نئے حالات میں ہمارے خطے کے اندر جوانتہائی اہم اور معنی خیز تبدیلیاںرونما ہو رہی ہیں‘ اس کا ایسوسی ایٹڈ پریس نے تجزیہ پیش کیا ۔ انٹرنیشنل اور خارجہ امور میں دلچسپی رکھنے والے قارئین کو اس تجزیے سے حالات کو سمجھنے میں کافی مدد ملے گی۔تجزیہ پیش خدمت ہے۔
'' ہمارے لیڈر اکثر چین کے ساتھ ''شہد سے زیادہ میٹھی دوستی ‘‘ کے گن گاتے ہیں۔ دوسری طرف امریکہ کے ساتھ کیا جانے والا ''عقد ِ ضر وریہ‘‘ (Marriage of convenience ) رومانوی تصورات سے باہر رہتا ہے ۔ جس وقت ٹرمپ انتظامیہ خطے میں ایک اہم اتحادی کے حوالے سے اپنی پالیسی وضع کرے گی تو اُسے پتہ چلے گا کہ پاکستان ‘بیجنگ کے مزید قریب ہوچکا ہے ۔ بیجنگ ‘ پاکستان میں توانائی‘ انفراسٹرکچر اور صنعت کی تعمیر پر 2030ء تک 46 بلین ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کا پروگرام رکھتا ہے۔ یہ رقم پاکستان کی معیشت بحال کرسکتی ہے ۔ دوسری طرف واشنگٹن کو پاکستان پر اعتماد نہیں رہا ۔وہ فراخ دلی سے رقوم فراہم کرتے ہوئے پاکستان کو اپنے زیر اثرکرسکتا ہے ۔ بہت سے امریکی پالیسی ساز پاکستان کو دہشت گردوں کی محفوظ ترین پناہ گاہ کے طور پر دیکھتے ہیں جسے نائن الیون کے بعد سے30 بلین ڈالر فراہم کیے گئے لیکن وہ اپنے معاملات درست نہ کرسکا۔ دوسری طرف اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ اگر امریکہ مکمل طور پر قدم پیچھے ہٹا لیتا ہے تو اس کے دور رس مضمرات ہوں گے۔ وہ دہشت گردی کے خطرناک ٹھکانے‘ کمزور گورننس اور داخلی کشمکش کے شکار پاکستان میں استحکام لانے کی پوزیشن میںنہ ہوگا۔ پاکستان کی اہم اپوزیشن جماعت کے لیڈر‘ بلاول بھٹو زرداری جو پاکستان کی سابق وزیر ِاعظم بے نظیر بھٹو کے صاحبزادے ہیں‘ نے اپنے واشنگٹن کے حالیہ دورے کے دوران کہا کہ''مجھے احساس ہے کہ ہم کبھی ناگزیر اتحادی رہے ہیں‘‘۔
امریکہ کی طرف سے پاکستان کو دی جانے والی امداد میں 2011ء کے بعد سے بتدریج کمی واقع ہوئی ہے ۔ پاکستانی سرزمین پر اسامہ بن لادن کی امریکی کمانڈوز کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد‘ دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی آگئی۔ افغانستان میں امریکی فورسز کی تعداد میں کمی آنے کے بعد پاکستان‘ امریکہ کی ترجیحات میں پست درجے پر چلا گیا۔امریکہ کی طرف سے پاکستان کو ملنے والی امداد میں مزید کمی بھی آسکتی ہے کیونکہ مسٹر ٹرمپ سفارتی اور غیر ملکی امداد کا سلسلہ کم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ دوسری طرف مسٹر ٹرمپ‘ امریکہ کو پرتشدد انتہا پسندی سے بھی محفوظ رکھنا چاہتے ہیں‘ چنانچہ اُن کے لیے پاکستان کی طرف سے منہ موڑنا مشکل ہوگا۔ یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ جوہری طاقت رکھنے والی ریاست پاکستان‘ القاعدہ کے لیڈر ‘ ڈاکٹر ایمن الظواہری کی بھی پناہ گاہ ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان میں قیام ِامن کے عمل میں پاکستان کی اہمیت سے انکار ناممکن ہوگا۔ چونکہ ابھی بھی امریکہ کے 85سو فوجی دستے افغانستان میں تعینات ہیں‘ اس لیے امریکہ کے وسیع تر تزویراتی عزائم جو بھی ہوں‘ وہ چاہے گا کہ پاکستان سرحد پار سے ہونے والے طالبان کے حملوں کو روکے ۔
اس وقت چین بھی پاکستان میں انتہا پسند ی کے فروغ پر فکر مند ہے ۔ اُسے خاص طور پر یغور انتہا پسندوں کی وجہ سے پریشانی کا سامنا ہے‘ جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقے میں پناہ گاہیں رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے القاعدہ اور طالبان کے ساتھ بھی تعلقات ہوسکتے ہیں۔ تاہم چین کی پہلی ترجیح انتہا پسندی کا خاتمہ نہیں‘ پاکستان سے معاشی اور تزویراتی مفاد حاصل کرنا ہے ۔ اس کے ''ون بیلٹ‘ ون روڈ ‘‘ منصوبے کے تحت ایشیا اور یورپ کی مارکیٹوں کو سٹرک اور ٹرین کے ذریعے ملا دیا جائے گا۔ اس منصوبے کا آغاز پاکستان سے ہوتا ہے ۔ اس کی وجہ سے چین کا آبنائے ملاکا پر سے دارومدار کم ہوجاتا ہے ۔ چین کے لیے مشرق ِوسطیٰ سے آنے والے تیل کی رسد آبنائے ملاکا سے گزرتی ہے ۔ نیز یہ منصوبہ چین کے مغربی علاقوں کو سمند رسے ملا کر وہاں ترقیاتی سرگرمیوں کو تیز کردے گا۔ وفاقی وزیر برائے پلاننگ و ڈویلپمنٹ ‘ احسن اقبال اس سرمایہ کاری کو ''آسمانی نعمت ‘‘ قرار دیتے ہیں۔
بیس کروڑ آبادی پر مشتمل پاکستان جیسے ملک کو توانائی کی کمی کا چیلنج درپیش ہے۔انتہا پسندی اور دہشت گردی کی کارروائیوں کی وجہ سے‘ پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا عمل بھی رک چکا تھا۔ تاہم پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت چینی سرمایہ کار 35بلین ڈالر توانائی اور ٹرانسمیشن کے منصوبوں پر خرچ کررہے ہیں۔ 2018ء تک قومی گرڈ میں دس ہزار میگا واٹ بجلی شامل ہونے کا امکان ہے ۔ اس کی وجہ سے پاکستان کی بجلی پیدا کرنے کی گنجائش ‘ جو صرف 22000 میگا واٹ ہے (یہ مقدار پاکستان سے پچیس گنا کم آبادی رکھنے والے سوئٹزرلینڈ میں بجلی کی پیداوار کے تقریباً مساوی ہے)میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔ چین سڑکوں‘ ریلوے اور گہرے سمندر میں بندرگاہ کی سہولیات کی تعمیرکے لیے دس بلین ڈالر قرض دے گا۔ واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک سے بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر‘ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ''پاکستان کی کہانی تبدیل ہورہی ہے ‘ ‘ ۔وہ امریکہ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتے ہیں۔''ہم تو تیار ہیں‘ کیا آپ بھی تیار ہیں؟‘‘
پاکستان‘ جسے اپنی مختصر سی تاریخ میں متعدد مرتبہ فوجی مداخلت اور سیاسی عدم استحکام کا سامنا رہا‘ اس منصوبے کی وجہ سے معاشی بحران کو ٹالنے میں کامیاب ہوتا دکھائی دیتا ہے ۔ کراچی سٹاک مارکیٹ میں2016ء میں 46 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ملک کے جی ڈی پی میں امسال پانچ فیصد اضافہ ہوا جبکہ تیل کی کم قیمتوں کی وجہ سے معیشت میں بہتری آئی۔ دوسری طرف تشدد اور دہشت گردی کے مسائل حل نہ ہوئے‘ گوان واقعات میں کمی واقع ہوئی ۔ اس کمی کی وجہ پاک فوج کی طرف سے پاکستانی طالبان کے خلاف کارروائی ہے ۔ تاہم گزشتہ ہفتوں کے دوران ہونے والے دہشت گردوں کے حملوں میں ایک سو پچیس کے قریب افراد ہلاک ہوئے ۔ اس وقت تک مسٹر ٹرمپ نے تو پاکستان کے حوالے کسی پالیسی کا ذکر نہیں کیا لیکن کانگرس اس کے خدوخال ضرورطے کررہی ہے ۔ گزشتہ سال امریکہ نے F-16 طیاروں کی خریداری کے لیے فنڈز کی فراہمی روک لی تھی جبکہ اس سال کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں ملنے والی امداد میں چارسوملین ڈالر کی کمی کا اعلان کیا گیا‘ تاوقتیکہ امریکی سیکرٹری ڈیفنس اس بات کی تصدیق کردیں کہ پاکستان نے طالبان کے خلاف کارروائی کی ہے ۔
پاکستان کا روایتی حریف بھارت‘ امریکہ کے قر یب ہوتا جارہا ہے ۔ اس کا بھی پاکستان پرانتہا پسندوں کی پشت پناہی کرنے کا الزام ہے ۔ وہ درحقیقت اسلام آباد کو سفارتی تنہائی سے دوچار کرنے کی کوشش کررہا ہے ۔ تاہم ان اقدامات نے پاکستان کو چین کے مزید قریب ہونے میں مدد کی ۔ چین بھی بھارت کے ساتھ سرحدی تنازع پر ایک جنگ لڑچکا ہے ۔ واشنگٹن کے ولسن سنٹر سے تعلق رکھنے والے جنوبی ایشیا کے امور کے ماہر‘ مائیکل کوگلمین کا کہنا ہے۔''اگر ہر چیز منصوبے کے مطابق طے پاتی گئی تو پاکستان کے حصے میں بہت سے ثمرات آئیں گے ۔ اسے توانائی کے بحران سے نجات ملے گی۔ درحقیقت اس کے صنعتی ڈھانچے کو توانائی کی شدید ضرورت ہے ۔ ‘‘تاہم مسٹر کوگلمین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو خبردار رہنے کی ضرورت ہے کہ وہ چین پر بہت زیادہ انحصار کرنے سے پہلے یہ یاد رکھے کہ چین بہرحال اپنے مفاد کو مقدم رکھے گا۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ حکومت پاکستان‘ چینی کمپنیوں کو رقوم کی ادائیگی کی ضمانت دے رہی ہے‘ اگر بجلی کی مقامی کمپنیاں اُنہیں رقم ادا کرنے میں ناکام رہیں۔ سکیورٹی کے خدشات کا تدارک کرنے کے لیے پاکستان پندرہ ہزار دستوں کو چینی منصوبوں کے تحفظ کے لیے تعینات کرنے جارہا ہے ۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ چینی منصوبے غیر واضح اور مبہم ہیں۔ فی الحال مقامی افراد کو کچھ پتا نہیں کہ ان منصوبوں سے اُنہیں کیا فائدہ پہنچے گا؟ بھارت کو خطرہ ہے کہ پھیلائو پر آمادہ بیجنگ‘ پاکستان کی گوادر بندرگاہ کے ذریعے بحیرہ ہند میں اپنا نیول بیس قائم کرنے جارہا ہے ۔ پاک فوج کے چین کے ساتھ دفاعی روابط میں گہرائی آتی جارہی ہے ‘ جس کا ایک ثبوت JF-17 جنگی طیارہ ہے ‘ جودونوں ممالک کی مشترکہ پیداروار کا نتیجہ ہے ۔ جنوبی ایشیا کے RAND Corp کے ماہر جونا بلینک کا کہنا ہے کہ چینی تعاون پاکستان کو اعلیٰ دفاعی ساز وسامان کے لیے امریکی انحصار سے نجات دلا سکتا ہے۔فی الحال پاکستان‘ چین سے کم معیار کے ہتھیار حاصل کررہا ہے ۔ معاشی محاذ پر امریکی امداد اُس طرح گہرے نقوش نہ چھوڑ پائی جیسی چینی سرمایہ کاری واضح کررہی ہے ۔ پاکستان کے مرکزی بنک کے سابق گورنر عشرت حسین کا کہنا ہے کہ چینی سرمایہ کاری کے اثرات واضح ہونے میں ایک دوسال لگ جائیں گے ۔ اُنہوںنے زور دیا کہ امریکہ کو چاہیے کہ پاکستان میں سائنس اور ٹیکنالوجی کو فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کرے ‘‘۔