"NNC" (space) message & send to 7575

بھارتی سپریم کورٹ کا بحران

جنوری کے دوسرے ہفتے میں بھارتی سپریم کورٹ کے اندر ایک 'دھماکا‘ ہوا‘ جس کے جھٹکے اور لرزشیں ابھی تک بر قرار ہیں۔ چار سینئر ججوں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے بہت سے اندرونی راز کھولے۔ جن کے سامنے آنے پر بھارتی نظامِ انصاف کی پوری مشینری لڑکھڑا کر رہ گئی۔ سپریم کورٹ کے اندر اختلافات ابلنے لگے تو سینئر جج شدید پریشانی کا شکار ہو گئے۔ اندر کی کہانیاں بھارتی سپریم کورٹ کے چار ججوں کی پریس کانفرنس میں منظر عام پر آئیں۔ ان دنوں ہماری سپریم کورٹ میں بھی سیاسی عناصر ہر طرح کی مداخلت کر رہے ہیں لیکن چیف جسٹس‘ میاں ثاقب نثار کے حلم و تحمل اور مدبرانہ قیادت کے زیر اثر ہماری عدالت عظمیٰ کی اعتدال پسندی بر قرار ہے۔ ذیل میں کلدیپ نیئر کا ایک تجزیہ پیش خدمت ہے۔
''اسے معمولی بات پر غیر معمولی جوش و خروش کہیے یا کچھ اور، یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ عدلیہ بے نقاب ہو چکی۔ جس غیر جانبداری کے لئے اسے سب جانتے رہے ہیں‘ وہ لڑکھڑا گئی ہے۔ ''پہلی بار ججوں کو عوام کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے‘‘۔ یہ وہ بہترین شہ سرخی ہے جو میں نے ایک اردو روزنامہ میں پڑھی۔ اس میں پوری کہانی بیان کر دی لیکن پھر بھی کئی باتیں کہے بغیر چھوڑ دی گئیں۔ سپریم کورٹ کے چار ججوں‘ جسٹس جے چلمیشور‘ رنجن گوگوئی‘ مدن بی لوکور اور کورین جوزف نے‘ پریس کانفرنس کر کے تاریخ رقم کر دی۔ انہوں نے بیان کیا کہ چیف جسٹس کیا کرتے رہے ہیں؟ الزام ہے کہ چیف جسٹس نے خود کو سب سے برتر بنا رکھا ہے۔ چار ججوں کے ذریعے عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس پر سرعام حرف گیری نے لوگوں کو سکتے میں ڈال دیا لیکن حکومت نے مداخلت نہ کر کے اور عدلیہ پر اس معاملے کو چھوڑ کر بحران کو بے قابو ہونے سے بچا لیا۔ اپنے ردعمل میں سابق چیف جسٹس آف انڈیا‘ آر۔ ایم لودھا نے یہ سوال اٹھایا کہ ایسا کھولتا ہوا مسئلہ دو مہینے تک دبا کیوں رہا؟ اس واقعہ سے پریشان ہوں۔ جو کچھ ہوا‘ وہ ایسے شخص کے لئے بہت افسوس ناک اور تکلیف دہ ہے‘ جو سپریم کورٹ جیسے ادارے کا صدر نشین رہا ہو۔ خط کو منظر عام پر لائے جانے سے متعلق اپنے ردعمل میں ان کا یہ کہنا بجا ہے کہ چیف جسٹس کو اس معاملہ پر ججوں سے بات کر کے مسائل کو سلجھانا چاہئے تھا۔ جیسا کہ چار ججوں کا کہنا ہے کہ معاملات شاید اتنے سنگین نہ ہوتے لیکن وہ اس بنیاد پر توجہ طلب تھے کہ چیف جسٹس اور دوسرے سب سے زیادہ سربرآوردہ جج‘ جسٹس جے چلمیشور موخر الذکر کے میڈیکل کالج میں بد عنوانی کی تحقیقات کا مطالبہ کرنے والے‘ ایک مقدمہ کو پانچ بڑے ججوں کے بینچ کو تفویض کرنے کے بعد‘ سے ناچاقی چلی آرہی ہے۔ اڑیسہ ہائی کورٹ کے سابق جج‘ آئی ایم قدوسی کے اس میں ملوث ہونے کا شک تھا لیکن اس فیصلے کو پانچ ججوں کی کانسٹی ٹیوشن نے پلٹ دیا‘ جس نے یہ فیصلہ دیا کہ چیف جسٹس روسٹر بنانے کے مالک اور صرف وہی مقدمات‘ مختلف بینچوں کو تفویض کر سکتے ہیں۔ ججوں کے درمیان اختلافات کوئی نئی بات نہیں۔ ماضی میں ایسی مثالیں سامنے آئی تھیں جب عدالت عظمیٰ کے ججوں کے درمیان بعض معاملات میں ٹھن گئی۔ 1970ء ا ور 1980ء کی دہائیوں میں جسٹس وائی وی چند راجو اور ان کے جانشین‘ جسٹس پی این بھگوتی کے درمیان رسہ کشی یا جسٹس اے ایم احمدی اور جسٹس کلدیپ سنگھ کے درمیان اختلافات 'بغاوت‘ کے بجائے نظم و ضبط کی خامی تصور کئے جاتے تھے۔ اختلافات خواہ کچھ بھی ہوں‘ موجودہ چار ججوں کی پریس کانفرنس نے سپریم کورٹ جیسے ادارے کے وقار اور اخلاقی حیثیت پر جو داغ لگایا ہے‘ وہ دھل نہ سکے گا۔ چیف جسٹس کے نام اپنے خط میں چاروں ججوں نے بجا طور پر اصلاحی اقدامات کی درخواست کی تاکہ وہ انہیں مختصراً یکساں نوعیت کے عدالتی احکامات کے بارے میں بتا سکیں‘ جن پر ان کی طرف سے کارروائی کی ضرورت ہو۔
قانون کی بالادستی پر مبنی ہمارے نظامِ عدل میں‘ بشمول چیف جسٹس‘ کوئی بھی اس سے بالاتر نہیں ہے۔ اس میں شک نہیں کہ بینچوں کی تشکیل کا اختیار‘ چیف جسٹس کے ہاتھ میں ہے لیکن اختیارات کا استعمال تحکمانہ طور پر ہو رہا ہے نہ کہ منصفانہ انداز میں۔ حکومت‘ نیشنل جوڈیشل اپائٹمنٹ کمیشن ایکٹ کے نفاذ کے لئے موقع کی تلاش میں ہے‘ جسے ججوں نے مسترد کر دیا ہے۔ بد قسمتی سے ججوں کو یہ احساس نہیں ہے کہ ایسا موقع وہ پہلے ہی‘ اس شور شرابے سے فراہم کر چکے ہیں جس کا فائدہ حکومت‘ عدالتی تقرریوں اور تبادلوں میں‘ زیادہ دخیل ہونے کے لئے اٹھا سکتی ہے۔ بھارت میں خوش قسمتی سے آزادی کے وقت سے ہی عدلیہ آزاد ہے لیکن دو ججوں سپریم کورٹ کے ایچ آر کھنہ اور الٰہ آباد ہائی کورٹ کے جگ موہن لال سنگھ نے اسے قابل ذکر بلندیوں تک پہنچایا‘ جب عدلیہ پر افسردگی طاری تھی اور دولت بٹورنا فیشن بنا ہوا تھا۔ کھنہ نے ایمرجنسی کے دوران یہ جانتے ہوئے سچ بولا کہ اس کا انجام کیا ہو گا؟ دیگر چار ججوں سے اختلاف کرتے ہوئے‘ انہوں نے بنیادی حقوق کی عدم مداخلت پذیری کو برقرار رکھا۔ انہیں نظرانداز کر کے دوسرے کو ترقی دے دی گئی اور انہوں نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا۔ اس سال اکتوبر میں جسٹس دیپک مشرا کی سبکدوشی پر‘ وہی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے‘ جس کا سامنا کئی سال پہلے جسٹس کھنہ کو کرنا پڑا تھا۔ کیونکہ مشرا کے بعد‘ صف میں اگلے شخص‘ جسٹس گوگوئی ہیں لیکن ان کے فیصلے سے بھارت کے عوام کو امید بندھی ہے کہ سچ پر قائم رہنے والے جج صاحبان اس وقت بھی پائے جاتے ہیں۔ کھنہ نے اہل وطن کو بتا دیا کہ جمہوری معاشرے کی بنیادی اقدار کا تقاضا یہ ہے کہ ہر شخص کو کس درجے پر قربانی کے لئے مستعد و آمادہ رہنا چاہئے؟ بھارت کے لئے یہ اب بھی ایک سہانا خواب ہے۔
ان مثالوں کے باوجود عدلیہ اپنی رونق کھوتی جا رہی ہے۔ نہ صرف مقدمات کی سماعت میں بے سبب تاخیر بلکہ اس بڑھتے ہوئے تاثر کی وجہ سے بھی کہ ججوں کو اپنی طرف ملایا جا سکتا ہے‘ انصاف کے حصول میں عوام کا یقین کمزور پڑتا جا رہا ہے۔ موکلین اور وکلا کسی مخصوص جج کے سامنے‘ مقدمے کی پیشی کے لئے سازش کرتے ہیں۔ چند سال پہلے تک بد عنوانی کا لفظ سننے میں نہیں آتا تھا‘ اب تو ہر شخص کی زبان پر ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب عدالتی فیصلے عوام دوست اور ماحول نواز ہوتے تھے۔ قوانین کی تفسیر اس انداز میں کی جاتی تھی کہ عام آدمی کو راحت ملے اور پیڑ پودوں کی سفاک عمارت سازوں سے حفاظت ہو۔ عدلیہ خصوصاً عالمگیریت کے بعد سے دولت‘ اقتدار اور نباتات و حیوانات کو ہلاک کرنے والوں کی طرفدار ہے۔ عدلیہ نے اس اختیار کو بھی اپنے قابو میں رکھنے کی کوشش کی ہے جو قانون ساز ادارے کا ہے۔ عدلیہ عوامی زندگی کا بہت اہم حصہ بن گئی ہے۔ سیاست دانوں میں قانون کے ذریعے ہی نظم و ضبط پیدا کیا جا سکتا ہے۔ اگر عدالت عظمیٰ کے جج صاحبان صرف اپنے لئے ہی سوچیں اور قانون کو نظر انداز کر دیں تو جمہوریت خطرے میں پڑ سکتی ہے‘‘۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں