"NNC" (space) message & send to 7575

موجودہ حکومت زندہ باد

ایک سردار جی جنگل میں جا رہے تھے کہ انہیں ایک ہستی نظر آئی۔ سردار جی نے اسے دیکھ کر پوچھا کہ ''تم کون ہو؟‘‘ ہستی نے قہقہہ لگاتے ہوئے بتایا ''میں خدا ہوں‘‘۔ 
''تم کیا کرتے ہو؟‘‘ سردار جی نے پوچھا
''میں بندے بناتا ہوں‘‘ اس ہستی نے جواب دیا۔
سردار جی نے شکایتی انداز میں اپنے چہرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شکوہ کیا ''یہ بندہ بنایا ہے؟‘‘
چند مہینوں سے میرے قارئین کو بھی اسی قسم کا شکوہ ہے۔ شاید ہی کوئی ہفتہ ایسا جاتا ہو‘ جب مجھ سے یہ نہیں کہا جاتا کہ ''یہ کالم لکھ رہے ہو؟‘‘ میں جھلا کر پوچھتا ہوں اور کیا لکھوں؟ عموماً میرا موضوع سیاست ہوتا ہے اور ہمیں جب سے پاناما لیکس کا عارضہ لاحق ہوا ہے‘ یہ پہچان ہی باقی نہیں رہی کہ سیاست کیا ہے؟ مقدمہ کیا ہے؟ وکالت کیا ہے؟ نظامِ انصاف کیا ہے؟ جرم کیا ہے؟ پارسائی کیا ہے؟ چیزوں کی پہچان ہی کھو چکی ہے۔ صحافیوں سے ملتا ہوں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ نثر میں قصیدہ سازی کرتے ہیں۔ نظم میں نوحہ لکھتے ہیں۔ خبر میں سیاپا کرتے ہیں۔ گا کر مدح کرتے ہیں۔ میں ہر طرح کی پہچان کھو چکا ہوں۔ کون نوحہ گر ہے؟ کون مسخرا ہے؟ کون سیاستدان ہے؟ کون مقدمے باز ہے؟ کون گردے بیچنے آیا ہے؟ اور کون گردوں کا خریدار ہے؟ اپنا ماحول مجھے اس ہسپتال کی طرح لگتا ہے‘ جہاں گردے نکالنے کی دھوکہ منڈی لگی ہو۔ دھوکہ منڈی شاید کسی گائوں کا نام بھی ہے۔ یہ نام رکھنے کی وجہ مجھے معلوم نہیں۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ یہ دھوکے بازوں کی منڈی ہو گی۔ لیکن میں نے گردوں کے خریداروں کے مرکز کو وہ ہسپتال قرار دیا ہے‘ جہاں گردوں کی خریداری ہوتی ہے۔ جہاں یہ سارے سودے ہوتے ہیں‘ وہاں ہسپتال کا بورڈ لگا ہے۔ لیکن اندر کچھ اور ہے۔ اس کی تفصیل میں نے سچائی پر مبنی ایک رپورٹ میں پڑھی ہے۔ کیوں نہ آپ کو بھی پڑھا دوں تاکہ اندازہ کیا جا سکے کہ جس بستی میں‘ میں رہتا ہوں وہ بھی اسی ہسپتال کی انتظارگاہوں کی طرح ہے‘ جہاں گردوں کے فروخت کنندگان اور خریدار مختلف کمروں میں بیٹھے ہوتے ہیں۔ کسی کو گردہ لگتا ہے۔ کسی کا گردہ نکالا جاتا ہے۔ یہ عجیب منڈی ہے‘ جہاں اندر جانے والوں کے پاس دو گردے ہوتے ہیں‘ مگر جو باہر نکلتا ہے‘ اس کے پاس صرف ایک گردہ ہوتا ہے۔ سنتے ہیں‘ ایک گردے والے کی زندگی بھی عام لوگوں کی طرح گزرتی ہے۔ کسی کو پتہ نہیں چلتا کہ ایک گردے والا کون ہے؟ اور دو گردوں والا کون؟ سب ایک جیسے لگتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے موجودہ حکومت کے قصیدہ گو ہوتے ہیں۔ 
