اتر پردیش کے چونکا دینے والے انتخابی نتائج پر غور و فکر کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ سیاست کے استاد سمجھے جانے والے سیاسی پنڈتوں کے اندازے‘ اس طرح غلط ثابت ہوئے کہ انہوں نے سوچا بھی نہیں ہو گا کہ انتخابی نتائج کے جو اعدادا و شمار انہوں نے جمع کئے تھے‘اُن میں اتنی زیادہ تبدیلی ہو جائے گئی؟۔انتخاب میں شکست و فتح کے عوامل پر‘ ہر زاویے سے غور کرنے کے بعد بھی لوگوں کی سمجھ میں یہ نہیں آرہا کہ آخر سیکولر ووٹ کی اس طرح درگت کیوںبنی عقلی گھوڑے دوڑائے جا رہے ہیں‘ حساب و کتاب میں کوئی کمی نہیں کی جا رہی لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی کہ آخر بھگوارنگ کیسے زبردست اکثریت کے ساتھ اتر پردیش پر چھا گیا؟۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ہم یہاں وہاں عقلی گھوڑے دوڑاتے رہتے ہیں لیکن بالکل پاس کی چند وجوہ پر ہماری نظر نہیں جاتی۔ اتر پردیش میں زبردست تبدیلی میں جو اہم بات ہے‘ وہ یہی ہے کہ ہم اپنا محاسبہ صحیح طور پر نہیں کرتے۔یہاں''ہم‘‘ سے مراد اتر پردیش میں انتخابی میدان میں خم ٹھونک کر اترنے والی سیاسی پارٹیاں ہیں۔ انتخابی جلسوں پر تو زیادہ توجہ دی گئی لیکن اس بات کی کوئی فکر نہیں کی گئی کہ پارٹی کا پیغام عوام تک پہنچ رہا ہے یا نہیں۔ زمینی سطح پر کوشش تواترپردیش کو اپنے نام کرنے والی پارٹی نے ہی کی ہے۔آر ایس ایس کے پرچارک شہر شہر‘ قریہ قریہ گھوم کر ایک مخصوص ذہنیت کا پیغام اکثریتی فرقے تک پہنچا رہے تھے۔ کئی ایسے ویڈیو کلپ سامنے آئے ہیںجن میں اکثریتی فرقے کو اقلیتوں‘ خصوصاً مسلمانوں کے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈا کرکے بھڑکایا گیا ۔ یہ کام رات کے اندھیرے میں یا زیر زمین نہیں ہو رہا تھا لیکن سیکولر کہی جانے والی پارٹیاں اس حقیقت سے بالکل نا واقف تھیں۔ انتخابی جلسے تو اب ووٹروں کے لئے ایک طرح کا ڈرامہ ہوتے ہیں جس میں خاص اداکار اپنی اداکاری کے جوہر دکھاتا ہے اور مجمع اس کا پیغام ایک کان سے سن کر‘ دوسرے کان سے نکال دیتا ہے۔ اب ووٹر نادان اور بھولا نہیں رہا‘ وہ اس بات کو بخوبی سمجھتا ہے کہ مہمان خصوصی کے طور پر آئے ہوئے لیڈر بذریعہ طیارہ یا ایئرکنڈیشنڈ کار سے جلسہ گاہ میں پہنچتے ہیں اور خود کو غریبوں اور بے سہاروں کا ہمدرد بتا کر‘ اسی اے سی کار یا بذریعہ طیارہ‘ یا ہیلی کاپٹر سے اپنی عالی شان رہائش گاہ میں لوٹ جاتے ہیں۔ اب وہ زمانہ نہیں رہا جب لیڈر‘ عوام کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھتے تھے۔ ان کے بنک بیلنس نہیں ہوتے تھے اور نہ ان کے پاس خوبصورت اے سی کاریں اور عالی شان پر تعیش محلات ہوا کرتے تھے۔ وہ زمانہ گیا جب سیاست دان‘ سیاست عوامی خدمت سمجھ کر‘ کیا کرتے تھے۔ اب سیاست سب سے بہترین اور درخشاں کیرئیر کے طور پر لی جاتی ہے۔ سیاست دانوں کے بیٹے اب کسی بڑی کمپنی میں افسر بننے یا کوئی بزنس کرنے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ وہ سیاست میں ہی اپنا کیرئیر تلاش کر لیتے ہیں۔
حریف پارٹی مسلسل اپنی بالمقابل سماج وادی پارٹی‘ کانگریس اور بہوجن سماج پارٹی کے خلاف ووٹروں کی برین واش کرتی رہی۔ اس نے نوٹ بندی کے ایشو کو اس طرح اٹھایا کہ ووٹر اس کے جھانسے میں آگئے۔حریف پارٹی نے یہ باور کرایا کہ اس نوٹ بندی سے کالا دھن سامنے آیا‘ بڑے بڑے امیروں اور اثرو رسوخ رکھنے والوں کو بھی اپنے نوٹ تبدیل کرنے کے لئے بنک میں حاضر ہونا پڑا۔ عوام اس بیان سے اتنے خوش ہوئے کہ انہوں نے سوچا کہ حقیقت میں اس لیڈر نے ایسا کارنامہ انجام دیا کہ وہ‘ امیر اور دولت مند لوگ ‘جو غریبوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے‘ اب خود نوٹ بندی کے چکر میں
آگئے۔بس اسی احساسِ تفاخر نے اکثریتی فرقہ کا ووٹ کمل کی جانب موڑ دیا۔الیکشن سے پہلے ہر شہر کی انتظامیہ اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ ووٹر لسٹیں تیار ہیں‘ کسی کو اگر اس نام یا پتہ کی غلطی یا کوئی دوسری کمی نظر آئے تو وہ معینہ تاریخ تک اس کو تبدیل کرا سکتے ہیں۔اس معاملے میں بھی سیکولر کہی جانے والی اتر پردیش کی پارٹیوں نے غفلت برتی۔ کئی شہروں میں پولنگ کے دن ‘ووٹروں نے یہ شکایت کی کہ ان کا نام ووٹر فہرست میں نہیں ہے۔ اس کی ذمہ داری آخر کس پر ہے؟ کیا پارٹی کے ضلعی یونٹ پر اس کی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی؟ جب ووٹر فہرستوں پر نظر ثانی کا اعلان ضلعی انتظامیہ نے کیا تو پھر پارٹی کے ضلعی یونٹ نے کیوں ان انتخابی فہرستوں پر نظر ڈالنے کی زحمت گوارہ نہیں کی؟ اگر اس وقت یہ زحمت کی گئی ہوتی تو یہ شکایت سامنے نہ آتی کہ ووٹر کا نام‘ رائے دہندگان کی فہرست سے کاٹ دیا گیا ہے۔ بوتھ لیول مینجمنٹ بہت پر کشش جملہ ہے لیکن کیا حقیقت میں بی ایس پی‘ سماج وادی پارٹی اور کانگریس نے بھر پور طریقے سے بوتھ لیول منیجمنٹ کو سنبھالا؟ ہر جگہ یہ حال تھا کہ کئی کئی بوتھوں پر کچھ پارٹی نمائندے سرے سے موجود ہی نہ تھے جبکہ بی جے پی اور اس کی حلیف پارٹیوں کے نمائندے ہر بوتھ پر نظر آئے۔ یہاں تک کہ دور دراز کے دیہات کے بوتھوں پر بھی کمل کی نمائندگی صاف نظر آرہی تھی۔ ان لوگوں میں جوش و خروش تھا اور سیکولر کہی جانے والی پارٹیوں میں نظم و ضبط کا فقدان تھا۔ سماج وادی پارٹی میں انتخاب سے چند مہینے پہلے جو کشا کش نظر آئی‘ اس کا بھی ووٹروں پر اثر پڑا۔ اس پارٹی میں طاقت کے دو مرکز ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ پارٹی کے بانی سربراہ نے غیر جانبداری کا مظاہرہ کیا۔اختلافات اتنے بڑھے کہ پارٹی کا انتخابی نشان تک ہاتھ سے جاتے رہنے کا خطرہ محسوس کیا جانے لگا۔ آخر کسی نہ کسی طرح ایک گروپ کو انتخابی نشان مل گیا۔ دوسرے گروپ نے احساس پشیمانی کے ساتھ‘ الیکشن میں حصہ لیا لیکن اس کے جن لوگوں کو ٹکٹ نہیں ملا تھا‘ انہوں نے ضرور پارٹی کے منتخب امیدوار کی راہ میں رخنہ اندازی کی ہو گی۔ پارٹی کے بانی سربراہ نے پورے الیکشن میں سردمہری کا مظاہرہ کیا اور ایک گروپ کی چند انتخابی ریلیوں سے ہی خطاب کیا۔اس ہائی وولٹیج کے سیاسی ڈرامے کا اثر‘ ووٹروں پر پڑنا لازمی تھا۔ سماج وادی پارٹی کو انتخابی میدان میں اپنی محنت اور ترقیاتی کام کے بل پر اتارنے والے نوجوان وزیراعلیٰ نے مختار انصاری کو توشہ زور قرار دے کر اپنی پارٹی کا ٹکٹ نہیں دیا لیکن آبروریزی کے ملزم پرجاپتی کے انتخابی جلسے کو خطاب کیا۔ اس بات کا حریف پارٹی نے خوب فائدہ اٹھایا۔ بی جے پی کے صدر امیت شاہ اور کئی لیڈروں نے انتخابی ریلیوں میں پرجاپتی کے معاملے پر سماج وادی پارٹی کو جم کر کوسا۔ وہ شہرت جو اکھلیش یادو نے عتیق احمد اور مختار انصاری کو ٹکٹ نہ دے کر حاصل کی تھی‘ پرجاپتی کے انتخابی جلسے میں خطاب کر کے کھو دی‘ جس مختار انصاری کو شہ زور کہہ کر سماج وادی پارٹی نے ٹکٹ نہیں دیا تھا‘ اس کو بی ایس پی نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور ٹکٹ دیا۔ مختار انصاری نے جیل میں رہتے ہوئے بھی96793 ووٹ حاصل کئے اور اپنے حریف سہیل دیو بھارتی سماج پارٹی( جو بی جے پی کی حلیف پارٹی تھی) کے مہیندرر ہبر کو شکست دی۔ بی ایس پی امیدوار نے8698ووٹوں سے اپنے حریف کو شکست دی۔یہ بات قابل غور ہے کہ مختار انصاری کی یہ مسلسل پانچویں مرتبہ کامیابی تھی‘ اس کے پیچھے ان کی مقبولیت اورعوام کے دل میں ان کے لئے چاہت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ‘ نہیں تو ان کا حشر بھی پرجاپتی کی طرح ہی ہوتا۔
اس الیکشن میں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ڈمی کینڈیڈیٹ کھڑے کئے گئے اور کچھ چھوٹی علاقائی پارٹیوں نے اپنا اتحاد بنا کر سماج وادی پارٹی‘ کانگریس اور بی ایس پی کو شکست سے دوچار کیا۔کیا اسے معمول کے مطابق ہی مانا جائے گا کہ اپنا دل پارٹی(سونے لال پٹیل کی اہلیہ کی پارٹی) نے اتر پردیش میں150 امیدوار کھڑے کئے تھے۔ نشاد پارٹی نے سو سیٹوں پر الیکشن لڑا۔ کیا ان پارٹیوں کی اتنی حیثیت ہے؟ کہ وہ اتنی زیادہ تعداد میں اپنے امیدوار انتخابی میدان میں کھڑے کر سکیں؟ اس طرح کے ڈمی امیدوار کھڑے کئے جانے کے پس پشت ایک منصوبہ بند لائحہ عمل ہوتا ہے‘ جس کا مقصد ڈی امیدواروں کو کھڑا کرنے والی پارٹیوں کی مالی مدد کرنے والی پارٹی کو کامیاب کرنا ہوتا ہے۔ ایک مخصوص ذہنیت رکھنے والی پارٹی نے‘ اپنی کامیابی کے لئے ہر انتخابی حلقہ میں زیادہ سے زیادہ‘ ڈمی امیدوار کھڑے کرنے کی سازش رچی ہے اور الیکشن کے نتائج نے ثابت کر دیا کہ وہ اس میں کامیاب بھی ہوئی ہے۔زیر نظر کالم مظفراللہ خان نے لکھا جو دہلی کے روزنامہ ''سہارا‘‘ میں شائع ہوا ۔