امریکہ اور ایران کے تعلقات کافی عرصے سے کشیدہ چلے آرہے ہیں۔اور اب صدرٹرمپ کی جانب سے عائد کردہ اقتصادی پابندیوں کے بعد‘ اس کشیدگی میں مزید اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا؟ فی الحال عالمی میڈیا سے ولی نصر کا مضمون پیش خدمت ہے۔
''امریکی صدر‘ ٹرمپ نے ایران پر وہ اقتصادی پابندیاں دوبارہ عائد کر دی ہیں جو بارک اوبامہ انتظامیہ نے 2015ء میں جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) پر دستخط کے بعد اٹھا لی تھیں۔ یہ ٹرمپ کا ایران کے خلاف دوسرا بڑا اقدام ہے۔ پہلا اقدام یہ تھا کہ امسال مئی میں اس معاہدے سے ہاتھ کھینچ لئے تھے۔ مئی میں ٹرمپ کی جانب سے معاہدے سے علیحدہ ہونے کے اعلان کے بعدامریکی انتظامیہ مسلسل یہ کہتی رہی ہے کہ تہران پر اقتصادی دبائو مزید بڑھایا جائے گا‘ تاکہ نا صرف اسے ایٹمی پروگرام کی تکمیل سے باز رکھا جا سکے اور ایران کے علاقائی اثر و رسوخ کو کم کیا جا سکے‘ حتیٰ کہ اس کا ایک مقصد اس اسلامی جمہوری ملک کی طاقت کو کم کرنا بھی ہے‘ لیکن بہت سے لوگوں کے خیال میں‘ امریکہ کا مقصد حکومتی کی تبدیلی ہے۔ لیکن اب محسوس ہوتا ہے کہ صدر ٹرمپ کا ہدف ‘مذکورہ بالا اہداف سے کہیں زیادہ چھوٹا اور بودا ہے۔ ان کا ہدف یہ ہے کہ وہ ایران کے ساتھ اپنی نیوکلیئر ڈیل کرنا چاہتے ہیں اور اوبامہ کی ڈیل کو ٹرمپ اپنے راستے کی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ امریکہ کو اس معاہدے سے الگ کرنے کے بعد‘ امریکی صدر چاہتے ہیں کہ ایران کو ترغیب دی جائے کہ وہ ان کی مرضی کے مطابق آگے بڑھے اور پھر ایرانی صدر‘ حسن روحانی کے ساتھ ایک نئی ڈیل کیلئے بات چیت کا سلسلہ شروع کیا جائے۔
یہ تقریباً وہی طریقہ کار ہے‘ جو ٹرمپ نے شمالی کوریا کے ساتھ جاری رکھا ہوا ہے۔ جارحانہ طرز عمل کے بعد مذاکرات‘ جو بد قسمتی سے اس سے مختلف نہیں‘ جو اوبامہ انتظامیہ نے اختیار کیا تھا۔ اوبامہ نے ایران کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے اقتصادی دبائو کا استعمال کیا۔ لیکن ٹرمپ پر تنقید کرنے والوں کا خیال ہے کہ شمالی کوریا والی حکمتِ عملی‘ ایران کے سلسلے میں کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکے گی۔ اور اس کی وجہ وہ ایرانی صدر کے اس بیان کو قرار دیتے ہیں‘ جس میں انہوں نے کہا ہے کہ وہ صدر ٹرمپ پر اعتماد نہیں کر سکتے‘ جنہوں نے ایک ہی لمحے میں ایک بین الاقوامی معاہدہ توڑ دیا اور جو اعتماد کی فضا قائم کرنے کے بجائے غنڈہ گردی کو زیادہ بہتر خیال کرتے ہیں۔لیکن امریکہ کے ساتھ ایک نئی ڈیل کرنا اس سے الگ معاملہ ہے‘ کہ آیا تہران کو واشنگٹن کے ساتھ ایسی کسی ڈیل کے حوالے سے بات چیت کرنی بھی چاہئے یا نہیں۔ اگر ایران ٹرمپ کے ساتھ بات چیت کرتا ہے تو اس کا صاف اور سیدھا مطلب یہ ہو گا کہ وہ پہلی نیوکلیئر ڈیل کے خاتمے کو تسلیم کر رہا ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ ایسی کسی ڈیل سے ایران کو بہت زیادہ مالی فائدہ نہیں ہونے والا‘ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایران کو اس حوالے سے بھی محتاط رہنا ہو گا کہ یورپ‘ روس اور چین کو خود سے دور نہ ہونے دے‘ جو اب تک اوبامہ دور میں کئے گئے معاہدے پر قائم ہیں۔ اس وقت ایران کو سفارتی لحاظ سے اخلاقی برتری حاصل ہے کہ جب ایران نے یہ معاہدہ قبول کیا تھا تو یہ امریکہ تھا‘ جو پوری دنیا سے الگ تھلگ ہو گیا ‘ ایران نہیں۔ لیکن اب اگر صدر روحانی ٹرمپ سے کوئی نیا سلسلہ جنبانی شروع کرتے ہیں تو مختلف حوالوں سے ایران کو جو برتری حاصل ہے‘ وہ اسے کھو دے گا۔
ایران کے لئے ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اب وہ اس پوزیشن میں نہیں‘ جیسا وہ نیوکلیئر بات چیت کے آغاز کے وقت تھا۔ اس نے بہرحال اپنے نیوکلیئر پروگرام کو بند کرنے کا مالی فائدہ اٹھایا اور اس چیز نے اس کے لیڈروں کو جھجک میں مبتلا کر دیا ہے۔ ایران کے پاس یہ انتخاب کرنے کی آزادی بھی نہیں ہے کہ اسے کب بات چیت کرنی ہے؟ اور کب نہیں؟ پابندیوں کے دبائو نے اسے اس وقت سے محروم کر دیا ہے جس میں وہ اپنے نیوکلیئر پروگرام کو دوبارہ تعمیر کر سکتا تھا‘ کیونکہ وہ 2015ء کی سطح پر منجمد ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ واشنگٹن کی جانب سے ڈالے گئے اقتصادی دبائو کے اثرات ظاہر ہو رہے ہیں۔ ایران کی کرنسی اپنی دو تہائی قدر کھو چکی ہے اور مختلف اشیا کی کمی نے افراطِ زر اور بے روزگاری میںاضافہ کر دیا ہے۔ اس سے لوگوں میں مایوسی اور فرسٹریشن پیدا ہو رہی ہے اور وہ احتجاج کناں نظر آتے ہیں۔ اگرچہ ان احتجاجوں سے حکومت کیلئے کوئی خطرہ پیدا نہیں ہوا‘ لیکن اس سے واشنگٹن کے حوصلے بڑھ گئے ہیں اور مذاکرات کے حوالے سے ایران کی پوزیشن کمزور تر ہو گئی ہے۔ ایران کو توقع ہے کہ نہ صرف یورپ بلکہ بھارت‘ چین اور روس بھی‘ امریکی پابندیوں کے سامنے مزاحم ہونے کا کوئی طریقہ نکال لیں گے۔ لیکن ایران کو ان موہوم سے امکانات کا بھی جائزہ لینا چاہئے‘ جن کے حصول کیلئے اسے ٹرمپ سے مذاکرات کا نیا سلسلہ شروع کرنا چاہئے۔ یقینی طور پر ایرانی لیڈر‘ ٹرمپ کی شمالی کوریا کے کم جونگ ان‘ سے ملاقات کے اثرات کا بھی جائزہ لے رہے ہیں۔
شمالی کوریا سے بات چیت میں صدر ٹرمپ نے بڑا مصالحانہ رویہ اختیار کیا اور یہ وعدہ کیا کہ اگر شمالی کوریا اپنے ایٹمی پروگرام سے دست بردار ہو جائے تو وہ اس جزیرہ نما کوریا پر جنگ کا خاتمہ کرا دیں گے اور امریکی فوج کو بھی واپس بلا لیا جائے گا۔ اس طرح کا طرزِ تخاطب ٹرمپ انتظامیہ میں موجود عقابوں کو ظاہر ہے پسند نہیں آتا۔ جب ٹرمپ نے ایران کے ساتھ بغیر کسی پیشگی شرط کے بات چیت کی پیشکش کی تو دراصل انہوں نے کامیابی کے لئے اپنی بے تابی‘ ون آن ون مذاکرات اور نیشنل سکیورٹی ٹیم کے ایران کو ایک مسئلے طور پر لینے کے معاملات کے درمیان اسی طرح کے ایک تنائو کو منکشف کر دیا ہے۔ایران کے سامنے مسئلہ یہ نہیں کہ ٹرمپ کے ساتھ بات چیت کرنا لا حاصل ہو گا‘ بلکہ یہ ہے کہ اپنے عوام کو اس بارے میں کس طرح قائل کیا جائے؟ تہران میں حکومت مخالف پارٹیاں‘ طاقت حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ایران کے حکمران بات چیت کے کسی نئے سلسلے میں داخل ہونے کے متحمل نہیں ہو سکتے‘ کیونکہ اس سے یہ نظر آئے گا کہ پہلے امریکہ نے سادہ لوحی سے ان کو دھوکہ دیا اور اب دوسری ڈیل کیلئے دبائو ڈال رہا ہے۔ اسی بنیاد پر روحانی کے قدامت پسند مخالفین نے ٹرمپ کی پیشکش کو فوری طور پر مسترد کر دیا ہے۔ دوسری جانب ایران کے اندر ایک نئی صورتحال پیدا ہو رہی ہے‘ جہاں سابق صدر محمود احمدی نژاد کے واپس آنے کے امکانات پیدا ہو رہے ہیں‘ کیونکہ ان کی حمایتی گلیوں میں نکلنا شروع ہو گئے ہیں۔
صدر روحانی کے ردعمل نے بھی بات چیت کے عمل اور ٹرمپ کو تنقید کا نشانہ بنانے کے درمیان ایک لائن کھینچ دی ہے لیکن یہ کام انہوں نے ٹرمپ کی پیش کش کو مسترد کئے بغیر کیا ۔ ایران کی جانب سے اس پیش کش پر تا حال کوئی واضح ردعمل سامنے نہیں آیا ہے‘ کیونکہ ابھی تک ایران کی سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل نے اس بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا۔ کونسل کی جانب سے جو فیصلہ آئے گا اس پر ایران کی تمام سیاسی قوتیں متفق ہو سکتی ہیں۔ ساری صورتحال کھل کر سامنے آ چکی ہے۔ اب ایران کو فیصلہ کرنا ہے کہ اس نے کون سا راستہ اختیار کرنا ہے؟‘‘