لارڈ نصیر ملہی مرحوم نے اپنے شہر کا سیاسی نقشہ کچھ یوں بتایا تھا کہ جب ایوب خان کے خلاف تحریک چلی تو ایک دکاندار بہت پریشان ہوا۔ اس کی زندگی بڑے آرام سے گزر رہی تھی۔ دس بارہ سال سے اس کا کاروبار آرام سے چل رہا تھا کہ اچانک ''ایوب خان ہائے ہائے‘‘ کے نعرے اور جلوس شروع ہو گئے۔ باقی دکانداروں نے ''ایوب خان مردہ باد‘‘ کے نعرے لکھ کر لگا دیئے۔ مذکورہ دکاندار کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کس کا نعرہ لگائے؟ پہلے ایوب خان زندہ باد کا نعرہ لکھ کر اس نے دس سال آرام سے گزارے تھے۔ اچانک جانے کیا ہوا کہ جلوسوں میں ایوب خان مردہ باد کے نعرے لگنے لگے۔ چند ہفتوں کے بعد زندہ باد‘ مردہ باد کے نعرے جلدی جلدی بدلنے لگے۔ دکاندار پریشان ہو گیا۔ ابھی وہ پچھلا نعرہ لکھ کر فارغ ہوتا تھا کہ کوئی نیا ''زندہ باد‘‘ آ جاتا۔ اس سادہ لوح آدمی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیسے خیر و عافیت سے رہ سکتا ہے؟ اس نے خوب سوچ بچار کے بعد ایک نعرہ سوچا اور لکھ کر لگا دیا کہ ''موجودہ حکومت زندہ باد‘‘۔ آج کل بھی جو سیاستدان یہ نعرہ لگاتے ہیں‘ سب مزے میں ہیں اور جو غلطی کر بیٹھتے ہیں‘ ان کا بُرا حال ہوتا ہے۔ آج کے کامیاب ترین سیاستدان وہی ہیں جن کا نعرہ یہ ہو کہ ''موجودہ حکومت زندہ باد‘‘۔ میں گردوں کے ہسپتال سے موجودہ حکومت تک کیسے پہنچ گیا؟ ہے نا مزے کی بات؟ ہسپتال کی سچی کہانی پیش ہے۔
''عالمی سطح پر ایسے مریض‘ جن کو گردے کی ضرورت ہوتی ہے‘ کو ہسپتالوں میں برسوں انتظار کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ جس کی وجہ سے لوگ غیر قانونی طریقوں سے اعضا حاصل کر رہے ہیں۔ برطانیہ کے محکمہ صحت کے مطابق اعضا کے ٹرانسپلانٹس کے لئے پاکستان سرفہرست ہے۔ 2017ء میں اکتوبر کے مہینے میں پولیس نے راولپنڈی بحریہ ٹاؤن میں ایک پلازے پر چھاپا مارا‘ جہاں ایک آہنی جنگلے کے پیچھے 24 خوفزدہ افراد قید تھے۔ ان کو ملازمت دلانے کا جھانسہ دے کر بلایا گیا تھا۔ جب وہ پہنچے تو ان کو اغوا کرکے بتایا گیا کہ ان کا ایک ایک گردہ نکالا جائے گا۔ ان میں ایک سعدی احمد بھی تھے‘ جن کو اسی دن بتایا گیا‘ جس دن انہیں ان کی مرضی کے خلاف آپریشن کے لئے لے جایا جا رہا تھا۔ سعدی احمد نے اپنی کہانی بیان کی: ''ہم محنت مزدوری کرتے ہیں۔ فیکٹریوں میں کام کرتے ہیں۔ دیہاڑی جو مل جاتی ہے، وہ کر لیتے ہیں۔ ہم لاہور گئے تھے کام کے لئے۔ وہاں ہمیں ایک ایجنٹ ملا۔ وہ بولتا تھا‘ ہمارا پلازے کا راولپنڈی، اسلام آباد میں کاروبار ہے‘ ادھر آ جائیں۔ وہاں چوکیداری کا کام کر لینا۔ میں نے بولا‘ کام تو اچھا نہیں ہے‘ سفر بہت ہے اور بچے پریشان ہوں گے لیکن خیر۔ اس نے کہا‘ یہ کاغذات لے کر لاہور کچہری آ جانا۔ میں نے کہا‘ کام کرنے کے لئے جانا ہے کچہری کا کیا تعلق ہے اس سے؟ وہ بولا کہ ادھر پھر پریشانی ہوتی ہے۔ پھر لاہور میں تصویریں لے کر گیا۔ وہاں ہماری وڈیو بھی بنائی اور کاغذات بھی بنائے۔ مجھے کہنے لگے کہ اگر پولیس والوں نے کچھ پوچھا‘ جج صاحب پوچھے گا تو کہنا‘ پاسپورٹ بنا رہے ہیں۔ ادھر پھر آپ کو پریشانی نہیں ہو گی۔ پھر گاڑی میں بٹھا لیا۔ ایک میں تھا۔ ایک آدمی ہمارے ساتھ اور بھی تھا۔ جب گاڑی میں بیٹھے تو اس نے پوچھا موبائل ہے؟ میں نے کہا‘ ہاں ہے۔ پھر اس نے پوچھا‘ آئی ڈی کارڈ ہے؟ میں نے کہا‘ ہاں وہ بھی ہے۔ اس نے مجھ سے دونوں چیزیں لے لیں‘‘۔ ان لوگوں کے تفصیلی انتظامات میں گردہ نکالنے کے ساتھ جعلی شناخت بنانا بھی شامل تھا۔ سعدی نے مجھے بتایا کہ اُنہیں دھوکے سے پھنسا لیا گیا‘ لیکن جب انہیں گاڑی میں بٹھا کر راولپنڈی تک پہنچایا گیا تو یہ راز کھلا کہ پہرے دار کی نوکری تو تھی ہی نہیں۔ جلد ہی ان کو خوفناک حقیقت سمجھ میں آئی۔ ''پلازہ ہے کوئی؟ مجھے تو معلوم نہیں ہے‘ ہم نئے ہیں۔ جب پلازے میں لے گئے تو ادھر سیڑھیاں اوپر چڑھتی تھیں، جنگلا لگا ہوا تھا۔ وہاں کمرے تھے اور دو تین بندے تھے۔ میں نے کہا‘ کیا پریشانی ہے کام پر لے آئے ہیں؟ تو انہوں نے کہا‘ نہیں‘ کام نہیں بتاتے اور انہوں نے کہا کے دو تین اور بندے تھے اور وہ جدا ہو گئے ہیں‘ اور یہ نہیں پتا کہ کدھر گئے ہیں۔ ایک خاتون آئیں اور انہوں نے کہا چپ بیٹھے رہو اور جب فقیر حسین (ایجنٹ) آئے گا‘ وہ کام بتائے گا‘ مجھ سے بات مت کرو۔ دس منٹ بعد فقیر حسین آیا اور اس نے کہا‘ تیار ہو جاؤ ٹیسٹ کے لئے جانا ہے‘ تو میں نے کہا‘ کس چیز کا ٹیسٹ؟ اس کے بعد اس نے مجھے تفصیل سے بتایا کہ بیٹا بات یہ ہے کہ آپ کا مستقبل بن جائے گا۔ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ٹینشن نہیں ہے۔ گردہ نکالیں گے‘ تین لاکھ روپے دیں گے‘ اس کے بعد گھر چلے جاؤ گے۔ میں نے کہا‘ میں یہ کام نہیں کر سکتا‘ میں غریب بندہ ہوں‘ چھوٹے بچے ہیں اور کیا گارنٹی ہے کہ میں زندہ بچوں گا بھی یا نہیں۔ میں نے شور مچایا۔ دھکم دھکا بھی ہوا۔ اس نے دھمکیاں بھی دیں۔ میں پھر چپ کر گیا‘ میں غریب آدمی ہوں‘ میں کیا کر سکتا تھا۔ روات تھانے والوں کو خبر پہنچی تو انہوں نے چھاپے مارے‘‘۔
اکتوبر میں پولیس نے چھاپا مار کر ان 24 متاثرین کو چھڑوایا۔ کھوج لگانے والے پولیس افسر یاسر محمود نے تفصیلات بتائیں: ''بہت سے لوگوں کو قید کر کے رکھا ہوا تھا اور تالا لگایا ہوا تھا۔ کسی کو ڈیڑھ مہینہ ہوا تھا کسی کو ایک ہفتہ۔ جو ضرورت پڑتی تھی تو نکال کے کڈنی سینٹر منتقل کر دیتے تھے۔ ان کے ٹیسٹ بھی یہیں پر ہوتے تھے۔ ان کو باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ سہانے خواب دکھا کر انہیں یہاں لایا جاتا تھا۔ مختلف علاقوں سے آتے تھے اور فون لے لیتے تھے۔ ایجنٹ لالچ دے کر لے آتے تھے۔ عورتیں اور مرد بھی تھے‘‘۔ میں نے ان سے پوچھا کہ جب آپ ان تک پہنچے تو وہ کس حال میں تھے؟ انہوں نے کہا ''وہ بری حالت میں تھے۔ بہت کمزور تھے اور افسردہ تھے‘‘۔ میں نے مزید پوچھا‘ اگر آپ ان تک نہ پہنچتے تو ان کا کیا حال ہونا تھا؟ ''ان کے گردے نکال دیتے اور مختلف قیمت دے کر گھر بھیج دیتے کسی کو دو لاکھ کسی کو ایک لاکھ اور پھر واپس پنجاب بھیج دیتے‘‘۔
راولپنڈی میں گردوں کے ہسپتال کے تین ملازم بھی اس جرم میں ملوث پائے گئے ہیں۔ ان کو اسی مہینے عدالت کے سامنے پیش ہونا ہے‘ لیکن یہ تینوں اور ہسپتال اس دھندے میں ملوث ہونے کو مسترد کرتے ہیں۔ اگرچہ اب یہ دھندا کرنے والا ٹولا تو ختم ہو چکا ہے‘ لیکن ایک اور شخص ان کا نشانہ بن چکا تھا۔ ظفر شہاب سے میں نے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ ریڈ سے چند ماہ قبل ان کا گردہ نکال لیا گیا تھا‘ جس کے نتیجے میں ان کی صحت پر شدید اثرات ہوئے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کچھ یاد ہے کہ ہسپتال میں آپ کو کتنے عرصے کے لئے رکھا گیا تھا؟ انہوں نے کہا ''تین دنوں کے لئے رکھا تھا۔ دوائیاں دی گئیں۔ خون کی بوتلیں خریدی گئیں اور وہ گردوں کی جگہ ڈالیں گے۔ مجھے نہیں پتا تھا کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ مجھے چکر آ رہے تھے اور میں بے ہوش ہو گیا تھا۔ ایک دن بعد مجھے ہوش آیا‘‘۔ میں نے پوچھا کہ کیا آپ کو معلوم تھا کہ آپ کے گردے نکالے جائیں گے؟ انہوں نے کہا ''نہیں نہیں مجھے بالکل اس کا علم نہیں تھا‘‘۔ انہوں نے مجھے مزید بتایا کہ گھر پہنچنے کے بعد ان کی صحت اتنی بری طرح متاثر ہوئی کہ وہ کوئی کام نہیں کر پائے۔ ان سے پانچ کلو وزن بھی نہیں اٹھایا جاتا اور انہیں صحت کی پیچیدگیوں کی وجہ سے ایک اور آپریشن کروانا پڑا۔
انسانی اعضا کی پیوند کاری کی تنظیم کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر مرزا ظفر‘ جنہوں نے راولپنڈی میں اس جرم کی نشاندہی کی تھی‘ نے بتایا کہ ہر ماہ کوئی ایک سو غیر قانونی ٹرانسپلانٹس کئے جا رہے ہیں۔ یہ کام ہے تو غیر قانونی لیکن اس میں بہت پیسہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چور بازار میں اس قسم کے آپریشنز فی مریض پچاس سے ساٹھ لاکھ تک میں کئے جاتے ہیں اور وہ لوگ جن کے گردے زبردستی نکالے جاتے ہیں‘ ان کو صرف معمولی سی رقم دی جاتی ہے تاکہ وہ اپنا منہ بند رکھیں۔ ڈاکٹر ظفر کا کہنا تھا کہ ''بدقسمتی سے پچھلے کئی سالوں سے طبی سیاحت دوبارہ سے ابھر آئی ہے اور اعضا کی غیر قانونی تجارت بھی پاکستان میں شروع ہو گئی ہے۔ لاہور میں اور راولپنڈی میں بہت سارے خفیہ ہسپتالوں میں غیر قانونی طور پر اعضا کی پیوند کاری کی جا رہی ہے جو کہ قانون کی خلاف ورزی ہے‘‘۔
اجنبی لوگوں کا اپنا گردہ بیچنا کوئی نئی بات نہیں بلکہ مالی مسائل کا شکار لوگ پیسہ لے کر گردہ بیچ دیتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کو دنیا کا سب سے بڑا گردہ بازار مانا جاتا ہے۔ 2010ء میں پاکستان میں گردوں کے تجارتی بنیاد پر عطیے کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا‘ لیکن یہ دھندا اب بھی جاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طلب اور رسد میں فرق کو پورا کرنے کے لئے غیر قانونی دھندا کرنے والے میدان میں آ گئے ہیں‘ لیکن نشانہ بننے والے متاثرین کا یہ سوال ہے کہ کیا ان کی بہتر زندگی کی امیدیں کبھی پوری ہو سکیں گی؟‘‘۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں