"NNC" (space) message & send to 7575

جھگڑا کیا ہے؟

سندھ پولیس کے انسپکٹر جنرل اے ڈی خواجہ سے سندھ حکومت کی ناراضی کی وجوہ تو بظاہر کوئی نہیں جانتا۔ آخر ایسا کیا ہوا کہ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت اپنے ہی آئی جی کے خلاف ہو گئی ہے؟ اے ڈی خواجہ کو دو مرتبہ ہٹانے کی کوشش کی جا چکی ہے لیکن عدالت اْن کے حق میں فیصلہ کر دیتی ہے۔اے ڈی خواجہ نے کئی قابلِ ذکر کام کئے ہیں۔ مثلاً انہوںنے پولیس میں 18 ہزار بھرتیاں کیں لیکن میرٹ پر۔ ایک غیر جانبدار اور آزاد سلیکشن بورڈ بنایا۔ سندھ پولیس کے پروکیورمنٹ ڈپارٹمنٹ میں بدعنوانی سے بچنے کے لئے کھلی نیلامی کے ذریعے خریداری کی۔ گنے کے کاشتکاروں نے جب زیادتیوں کی شکایت کی تو کچھ سیاسی شخصیات اور اْن کے دوستوں پر ہاتھ ڈالا۔اب ایک ایسے پولیس آفیسر کو برداشت کرنا تو واقعی مشکل کام ہے ،وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب اگلے عام انتخابات قریب آ رہے ہوں۔ایسے میں عموماً صوبائی حکومتیں اپنی مرضی کے پولیس آفیسر چاہتی ہیں۔ اے ڈی خواجہ شاید ایسے آفیسر نہیں۔اے ڈی خواجہ کے حق میں سب سے بڑی دلیل تو انیتا تراب کیس کا فیصلہ ہے جس میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ کسی سرکاری ملازم کو بغیر کسی معقول وجہ کے اْس کے عہدے سے ہٹایا نہیں جا سکتا۔اِس فیصلے میں سول سروس میں سیاسی مداخلت کے بارے میں بھی قوائد و ضوابط کی واضح طور پر نشاندہی کی گئی اور بتایا گیا کہ اچھی حکمرانی بڑی حد تک ایماندار اور مضبوط بیوروکریسی پر منحصر ہوتی ہے۔فیصلے میں اِس بات کا بھی ذکر ہے کہ سول سرونٹس اصل میں پبلک سرونٹ ہوتے ہیں اور اِنہیں اپنے تمام فیصلے قانون کے مطابق اور عوامی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے کرنے چاہئیں۔ایسا لگتا ہے کہ اے ڈی خواجہ نے انیتا تراب کیس کے فیصلے کو کافی غور سے پڑھا ہے۔ چلو پڑھنے کی حد تک تو صحیح ہے لیکن وہ تو اِس کی روشنی میں کام بھی کرنے لگے ہیں۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر رشید اے رضوی کہتے ہیں کہ اے ڈی خواجہ کے ٹرانسفر کے نوٹیفیکیشن میں کسی وجہ کا ذکر نہیں کیا گیا حالانکہ قوائد کے مطابق اور انیتا تراب کیس کی روشنی میں ایسا کیا جانا ضروری تھا۔رشید اے رضوی کے مطابق یہ تو فوجی حکومتوں کی ضرورت سمجھی جاتی تھی ، جنہیںاپنی مرضی کے اہلکار رکھنے ہوتے تھے تاکہ معاملات پر مکمل کنٹرول ہو، لیکن سیاسی حکومتیں بھی اْسی ڈگر پر چل رہی ہیں۔ وہ کسی غیر جانبدار اور آزاد آفیسر کو کسی رینک اینڈ فائل میں پسند نہیں کرتیں۔رشید اے رضوی نے بتایا کہ قوائد و ضوابط کے مطابق الیکشن کی تاریخ کے اعلان کے بعد بیوروکریسی میں ٹرانسفر اور پوسٹنگ نہیں کی جا سکتیں۔ ''لہٰذا ایک مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ الیکشن سے پہلے بیوروکریسی میں اپنے مطلب کی تبدیلیاں کر لی جائیں۔‘‘
صوبہ سندھ کے سابق آئی جی کمال شاہ کا کہنا ہے کہ اگر عدالتیں، سندھ پولیس اور سول سوسائٹی اے ڈی خواجہ جیسے آفیسرز کے ساتھ ہوں تو یہ لوگ آزادانہ طریقے سے کام کر سکتے ہیں۔ ''لیکن بہتر یہی ہے کہ بیوروکریسی اور سیاسی حکومتیں مل جل کر اچھی حکمرانی کی مثال قائم کریں۔ دونوں کے کام میں ربط ہونا بہت ضروری ہے۔‘‘ کمال شاہ کہتے ہیں کہ اِس وقت جو صورتحال ہے اْس سے پولیس فورس میں لیڈرشپ کا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔''پولیس میں اصلاحات کا ایک پرانا منصوبہ موجود ہے لیکن اِس پر عمل کرنے کے بجائے اِس محکمے کو فرسودہ طریقوں سے ہی چلانے کی کوشش کی جاتی ہے اور اگر کوئی کچھ بہتر کرنے کی کوشش کرے تو اْس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔‘‘ کمال شاہ کے مطابق اْنہیں بھی کم از کم دو وزرا ئے اعلیٰ کی جانب سے دباؤ کا سامنا رہا۔انہوں نے بتایا کہ اگر پولیس کو مطلوبہ سہولیات فراہم کی جائیں تو شہروں میں رینجرز کو بلانے کی کوئی ضرورت نہیں۔
موجودہ آئی جی اے ڈی خواجہ کے معاملے پر پاکستان پیپلز پارٹی کا موقف ہے کہ یہ صوبائی حکومت کا اختیار ہے کہ وہ اپنی مرضی کے آئی جی کی تعیناتی کرے۔کراچی سے پیپلز پارٹی کے سینیٹر سعید غنی کہتے ہیں کہ اے ڈی خواجہ ایک اچھے آفیسر ہیں،جن کی تعیناتی صوبائی حکومت کی سفارش پر ہی ہوئی تھی۔''اے ڈی خواجہ کی جگہ عبدالمجید دستی کو لایا جا رہا ہے جن کی ساکھ بھی بہت اچھی ہے۔ اگر ایک آئی جی کے ساتھ صوبائی حکومت کی انڈرسٹینڈنگ اچھی نہیں تو کیا یہ لازمی ہے کہ وہی اِس عہدے پر کام کرتا رہے۔ اِس سے صوبے اور پولیس ڈیپارٹمنٹ دونوں ہی کا نقصان ہے۔ یہ زیادہ بہتر ہے کہ نئے آئی جی کو لایا جائے۔‘‘ 
تمام کاروباری حلقے جنہیں اپنے کاروبار کے لئے ریلوے کی خدمات سے استفادہ کرنا پڑتا ہے۔ ان کے ساتھ محکمے کے سلوک میں کیا خرابی ہے؟پھر امر واقع یہ ہے کہ انتظامیہ اور نظم و نسق کو چلانے کی ذمہ داری مکمل طور پر حکومت کے نامزد یا مقررکردہ افسروں پر چھوڑ دی گئی ہے۔ جس کی وجہ سے ساری پالیسیاں بنانے اور ان پر عمل کرنے کا ذمہ دار محکمہ خود ہے۔ کیونکہ جس کے سربراہ وفاقی وزیرریلوے اور ان کی اپنی رکھی ہوئے پلٹن ریلوے کا نظام مکمل آزادی اور خود مختاری سے چلاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام سرکاری محکموں کے برعکس وزیرریلوے کے کامل اختیارات اور فیصلہ سازی کی آزادی ان کے ہاتھ میں ہے۔یہ بات زبان زدعام ہے کہ وزیرریلوے ، محکمے کو جیسے چاہیں چلا سکتے ہیں۔ ان کے کام میں نہ کسی کو مداخلت کرنے کی جرأت ہے اور نہ کوئی اس کا حوصلہ کرتا ہے۔ ایسی صورت میں روایت یہی ہوتی ہے کہ حکومت کی طرف سے نامزد کردہ جو عہدیدار قابل رشک اختیارات رکھتا ہے، وہاں کوئی دوسرا شخص من مرضی نہیں کر سکتا۔ بی بی سی نے چند روز پہلے ریلوے کے بارے میں جو ایک رپورٹ نشر کی ہے، اس سے یوں لگتا ہے کہ ایک آئی جی پولیس متعلقہ وزیر کے احکامات کی بلاچون و چرا تعمیل کر رہا ہے۔ غالباً یہ واحد مثال ہے ، جس میں وزیرریلوے کی من مرضی میں رکاوٹ پڑ رہی ہے۔ اس واقعاتی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ سندھ حکومت ریلوے کی حد تک بے اختیار ہے۔ نامزد آئی جی اے ڈی خواجہ کی مشکل یہ ہے کہ ہمہ مقتدر وزیرریلوے نامزد آئی جی کو بھی اپنی مرضی سے کام نہیں کرنے دے رہے۔ اختیارات کا یہ جھگڑا یونہی چلتا رہا، تو متعلقہ محکمہ صوبائی حکومت کی ضروریات بھی پوری نہیں کر پائے گا۔ جبکہ ایک منتخب صوبائی حکومت اپنے ووٹروں کو پوری طرح مطمئن نہیں رکھ پائے گی۔صوبائی حکومت کی طرف سے ریلوے کے معاملات دیکھنے کے لئے سینیٹر سعید غنی کو ذمہ دار بنایا گیا ہے۔ لیکن انہیں یہ گلہ ہے کہ ایک صوبائی محکمے میں بھی مرکز کا نمائندہ کسی دوسرے کے عمل دخل کو برداشت نہیں کر رہا۔ 
سعید غنی کا کہنا تھا کہ انیتا تراب کیس کے فیصلے کے بعد بھی دوسرے صوبوں میں کئی پولیس آفیسرز اور بیوروکریٹس کے تبادلے کئے جا چکے ہیں۔ سعید غنی کو شکایت ہے ' 'اْس پر تو کوئی بات نہیں کرتا۔ تمام ایسے سوالات صرف صوبہ سندھ ہی کے بارے میں کیوں کئے جاتے ہیں؟‘‘سعید غنی نے کہا کہ صوبائی کابینہ نے نئے آئی جی عبدالمجید دستی کی منظوری دے دی ہے اور ضرورت پڑی تو صوبائی حکومت عدالت میں جا کر اپنا موقف پیش کرے گی۔پولیس میں اٹھارہ ہزار بھرتیوں کے بارے میں سینیٹر سعید غنی نے کہا کہ اِن بھرتیوں کا اختیار تو صوبائی حکومت نے ہی اے ڈی خواجہ کو دیا تھا۔ ''اِس کے علاوہ جب انہیں تعینات کیا گیا تھا تو صوبائی حکومت نے صرف اْن ہی کا نام وفاقی حکومت کو بھیجا تھا۔ اِس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سندھ حکومت اے ڈی خواجہ کو آئی جی کے عہدے پر فائز کرنا چاہتی تھی۔‘‘
پھر ایسا کیا ہوا کہ جس اے ڈی خواجہ کو سندھ حکومت خود ہی لے کر آئی تھی انہیں بغیر کسی وجہ کے ہٹانا چاہتی ہے؟ کم از کم اے ڈی خواجہ کے تبادلے کے نوٹیفیکیشن میں تو کوئی وجہ نہیں لکھی گئی۔ انڈرسٹینڈنگ کی کمی کیا اتنی بڑی وجہ ہو سکتی ہے؟اس حوالے سے بعض حلقوں کی جانب سے سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں کہ یا تو سندھ کی حکومت انڈرسٹینڈنگ کی کمی کی تفصیلی وضاحت کرے یا پھر یہ بتائے کہ اے ڈی خواجہ کا مسئلہ کیا ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں