP21 سے امید بندھی تھی کہ دنیا ایک قابل ِ اعتماد معاہدے کے ذریعے ‘ماحولیات کو تحفظ دینے کی طرف پیش رفت کرنے جارہی ہے ‘ لیکن رپبلکن تو ضروری معاہدوں کی پابند ہونے سے بھی انکار کررہی ہے ۔ اس سے COP21 جیسے رضاکارانہ معاہدے کی پا بندی کی توقع کرنا عبث ہے ۔ اس رویے کے عالمی اثرات توقع سے کہیں جلد دکھائی دینا شروع ہوگئے ہیں۔ بنگلہ دیش میں آنے والے چند ایک برسوں میں لاکھوں افراد سمندر کے قریب‘ نشیبی علاقوںسے نقل مکانی شروع کردیں گے کیونکہ گرم ماحول کی وجہ سے سمندر کی سطح بلند ہونا شروع ہوجائے گی اور اُن کی بستیاں زیر ِا ٓب آجائیں گی ۔ اس سے شروع ہونے والا ہجرت کا بحران ‘اتنا سنگین ہوگا کہ اس کے مقابلے میں ہجرت کا موجودہ بحران ‘معمولی سا واقعہ دکھائی دے گا۔ بنگلہ دیش کے اہم ترین ماحولیاتی سائنسدان کا کہنا ہے کہ''مہاجر ہونے والے ان افراد کے پاس حق ہونا چاہیے کہ وہ گرین ہائوس گیسز کے ذمہ دارممالک کا رخ کریں۔ ان میں سے تمام نہیں ‘ لاکھوں افراد کو امریکہ میں داخلے کی اجازت ملنی چاہیے ۔‘‘ انصاف سے دیکھیں تو ان کی بات میں وزن دکھائی دیتا ہے ۔ امیر ممالک امیر تر ہوتے جارہے ہیں لیکن اُنہوں نے دولت کمانے کی دھن میں ایک نئے جیالوجیکل دور ''Anthropocene‘‘ کا آغاز کردیا ہے ۔ اس دور میں ماحول کو انسانی ہاتھ انتہائی تبدیل کردیں گے ۔ ان تبدیلیوں کے سنگین نتائج میں اضافہ ہوگا۔ اس کے اثرات صرف بنگلہ دیش جیسے ممالک تک ہی محدود نہیں رہیں گے ۔ جنوبی ایشیا میں درجہ حرارت‘ جو پہلے ہی غریب افراد کے لیے ناقابل ِ برداشت ہوچکا ‘ مزید بڑھ جانے سے ہمالیہ کے گلیشیر پگھل کرکم ہونا شروع ہوجائیں گے ۔ اس سے تمام خطے میں آبی بحران پیدا ہوجائے گا۔ انڈیا میں پہلے ہی تین سو ملین افراد کو پینے کے پانی کا قلت سامنا ہے ‘چنانچہ تمام آبی نظام کے سبوتاژ ہونے کے بھیانک اثرات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ اس حقیقت کے اظہار کے لیے الفاظ ساتھ نہیں دے رہے کہ آج انسانوں کو اپنی معلوم تاریخ کے سب سے سنگین سوال کا سامنا ہے کہ کیا انسانی نسل‘ منظم شکل میں اپنا بچائو کرپائے گی یا نہیں؟ لیکن جواب تلاش کرنے کی بجائے تباہی کے عمل کو تیز تر کیا جارہا ہے ۔ انسانی بچائو کے حوالے سے اٹھنے والے کچھ دیگر سوالات بھی ہیں۔ جیسا کہ جوہری ہتھیاروں سے ہونے والی تباہی۔ اس کا خطرہ گزشتہ سات عشروںسے ہمارے سروں پر منڈلا رہا تھا‘ لیکن اس کی سنگینی میں پہلے سے کہیں زیادہ اضافہ ہوچکا ہے ۔ عقل و فہم‘ ماتم کناں ہیں کہ بھاری بھرکم اخراجات سے چلائی جانے والی اس چکاچوند انتخابی مہم کے دوران‘ کسی ایک امیدوار نے بھی ان خطرات کا سرسری سا ذکر کرنا بھی گوارا نہ کیا۔ کم از کم میرے پاس تو بے حسی کو بیان کرنے کے لیے مناسب الفاظ نہیں۔ (جاری )