"NNC" (space) message & send to 7575

ہمارے خطے کی تبدیلیاں

جو کام امریکہ میں شروع ہونے والا ہے‘ آج ہمارے پاکستان میں بھی شروع ہو چکا ہے۔ پہلے قطرہ قطرہ تھا‘ اب اس کی رفتار تیزتر ہو رہی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ آج کا منظر دیکھ کر تجزیہ نگار امریکہ سے شروع کریں گے اور جنوبی ایشیا کا منظر پیچھے چلا جائے گا۔ میں جنوب مشرقی ایشیا سے شروع کر رہا ہوں۔اگلا نمبر جنوب مغرب ایشیا کا ہو گا۔مجموعی طور پر یہ تبدیلیاں جنوب مشرقی اور مغربی ایشیا کو محیط ہوں گی۔
'' ٹرمپ اگر بطور صدر ناقابل پیش گوئی نہ ہوں تو ان کی کوئی حیثیت نہیں‘ لیکن جب بات خارجہ پالیسی کی ہو تو ان کا ناقابل اعتبار ہونا ہی‘ خارجہ پالیسی کا سب سے بڑا اثاثہ ہے۔ آخر کار کم آمیزی اور حد سے زیادہ ردعمل ظاہر کرنا‘ دونوں خوبیاں یا خامیاں ‘امریکیوں کے ڈی این اے میں شامل ہیں۔ ڈاکٹر ہنری کسنجر کو ایک بڑے حکمت کارکے طور پر دنیا بھر میں تسلیم کیا جاتا ہے۔ وہ ٹرمپ کو صدر بننے سے پہلے بھی مشوروں سے نوازتے رہے ہیں۔ کسنجر اس وقت 95 برس کے ہیں اور پہلے ہی کی طرح عام فہم یعنی سب کو سمجھ آجائے۔ وہ خارجہ پالیسی تشکیل دینے کے سلسلے میں مختلف صدور اور صدارتی امیدواروں کو دستیاب رہے ہیں۔ ان کا ایک اور وصف خاموش شٹل ڈپلومیسی ہے۔ وہ طویل مدتی مسائل کا حل تلاش کرنے کے حوالے سے نیو ورلڈ آرڈر کی تشکیل میں بھی مصروف رہے۔ انہوں نے سرد جنگ کے زمانے میں چین سوویت محور کو توڑنے کے لئے کام کیا ‘ اور خاصا وقت چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کا واویلا کرتے گزارا۔ اب یہ کہنہ مشق سفارت کار تیزی سے تغیر پذیر حالات میں ایک نئے آرڈر کی تشکیل میں مصروف ہے اور اس کا آغاز امریکہ کے لئے آج کے دور کے سب سے بڑے سر درد یعنی شمالی کوریا کے بارے میں پالیسی وضع کرنے سے کیا جا رہا ہے۔ 
اپنی تازہ ترین تصنیف ''ورلڈ آرڈر 2014ء ‘‘ میں ہنری کسنجر تاریخ سے یہ سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ ماضی میں کب اور کن حالات میں ورلڈ آرڈر (دنیا کی ترتیبِ نو یا تنظیمِ نو) کے کامیاب یا ناکام ہونے کی حوصلہ افزائی کی گئی؟ کسنجر کی نظر میں 1648ء میں تیس سالہ جنگ کے اختتام پر ویسٹ فیلیا میں قائم کیا گیا طاقت کا توازن ایسے ورلڈ آرڈر کی ابتدائی شکل تھی۔ ویسٹ فیلیا شمال مغربی جرمنی کا ایک علاقہ ہے۔ سترہویں صدی کے نصف اول میں جو ایک خوفناک جنگ اور خانہ جنگی کا شکار رہا اور پھر وہاں ایک معاہدے کے تحت امن قائم کیا گیا۔ کسنجر کے خیال میں ایک جیسی قوت کی حامل طاقتوں کے نظام ‘ جس میں کوئی بھی اتنی طاقتور نہ ہو کہ دوسری کو شکست دے سکے‘ میں دوسرے کی خود مختاری کو تسلیم کرنے اور قانون سازی کے عمل میں شراکت سے کسی براعظم پر لچک دار توازن قائم کیا جا سکتا ہے۔ اور ان بڑی طاقتوں میں سے کوئی ایک یا دوسرے درجے کی کوئی دوسری طاقت‘ عدم استحکام پیدا کرنے والے اقدامات کے ذریعے سر اٹھانے کی کوشش کرے تو رول آف آرڈر کے تحت‘ ان طاقتوں کا ایک اتحاد بنتا ہے‘ جو اس نئے پیدا ہونے والے خطرے کا سدباب کرتا ہے۔کسنجر نے یہ تسلیم کیا ہے کہ اگلی صدی میں کچھ ایسی طاقتور قوتوں‘ جن سے مفر ممکن نہ تھا‘ نے ہی ویسٹ فیلیا آرڈر کو سبوتاژ کر دیا۔ یہ قوتیں یا عوامل تھے: جرمنی کا متحد ہو جانا‘ برطانیہ کی ان معاملات میں کم آمیزی اور روس کا اس براعظم کے معاملات پر خصوصی توجہ دینا۔ اس کے ساتھ ساتھ کسنجر بیسویں صدی کے قتل عام پر نوحہ خوانی کرتے نظر آتے ہیں۔ جیسا کہ ان کی تحریروں سے بھی واضح ہوتا ہے کسنجر تھکنے والا آدمی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مسلسل طاقت کے ایک ایسے نئے توازن کے قیام کے لئے تانے بانے بننے میں لگا ہوا ہے‘ جس سے مستقبل میں کسی بڑے عالمی سانحے سے بچا جا سکے۔ 
آج کی دنیا کی بات کی جائے تو زور‘ سرد جنگ کے بعد کے گلوبل آرڈر پر دیا جاتا ہے۔ بلاشبہ امریکہ اب بھی دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کے حریف عنقا ہیں۔ چین امریکہ کے مدمقابل ایک بڑی طاقت بنتا جا رہا ہے‘ جبکہ قدرے کمزور روس بھی امریکہ کو غیر مستحکم کرنے کی خواہش کے تحت بیجنگ کی طرف جھکائو رکھتا ہے۔ ان دو قطبین کے درمیان یورپ ایک موثر ثالث کا کردار ادا کرنے کے حوالے سے خود کو منقسم محسوس کرتا ہے۔ جبکہ ترکی‘ جاپان اور بھارت جیسے علاقائی دیو بڑی طاقتوں کے درمیان اپنی جگہ بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت دنیا بڑھتے ہوئے عدم توازن کی حالت میں ہے۔ دنیا کے دو مخالف کونوں پر واقع امریکہ اور چین ‘ دونوں تاریخی استثنا کے دعوے دار ہیں اور دونوں موجودہ بین الاقوامی نظام کیلئے مرکز ثقل کا کام دیتے ہیں۔ صدیوں تک دنیا کا مرکز رہنے کے بعد چین کو مغرب کی قیادت میں ایک الگ آرڈر کا حصہ بننے پر مجبور کر دیا گیا۔ کسنجر نے خبردار کیا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ چین یہ توقع 
کرنے لگے گا کہ معاصر آرڈر کے اصولوں پر نظر ثانی کی جانی چاہئے تاکہ یہ اس کی ضروریات کے مطابق ڈھل جائیں۔ ٹرمپ وائٹ ہائوس رہیں یا شی چن پنگ ساری زندگی کیلئے صدارت کی کرسی پر براجمان رہیں‘ یہ طے ہے کہ چین کی معاشی تحفظ کی خواہش امریکہ کی عالمی غلبہ قائم رکھنے کی ضرورت کے ساتھ تصادم کے راستے پر ہے اور جب تک امریکہ کوئی ایسا راستہ تلاش نہیں کر لیتا‘ جس کو اختیار کرکے ابھرتے اور طاقت اختیار کرتے ہوئے چین کے ساتھ توازن قائم ہو جائے یا اس کے ساتھ بقائے باہمی کا کوئی معاملہ نہیں ہو جاتا ‘ جاری صدی میںطاقت کی عظیم سیاست کی بساط پر ‘ماضی کی نسبت کوئی بڑا سانحہ رونما ہونے کے خدشات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس ورلڈ آرڈر میں جزیرہ نما کوریا کی اپنی ایک اہمیت ہے۔ سلطنتوں کے بیچ پھنسے ہوئے کوریا کے لئے بڑی طاقتوں کا شکار ہونا کوئی نئی بات نہیں۔ اگر تو کوریا کو اپنے طاقتور پڑوسیوں کے درمیان اتنا ہی بڑا ہونے کا تاثر دینا ہے تو اس کے لئے اسے متحد ہونا ہو گا۔ کسنجر کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس سلسلے میں پہلے بھی کوششیں ہوتی اور ناکامی سے دوچار ہوتی رہی ہیں‘ لیکن اب شاید ضرورت پہلے کی نسبت زیادہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا چین اور امریکہ ایک بار پھر کوریا کے بارے میں کسی سمجھوتے تک پہنچنے میں کامیاب ہو سکیں گے تاکہ طاقت کی اس عظیم مسابقت کو مینج کر سکیں۔ دونوں بڑی قوتیں کوریا کے نیوکلیئر اسلحے کو نیوٹرل کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ دونوں اس حقیقت سے بھی آگاہ ہیں کہ امریکہ نے کوریا میں فوجی مداخلت کی تو چین کو بھی اس عمل کا حصہ بننا پڑے گا اور ایسی کسی صورتحال سے دونوں کو بچنا چاہئے۔ پھر دونوں سکیورٹی‘ معیشت اور سیاسی حوالوں سے اس قابل ہیں کہ کوریا کو ایک بار پھر متحد ہونے کے 
راستے پر ڈال سکیں۔ اس طرح کوریا کا جزیرہ نما امریکہ اور چین کے لئے مسابقت کا طویل المیعاد تھیٹر تو رہے گا ہی ‘ اس کے ساتھ ساتھ شمال مغربی ایشیا میں دونوں بڑی طاقتوں کے مابین طاقت کے توازن کا سبب بھی بنا رہے گا۔ صدر ٹرمپ کی شمالی کوریا کے بارے میں پالیسی اسی صورتحال کی غمازی کرتی ہے۔ دونوں ملکوں کے رہنمائوں کے مابین ملاقات کے حتمی اعلامیے میں شمالی کوریا کی ایٹمی صلاحیت کے خاتمے اور وہاں انسانی حقوق کی صورتحال کا کوئی ذکر موجود نہ ہونے پر شور مچانے والوں کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ شمالی کوریا جیسی ریاستوں کو روکنے یا محدود رکھنے کے حوالے سے اس طرح کا نکتہ نظر ناکام ہو چکا ہے۔ اس ملاقات میں امریکہ اگر اس طرح کے معاملات اٹھاتا تو بات چیت کا سلسلہ وہیں ختم ہو جاتا۔ اس کے بجائے سنگاپور کانفرنس کا فورم اس سلسلے میں بات چیت کیلئے بہترین ثابت ہوا کہ جاری تعطل کو ختم کرنے کیلئے کوشش ہونی چاہئے۔ 
ہو سکتا ہے کہ ٹرمپ امریکہ کی جدید تاریخ کا سب سے زیادہ بنیاد پرست صدر ہو۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک بنیاد پرستانہ طریقہ کار امریکہ میں موجود روایت پسندوں کو بے چین کر دیتا ہے۔ اور سرعت کے ساتھ کوئی اتحاد تشکیل دینا طاقت کے توازن کی سیاست میں شرط اول ہوتی ہے؛ چنانچہ ٹرمپ کا عقابانہ معاشی ایجنڈا اس کے بہت سے اتحادیوں کو اس کا ساتھ دینے پر مجبور کر دے گا اور طاقت کے اس عظیم مقابلے میں امریکہ کو اسی کی ضرورت اور طلب بھی ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کی امریکی صدر جو بھی چال چلے گا وہ سٹریٹیجی سے مکمل طور پر محروم ہو گی۔ فی الحال خارجہ پالیسی کے کسنجر جیسے کہنہ مشق ماہر کی مدد سے‘ کوریا کے مسئلے کا حل تلاش کرنا‘ نیو ورلڈ آرڈر کی تشکیل کے حوالے سے ایک اہم معاملہ ہے‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں