"NNC" (space) message & send to 7575

گرجنے والے برس سکتے ہیں؟

بروس ریڈل نے ایک تازہ مضمون میں‘ پاک امریکہ تعلقات کے مابین جو دیوار کھڑی ہو رہی ہے‘ اس میں دروازے کھولنے‘ اور راستے کی دھند ہٹانے کا طریقہ بتایا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے۔
''امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چند روز پہلے ٹویٹ کیا تھا کہ اُن کے دوپیش رو 33 بلین ڈالر کی امداد دے کر بھی‘ پاکستان کو دہشت گردوں کو پناہ دینے کی پالیسیاں تبدیل کرنے پر قائل نہ کر سکے۔ اس وقت مسٹر ٹرمپ نے ''نومور‘‘ کا نعرہ لگا دیا تھا کہ اب امریکہ کی طرف سے پاکستان کوکچھ نہیں ملے گا۔ ٹرمپ کے ٹویٹ پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ ٹرمپ انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ پاکستان دہشت گردوں‘ خاص طور پر افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کی حمایت کرتا ہے۔ بھارت اور کشمیر میں کارروائیاں کرنے والے لشکر طیبہ کی حمایت کا بھی الزام ہے ۔ پاکستانی جنرلوں‘ جو دہشت گردی کی حمایت کی پالیسی رکھتے ہیں‘ کو یقین ہے کہ جو بھونکتے ہیں وہ کاٹتے نہیں۔ ٹرمپ بھی ایک گرجنے والے بادل کی طرح ہے جو برسے گا نہیں۔ فی الحال اُن کا اندازہ درست ہے؛ تاہم اگر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جائے تو واشنگٹن بہت کچھ کر سکتا ہے۔ پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی نے گزشتہ کئی عشروں سے‘ افغان طالبان اور لشکرِ طیبہ کو ٹریننگ‘ ہتھیار‘ مشاورت اور ہدایات دی ہیں۔ یہ ان گروہوں اور ان کی قیادت کو محفوظ ٹھکانے فراہم کرنے کے علاوہ‘ اُنہیں خلیج سے فنڈز اکٹھے کرنے میں مدد بھی دیتی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے افسران‘ افغان پالیسی اور خطے کی مجموعی طور پر سکیورٹی کی صورتحال پر اپنا واضح مؤقف بیان کرتے رہے ہیں۔
نیشنل سکیورٹی سٹریٹیجی کا دسمبر کا مسودہ کہتا ہے کہ ''پاکستان پر انسدادِ دہشت گردی کے لیے دبائو ڈالیں گے کیونکہ ایسے ملک کے ساتھ شراکت داری کسی صورت نہیں چل سکتی جس کے حمایت یافتہ انتہاپسند اور دہشت گرد‘ اس کے پارٹنر کے افسران اور سکیورٹی اہل کاروں کو نشانہ بناتے ہوں۔ ہم پاکستان کی حوصلہ افزائی کریں گے کہ وہ اپنے جوہری اثاثوں کی حفاظت میں ذمہ داری کا مظاہرہ جاری رکھے‘‘۔ امریکی نائب صدر مائیک پینس نے گزشتہ ماہ افغانستان کے دورے کے موقع پر پاکستان کو ''نوٹس‘‘ پر رکھا تھا۔ 33بلین ڈالر امداد‘ جس کا ٹرمپ نے حوالہ دیا‘ میں سے25 بلین ڈالر سے زیادہ‘ اسامہ بن لادن کی 2011ء میں‘ ایبٹ آباد میں سیل کمانڈوز کے ہاتھوں ہلاکت سے پہلے ملے تھے؛ چنانچہ رقم کو روک لینا کوئی بہت بڑا اقدام نہیں ہوگا۔ اسی طرح پائپ لائن میں موجود 250 ملین ڈالرز کو روک لینا بھی ایک معمولی دھمکی ہے۔ اس دوران ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستانیوں سے رابطے میں رہنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ افغانستان کا دورہ کرنے والے مائیک پینس‘ پاکستان نہیں گئے۔ انتظامیہ نے نیٹو اتحادیوں کے ذریعے بھی پاکستان پر دبائو نہ ڈالا کہ وہ افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ میں مثبت کردار ادا کرے۔
پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا خیال ہے کہ واشنگٹن اور خاص طور پر صدر ٹرمپ‘ افغان مشن کے بارے میں سنجیدہ نہیں۔ وہ بہت جلد امریکی تاریخ کی اس طویل ترین جنگ سے کنارہ کشی اختیار کر لیں گے اور پاکستان اور افغان طالبان فاتحانہ طریقے سے کابل میں داخل ہوں گے۔ موجودہ امریکی صدر کا کہنا ہے کہ اُن کے جنرلوں نے اُنہیں افغانستان سے نکلنے کے تصور کے خلاف قائل کر لیا ہے۔ اگر وہ جنگ میں خاطر خواہ پیش رفت دکھانے میں ناکام رہے تو پھر ٹرمپ اپنی مرضی کریں گے۔ انتظامیہ‘ پاکستان کے خیال کو تبدیل کرنے کے لیے بہت کچھ کر سکتی ہے۔ کچھ اقدامات علامتی لیکن اہم ہوں گے۔ واشنگٹن‘ پاکستان سے اہم غیر نیٹو اتحادی کا درجہ واپس لے سکتا ہے۔ پاکستان سے سفیر کو بھی واپس بلایا جا سکتا ہے۔ اس سے قدرے سخت اقدام کے لیے امریکی صدر کے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے تعلقات کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ان دونوں ممالک میں بڑی تعداد میں پاکستانی محنت کش کام کرتے ہیں جو پاکستانی معیشت کو سہار ا دیتے ہیں۔ ٹرمپ کی ٹیم‘ ریاض میں محمد بن سلمان اور ابو ظہبی میں محمد بن زید پر دبائو ڈال سکتی ہے کہ طاقتور ولی عہد نہ صرف اپنی اپنی ریاستوں میں طالبان کے لئے فنڈز اکٹھے کرنا ناممکن بنا دیں بلکہ اُنہیں فنڈز فراہم کرنے والوں کو سزا بھی دیں۔ یہ دونوں ریاستیں‘ آئی ایس آئی سے قریبی تعلقات رکھتی ہیں۔ سعودیہ اور اُن کے خلیجی اتحادیوں کا مؤقف ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں پُرعزم ہیں۔ واشنگٹن کو چاہیے کہ وہ افغان طالبان کو بھی اُن کی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر دے۔ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف ابھی حال ہی میں ریاض میں تھے۔ اُنہیں سعودی تعاون درکار تھا۔ اُن کے بھائی‘ میاں شہباز شریف بھی سعودی عرب آئے۔ پاکستانی فوج کے جنرلوں کا بھی سعودی عرب میں آنا جانا لگا رہتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کا انتہائی اقدام پاکستان کو ایران کی طرح دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والی ریاست قرار دینا ہو گا۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان کو ملنے والی تمام امداد بند ہو جائے گی اور اس کے ساتھ کیے گئے تمام معاہدے منسوخ ہو جائیں گے۔ پاکستانی ایئر فورس ایف سولہ طیاروں کے فاضل پرزہ جات اور دیگر دفاعی ساز و سامان حاصل نہیں کر سکے گی۔ امریکہ عالمی مالیاتی اداروں کو پاکستان کو امداد فراہم کرنے سے روک دے گا؛ اگرچہ یہ اقدام انتہائی شدید نوعیت کا ہے لیکن شواہد بتاتے ہیں کہ پاکستان اس کا مستحق ہو چکا ہے۔
جارج ڈبلیو بش نے بھی ایسے ہی اقدام کا سوچا تھا۔ صدر بش نے اُس وقت کے پاکستانی وزیراعظم‘ نواز شریف کو دھمکی آمیز پیغام بھجوایا لیکن اس پر عملی اقدامات کرنے سے پہلے ہی صدر بش اور نواز شریف اپنے اپنے عہدوں سے ہٹ گئے۔ اُس وقت وہ پیغام صرف ایک دھمکی تھا‘ اس پر عمل کرنا مقصود نہ تھا۔ آج یہی دھمکی صدر ٹرمپ کے توشہ خانے میں موجود ہے۔ صدر اوباما نے پاکستان میں القاعدہ کو تباہ کرنا اپنی اہم ترین ترجیح بنایا تھا۔ اُ نہوں نے ڈرون حملوں میں اضافہ کیا اور کئی اہم ترین دہشت گردوں کو نشانہ بنایا۔ ایسے یکطرفہ اقدامات کے لیے پاکستانی تعاون کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ ہی اُس پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔ مزید یہ کہ پاکستان کے ساتھ روابط برقرار رکھتے ہوئے اس کی دہشت گردی کی جنگ میں دی جانے والی قربانیوں کا اعتراف کیا جائے۔ گویا انتظامیہ کے پاس کافی آپشنز موجود ہیں۔ پاکستان کے ساتھ تعاون ممکن ہے۔ جیسا کہ سفارتی اور معاشی بازو استعمال کرنا۔ پاکستان کی منتخب قیادت کے ساتھ بھی بات کی جائے۔ چین اور بھارت سے بھی مشاورت ہونی چاہیے۔ ایک خیال یہ بھی ممکن ہے کہ نئے سرے سے نئے سفر کا آغاز کیا جائے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے ایک مسئلے کی تشخیص کر لی ہے۔ اب اس کا سب سے مشکل مرحلہ درپیش ہے۔ اس وقت پاکستان سیاسی انتشار کا شکار ہے۔ رواں سال عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں؛ تاہم امریکا کو افغانستان میں اپنے دستوں کے تحفظ کے لیے فوری طور پر کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ امکانات کے لامحدود دروازے کھلنے جا رہے ہیں۔ یہ وقت امریکیوں کے لئے ہی فیصلے کا نہیں‘ پاکستان کے لئے بھی ہے‘‘۔
معذرت: گزشہ روز کے کالم میں'' انگریز کی دہلیزوں پر پلنے والے‘‘ کے بجائے ''دروازوں میں پلنے والے‘‘ لکھا گیا۔ معذرت خواہ ہوں۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں