قومی سیاست سے اب مجھے گھن آنے لگی ہے۔ بہت عرصے تک سیاست پر لکھا۔ اکثر ادوار میں لکھنے کا مزہ بھی آتا تھا۔ بیانات‘ تہمت تراشیاں‘ رائج الوقت سیاسی سرگرمیاں‘ ایک دوسرے کی عزت اچھالنا اور اچھال کر خوش ہونا‘ یہ سارے مشاغل اور حرکات‘ جنہیں ہم سیاست کہتے ہیں‘خوانخوار کھیل ضرور ہے‘ سیاست ہرگز نہیں۔ اور پھر قومی سیاست کے کھلاڑیوں کو تو دیکھئے کہ کون کیا ہے؟ سیاسی پارٹی کا پسِ منظر کیا ہے؟ وہ کہاں بنائی گئی؟ کیسے بنائی گئی؟ ابتدا میں یہ سب کچھ دیکھ کر ہنسی آتی تھی۔ اب کسی بات پر نہیں آتی۔ اس وقت جن حکومتوں نے ملک اور صوبوں کو پیرانِ تسمہ پا کی طرح جکڑ رکھا ہے‘ یہ ہمارے لئے کھیل نہیں سزا ہے۔ پاکستان کی ابتدا ہوئی تو ہمارے پاس کیسے کیسے انسانی لعل و جواہر تھے؟ 40 کروڑ کے ہندوستان میں اکثریتی قوم کے رہنما جو بڑی تعداد میں تھے‘ ان کے مقابلے میں مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی۔ ہمارے زیادہ تر لیڈر‘ہندو رہنمائوں کے ہم نوا تھے یا تحریک پاکستان کی مخالفت کر رہے تھے۔ ایک چھوٹی سی جماعت مسلم لیگ تھی جس کے رہنما‘ قائداعظم محمد علی جناحؒ تھے۔ ان کی عمر بھی زیادہ ہو چکی تھی اور تپ دق جیسا خطرناک مرض انہیں لاحق تھا۔ مسلمان قوم کی خوش نصیبی دیکھئے کہ قائداعظمؒ کے معالج ایک ہندو ڈاکٹر تھے۔ جب ڈاکٹر نے بتایا کہ مرض خطرناک حدود میں داخل ہو گیا ہے تو قائداعظمؒ نے وعدہ لیا کہ وہ ان کی بیماری کو رازداری میں رکھیں کیونکہ مجھے اپنی قوم کا بہت مشکل کام کرنا ہے۔ آفرین ہے اس ہندو ڈاکٹر پہ کہ اس نے غیر مسلم ہوتے ہوئے بھی اپنے تاریخی مریض کی خواہش کا احترام کیا۔ کانگرس کے بہت سے لیڈروں کو شبہ تھا کہ قائداعظمؒ شدید بیمار ہیں لیکن ان کی بیماری کا راز کسی پر نہ کھلا اور قائداعظم محمد علی جناحؒ زندگی کے آخری دنوں میں پاکستان حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
اللہ کے فضل و کرم اور کروڑوں عوام کی دعائوں کے نتیجے میں پاکستان معرضِ وجود میں آ گیا لیکن بدقسمتی سے ہمیں وہ قیادت حاصل نہ ہوئی‘ جو مختلف محاذوں پر خدمات انجام دے کر کٹے پھٹے پاکستان کو مکمل کرنے کا مشکل کام سر انجام دے سکتی۔ ہمارا پہلا مسئلہ کشمیر تھا۔ حیدر آباد کا حصول ایک دشوار کام تھا لیکن ہم منطقی بنیاد پر دبائو ڈال کر اس کے بدلے میں بہت سی مراعات حاصل کر سکتے تھے۔ حیدر آباد دکن‘ جونا گڑھ اور مانا ودر کی ریاستیں بھی تقسیم کے اصول کے تحت پاکستان کے حصے میں آ رہی تھیں لیکن بعد ازتقسیم کے سارے مسائل کا حل صرف‘ سرکردہ لیڈروں کے ذمے تھے جبکہ مسائل بہت زیادہ۔ جونا گڑھ نے تقسیم کے اصول کی بنیاد پر اپنی آزادی اور خود مختاری کا اعلان کر دیا۔ یہی اس کی غلطی تھی۔ جونا گڑھ کے حکمران آزادی و خودمختاری کے اعلان کی بجائے پاکستان میں شامل ہونے کا اعلان کرتے تو مشرقی پاکستان کی طرح‘ یہ ریاست بھی ہمارے حصے میں آتی۔ بھارت نے فوج کشی کر کے اس پر قبضہ کر لیا۔ یہ ہمارا پہلا نقصان تھا۔ اگر سیاسی قیادت اور سمجھ بوجھ ہمیں دستیاب ہوتی تو ہم ایک اور مشرقی پاکستان‘ جنوبی ہند میں حاصل کر سکتے تھے۔
