پاکستان کی معیشت آئی ایم ایف کی مرہون منت ہے۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ شاید آئی ایم ایف بنایا ہی پاکستان کے لئے گیا ہو۔حکومتیں کشکول توڑنے کے بلندو بانگ دعوے تو بہت کرتی ہیں ‘لیکن کشکول توڑ کے ‘ اسے مزید بڑے سائز کا کر دیتی ہے۔اب عالم یہ ہے کہ ہمارے پاس چین کو قرضے کی قسط دینے کے لئے پیسے نہیں ہیںاور ایک بار پھر آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹایا جا رہا ہے۔''پاکستان 1980ء کی دہائی کے اواخر سے اب تک‘ آئی ایم ایف (انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ) سے 12 بیل آئوٹ پیکیج حاصل کر چکا ہے۔ یہ اقتصادی پیکیج قرضوں کے ختم ہو جانے‘ زرِ مبادلہ کے ذخائر کے کم ہونے اور ادائیگیوں کا توازن غیر متوازن ہو جانے کی وجہ سے حاصل کئے جاتے رہے ہیں ۔ پاکستان میں پھر سے اسی عالمی اقتصادی ادارے‘ آئی ایم ایف سے 13ویں بیل آئوٹ پیکیج حاصل کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں‘ جو کہ اب تک حاصل کئے گئے تمام پیکیجوں سے بڑا ہو گا‘‘۔ اب جبکہ پاکستان میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں سابق کرکٹراورسربراہ پاکستان تحریکِ انصاف عمران خان‘ ملک کے وزیر اعظم کے طور پر حلف اٹھانے جا رہے ہیں‘ تو ہمسایہ ملک چین ‘ جو اس خطے میں کلیدی کھلاڑی کا کردار ادا کر رہا ہے‘اصلاحات کی کچھ کوششوں اور معیشت کو آزاد کئے جانے کے باوجود‘ پاکستان غیر ترقی یافتہ ہونے کی کہنہ دلدل سے تاحال نہیں نکل پایا ہے۔ انڈیکس آف اکنامک فریڈم کے ایڈیشن 2018ء کے مطابق‘ پاکستان کی معیشت زیادہ تر آزاد ہے اور اس لحاظ سے 180 ممالک کے انڈیکس میں اس کا رینک 131واں ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی معیشت کئی ممالک کی نسبت زیادہ آزاد ہے۔
معیشت میں ریاست کے ضرورت سے زیادہ ملوث ہونے‘ غیر مؤثر ریگولیٹری فریم ورک اور تسلسل کے ساتھ جاری کرپشن نے‘ پاکستان میں بتدریج نجی کاروبار کے قائم ہونے اور وسعت اختیار کرنے کی راہیں کھول رکھی ہیں۔ بڑے بجٹ خسارے‘ اب ایک پُرانا معاملہ ہو چکا ہے‘ جبکہ ٹیکسوں کے جمع کرنے کا معاملہ تشویشناک ہے‘ کیونکہ ٹیکسوں سے بہت کم ریونیو اکٹھا ہوتا ہے۔دوسری جانب پاکستان کے غیر ملکی قرضے نا قابل برداشت حد تک بڑھ چکے ہیں۔ آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ پیکیج کے حصول کی تازہ کوششیں‘ اس اقتصادی صورتحال پر قابو پانے کے لئے ہی ہیں۔ پاکستان اس سے پہلے بھی آئی ایم ایف سے اقتصادی پیکیج حاصل کرتا رہا ہے‘ لیکن اس پیکیج اور ماضی میں حاصل کئے جانے والے پیکیجوں میں فرق 'چائنا فیکٹر‘ کا ہے۔ پاکستان‘ چین سے حاصل کردہ قرضوں پر اپنا انحصار بڑھاتا جا رہا ہے۔ یہ اربوں ڈالر کے قرضے ہیں۔ پاکستان نے اپنی درآمدات کا دروازہ کھول رکھا ہے اور تعمیراتی آلات اور بلڈنگ میٹریل دوسرے ممالک سے دھڑا دھڑ منگوایا جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ بندرگاہوں‘ سڑکوں اور ریلویز کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے‘ ان میں تبدیلیوں کے حوالے سے کیا جا رہا ہے۔ 62ملین ڈالر کے اس منصوبے کو (CPEC) پاک چین اقتصادی راہداری کہا جاتا ہے۔ یہ ایک طویل مدتی‘ تزویراتی معاشی پارٹنرشپ ہے‘ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین تجارت اور
سرمایہ کاری میں اضافے کا سبب بنے گا۔ چین اپنے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (Belt and road initiative) کے تحت سرگرم جیو پولیٹیکل رسائی میں اضافہ کرتا جا رہا ہے۔ سی پیک اس کی ایک کلاسیک مثال ہے۔ نیشنل ریویو کے ایڈیٹرز اسے ''ڈیٹ ٹریپ ڈپلومیسی‘‘ یعنی قرضوں کے ذریعے پھیلائے گئے جال پر مبنی ڈپلومیسی قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے ''بی آر آئی دراصل ڈیٹ ٹریپ ڈپلومیسی (Debt trap diplomacy) پر مبنی ہے۔ چین اپنے انفراسٹرکچر پروجیکٹس کی خوبیوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ہے اور پھر ان بڑے بڑے منصوبوں کے لئے خود ہی قرضے فراہم کرنے کی پیش کش بھی کرتا ہے‘ لیکن یہ قرضے کڑی شرائط پر دیئے جاتے ہیں۔ جب یہ قرضے واجب الادا ہو جاتے ہیں اور قرضہ حاصل کرنے والا ملک اسے ادا کرنے کے قابل نہیں ہوتا تو پھر چین تقاضا کرتا ہے کہ قرضوں کے ازالے کے طور پر متعلقہ ملک‘ ان انفراسٹرکچرز کا کنٹرول ہمارے( چین) کے حوالے کر دے اور اس علاقے میں اسے‘ یعنی چین کو اپنا اثر و رسوخ بڑھانے دیا جا ئے ۔ ''تزویراتی انفراسٹرکچر کی تعمیر کے ذریعے متعلقہ ممالک کو سیٹیلائٹ ریاستوں میں تبدیل کر دینے کی یہ کوشش مکمل طور پر جیو پولیٹکس ہے۔ چین اسی منصوبے کے تحت جنوب مغربی ایشیا کی جانب وسعت اختیار کرنے کا بھی خواہش مند ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ چین کھلم کھلا اس کا اظہار کرتا رہا ہے‘‘۔چنانچہ یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ غیر ملکی قرضوں کا حجم ریکارڈ 91.8 بلین ڈالر تک پہنچ چکا ہے اور گزشتہ چار برس نو ماہ میں ان قرضوں کے حجم میں 31 بلین ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔
آئی ایم ایف کا خیال ہے کہ پاکستان کے کرنٹ اکائونٹ خسارے میں تیزی سے اضافے اور اس کے غیر ملکی قرضوں پر واجب الادا ادائیگیوں کے بڑھنے کے پیچھے جو عوامل کارفرما ہیں‘ ان میں سے ایک سی پیک بھی ہے۔ پاکستان کو اس وقت آئی ایم ایف کے ایک اور بیل آئوٹ پیکیج کی ضرورت ہے اور اس نے اس مقصد کے لئے اپنی کوششوں کا آغاز کر دیا ہے۔ اس صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہی امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ ‘مائیک پومپیئو نے کہا ہے ''یہ کسی طور بھی مناسب نہیں ہے کہ آئی ایم ایف کے ڈالر‘ چین کے پاس جائیں یا ان کے پاس جنہوں نے چین کا ان ڈالروں سے واجب الادا قرضہ ادا کرنا ہے‘‘۔ ان کا اشارہ واضح طور پر پاکستان کی طرف ہی تھا۔ وسیع تر تناظر میں بات کی جائے‘ تو پاکستان کی نئی حکومت کو قومی معیشت میں نئی روح پھونکنے کے لئے کچھ بڑے اور اہم قدم اٹھانا ہوں گے۔'' کسی بھی برسر اقتدار حکومت کے لئے سیاسی لحاظ سے یہ نہایت موزوں رہتا ہے کہ وہ ملک میں خاطر خواہ معاشی ترقی نہ ہونے کا مکمل طور پر ذمہ دار‘ ملک میں سکیورٹی کی پیچیدہ صورتحال کو قرار دے دے‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ملک میں مسلسل جاری رہنے والی اصلاحات کے نہ ہونے کی وجہ سے‘ پاکستان کی ترقی کی رفتار دھیمی پڑ چکی ہے۔ معاشی ترقی کے اہداف پورے نہیں ہو پا رہے۔اور یہی وہ مسئلہ ہے‘ جس کی طرف عمران خان کی نئی حکومت کو‘ سب سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہو گی‘ کیونکہ معاشی اور اقتصادی ترقی کے بغیر کسی ملک کے آگے بڑھنے کا عمل رک جاتا ہے‘‘۔