''امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جان بولٹن کا بطور نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر انتخاب‘ شمالی کوریا اور ایران جیسے ممالک کے بارے میں‘ ان کی خارجہ پالیسی کو زیادہ عقابی بنانے کا سبب بن سکتا ہے۔ پاکستان بھی اس انتخاب اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ممکنہ تبدیلیوں سے متاثر ہو سکتا ہے کیونکہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات اب ماضی جیسے نہیں رہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر قدامت پسندانہ سوچ کے حامل نئے امریکی سکیورٹی ایڈوائزر نے‘ اسلام آباد کے خلاف کوئی سخت اقدام کیا تو اس کا شدید ردّعمل سامنے آئے گا‘ جو پاکستان‘ چین‘ روس اور ایران کے زیادہ قریب ہونے کی صورت میں برآمد ہو سکتا ہے۔ نائن الیون کے بعد‘ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ‘ پاکستان کا اہم اتحادی رہا ہے۔ دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات اس وقت خراب ہوئے جب امریکہ نے پاکستان سے حقانی نیٹ ورک کے خلاف ''ڈو مور‘‘ کا مطالبہ شدت سے کرنا شروع کیا۔ تعلقات میں اسی خرابی کی وجہ سے ٹرمپ انتظامیہ نے سالِ رواں کے آغاز میں‘ پاکستان کی ملٹری اور سکیورٹی امداد معطل کر دی تھی۔ پاک امریکہ امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ اس سے آگے بڑھ کر پاکستان کا ''نان نیٹو اتحادی‘‘ ہونے کا رتبہ (سٹیٹس) ختم کر سکتے ہیں اور واشنگٹن پاکستان کو دہشت گردوں کا سپانسر ملک قرار د ے سکتا ہے۔ البرائٹ سٹون برج کے جنوبی ایشیا کے شعبے کے ڈائریکٹر آف کنسلٹنسی‘ عزیر یونس نے اس بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ جان بولٹن کے شدت پسندانہ نظریات‘ پاکستان کے خلاف زیادہ سخت بیانات کی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔ امریکہ کی سخت گیر پالیسی‘ ڈرون حملوں میں اضافے‘ اقتصادی پابندیوں اور پاکستان کی سفارتی تنہائی کا باعث بن سکتی ہے۔ اس کا نتیجہ پاکستان کی پوزیشن کو مزید مضبوط بنانے کی شکل میں نکلے گا۔ یہ صورتحال اسے دوسری علاقائی قوتوں بیجنگ‘ ماسکو اور تہران کے قریب لے جائے گی۔ ان تینوں ممالک‘ جن کے امریکہ کے ساتھ تعلقات فی الوقت سرد مہری کا شکار ہیں‘ گزشتہ مہینوں میں پاکستان کے ساتھ تعلقات کو تسلسل کے ساتھ بڑھایا اور مستحکم کیا۔ ماسکو اور اسلام آباد نے دفاعی معاملات اور توانائی کے شعبوں میں دلچسپی کا اظہار کیا۔ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے اپنے سیاسی و اقتصادی ماہرین کے وفد کے ہمراہ‘ گزشتہ ماہ اسلام آباد کا دورہ کیا تاکہ دونوں ملکوں کے تعلقات کو مزید مضبوط بنایا جا سکے۔ پاکستان کے دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت یعنی چین کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہیں‘ جس کا ثبوت دونوں ملکوں کے متعدد مشترکہ انفراسٹرکچر پراجیکٹس ہیں‘ جیسے پاک چین اکنامک کوریڈور۔
یہ ساری پیش رفت ایک ایسے وقت پر ہوئی جب امریکہ‘ روس کے خلاف نئی پابندیاں عائد کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ چینی اشیا پر ٹیرف بڑھانے کی تجاویز اور ایران کے ہونے والا نیوکلیئر معاہدہ ختم کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ جس کے بعد ایران کے خلاف امریکہ کے ملٹری ایکشن کے خدشات بڑھ جائیں گے۔ آزادی کے کام کرنے والے ریسرچ گروپ 'کاٹو انسٹیٹیوٹ‘ (Cato Institute) کی وزٹنگ ریسرچ فیلو‘ سحر خان بھی اس بات سے متفق ہیں کہ امریکہ نے زیادہ سختی کی تو پاکستان‘ بیجنگ، ماسکو اور تہران کی بانہوں میں چلا جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ پاک امریکہ تعلقات‘ جو پہلے ہی نچلی ترین سطح پر ہیں‘ جان بولٹن مزید تنائو پیدا کرنے کا باعث بنے گا کیونکہ پاکستان کے بارے میں اس کی تفہیم سطحی ہے‘ جو یہ بتاتی ہے کہ یہاں دو طرح کے ایکٹرز مصروفِ کار ہیں: اسلامی اور غیر اسلامی‘ حالانکہ زمینی حقائق اس سے زیادہ پیچیدہ ہیں۔
امریکہ‘ افغانستان میں 17 سالہ جنگ کے باوجود فتح حاصل نہیں کر سکا۔ افغان جنگ میں دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے امریکی کوششوں کا ذکر ہوتا ہے‘ اس میں پاکستان بھی ایک اہم کردار ہے‘ جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اگر امریکہ نے پاکستان کے خلاف سخت اقدامات کئے تو یہ امریکہ کے لئے دو دھاری تلوار ثابت ہوں گے۔ عزیر یونس نے اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے معاملات میں پاکستان کو‘ امریکہ پر کچھ برتری حاصل ہے۔ امریکہ کی جانب سے سخت گیر پالیسی کے ردّعمل میں پاکستان‘ افغانستان میں دہشت گردوں کے خلاف برسر پیکار‘ امریکی فوجیوں کی سپلائی منقطع کر دے گا۔ یاد رہے کہ پاک امریکہ تعلقات میں تمام تر تنائو کے باوجود‘ افغانستان میں موجود پندرہ ہزار فوجیوں کے لئے ضروری سامان‘ پاکستان کے راستے ہی پہنچ رہا ہے۔
ماہرین اس بات سے متفق نہیں کہ امریکہ میں جان بولٹن کے بطور نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر‘ پاکستان پر دبائو بڑھ جائے گا اور اس سے ''ڈو مور‘‘ کے تقاضوں میں شدت آ جائے گی۔ جونا بلینک ایک غیر منافع بخش تھنک ٹینک RANDC کارپوریشن میں سینئر پولیٹیکل سائنٹسٹ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جان بولٹن‘ سابق صدر جارج ڈبلیو بش انتظا میہ میں آرمز کنٹرول کے معاملات پر‘ انڈر سیکرٹری کے طور پر خدمات سر انجام دیتے رہے ہیں۔ اس عہدے پر کام کرتے ہوئے وہ اُس وقت پاکستان کے معاملات پر خاموش ہی رہے تھے۔ جوہری پھیلائو کے معاملات پر نظر رکھنا اس وقت جان بولٹن کی ذمہ داریوں میں شامل تھا۔ پاکستان اس وقت مبینہ طور پر جوہری پھیلائو کا مرتکب ہو رہا تھا لیکن بولٹن نے ان معاملات پر کوئی توجہ نہیں دی تھی۔ اس کے برعکس بولٹن کی توجہ اس وقت ان ممالک پر مرتکز رہی‘ جو امریکہ کے لئے مخاصمت کے جذبات رکھتی تھیں‘ جیسے ایران، عراق، لیبیا، شمالی کوریا، اور کیوبا۔ اپنے مشاہدے کی بنیاد پر جونا بلینک نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اگر جان بولٹن نے ماضی میں‘ پاکستان کے بارے میں سخت رویہ اختیار نہیں کیا تھا‘ جب وہ آرمز کنٹرول کے شعبے میں انڈر سیکرٹری آف سٹیٹ تھا تو اب یہ تصور کرنے کی کوئی وجہ نہیں کہ وہ نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر بن کر پاکستان کے معاملے میں سخت پالیسی بنائے گا یا سخت اقدامات کرے گا۔ اگر بولٹن کی سوچ میں اچانک کوئی بڑی تبدیلی رونما ہو جائے تو پھر کچھ نہیں کہا جا سکتا‘‘۔ (نائیشکا چندرن کے ایک تجزیاتی مضمون کا خلاصہ)