کشمیر ہر اعتبار سے پاکستان کا حصہ تھا۔ ہندو آبادی کی اکثریت کا بہانہ بنا کر بھارت نے حیدر آباد پر فوج کشی کر کے قبضہ جما لیا۔ یہ واضح مثال ہمارے سامنے تھی۔ حیدر آباد میں ہندو آبادی کی اکثریت اور کشمیر میں ہندو مہاراجہ کے متذبذب ہونے کی بنا پر بھارت نے فوج کشی کر دی۔ حیدر آباد کی مثال سامنے رکھتے ہوئے ہم کشمیر میں فوج کشی کر سکتے تھے۔ جیسا میں گزشتہ کسی کالم میں عرض کر چکا ہوں کہ سری نگر کا چھوٹا سا ایئر پورٹ‘ خالی پڑا تھا۔ لاٹھیاں‘ بندوقیں اور گھٹیا قسم کے پستول لے کر قبائلی لشکر کشمیر میں گھس گئے۔ ان کی نہ کوئی قیادت تھی اور نہ فوجی تربیت۔ وہ کشمیر میں داخل ہو کر لوٹ مار میں مصروف ہو گئے۔ سری نگر کے ایئر پورٹ پر ان کا قبضہ آسانی سے ہو سکتا تھا لیکن انہیں سمجھ ہی نہیں تھی کہ یہ کتنی قیمتی چیز ہے۔ وہ صرف خواتین کے زیور‘ گھروں کے قیمتی سامان اور نقدی لوٹ کر واپس بھاگنے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ اس دوران ہندو حکومت نے جائزہ لے لیا تھا کہ کشمیر کا ہوائی اڈا خالی پڑا ہے اور چند چھاتہ بردار اتار کے اس پر قبضہ کیا جا سکتا ہے۔ پھر یہی ہوا۔ بھارت نے اپنی فوج اتاری۔ سری نگر خالی کرایا اور اپنی فوجیں اتارنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ مہاراجہ جو ابھی تذبذب میں تھا کہ وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کرے یا اپنی آزادی و خود مختاری کا اعلان کرے۔ آخری چوائس اسے حاصل ہی نہیں تھی۔ بھارت نے اس کے تذبذب کا فائدہ اٹھایا اور اس کے ساتھ بات چیت شروع کر دی۔ ابھی بات چیت جاری تھی کہ بھارت نے کشمیر پر اپنے قبضے کا اعلان کر کے یہ افواہ پھیلا دی کہ مہاراجہ نے کشمیر کا الحاق‘ بھارت کے ساتھ کر دیا ہے۔ وہ دن اور آج کا دن‘ ہم ابھی تک ''کشمیر ہمارا ہے‘‘ کا نعرہ لگاتے رہتے ہیں۔ یو این کے فیصلے کے مطابق جتنا حصہ بھارت کے پاس تھا‘ اس کے پاس رہنے دیا اور جس پر ہمارا قبضہ تھا‘ وہ ہمارے پاس رہ گیا۔ یہ کشمیر کا تھوڑا سا حصہ تھا۔ ایک نئی ریاست کے مسائل حل کرنے کی صلاحیتیں صرف اتنی ہی تھیں‘ جتنی قائداعظمؒ کے نالائق ساتھیوں کی۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہم چند دانائوں سے بھی محروم ہو گئے۔ اس کے بعد انگریز اور ہندو کے پٹھوئوں نے پاکستان میں لوٹ مار شروع کر دی۔ جس کا نکتہ عروج گزشتہ چار سال سے بر قرار ہے۔ ہماری قسمت نے یاوری کی تو لوٹی گئی دولت بیرونی ملکوں سے واپس مل جائے گی اور موجودہ حکمران مسلط رہے تو کچھ پتا نہیں ہماری حالت کیا ہو؟ موجودہ سیاسی حکمرانوں کے پاکستان پر قبضے کی حالت تو یہ ہے:
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں