سپر پاور بننے کی دوڑ میں شامل ممالک کی بے چینیاں‘ روزبرو ز بڑھتی جا رہی ہیں۔اس کا تعین تو آنے والا وقت ہی کرے گا کہ کون سا ملک ‘حقیقی معنوں میں سپر پاور ہوگا؟سٹیون اے کُک کا مضمون اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ''جنگ عظیم دوئم کے دوران‘ امریکی فوج اور نازی اتحادیوں کے مابین پہلی بڑی جنگ دراصل یورپ میں نہیں ہوئی تھی۔ 8 تا 10 نومبر 1942ء کے دوران امریکہ اور اتحادی فورسز نے الجیریا اور موروکو میں لینڈ کیا تھا۔ فرانس کی فورسز کو شکست دینے کے بعد‘ فوجوں نے تونیسیا کی طرف قدم بڑھائے تاکہ اس ملک میں موجود جرمن فوجوں پر دھاوا بولا جا سکے۔ شمالی افریقہ ہی کیوں؟ اتحادی فوج کے منصوبہ سازوں نے یہ تعین کر لیا تھا کہ 1942ء میں کیا گیا فرانس کا حملہ‘ ناکامی سے دوچار ہو گا؛ چنانچہ یہ منصوبہ بنایا گیا کہ جرمنی پر وہاں سے حملہ کیا جائے‘ جسے ونسٹن چرچل نے مبینہ طور پر بحیرہ روم کے علاقے کا نرم یا کمزور حصہ قرار دیا تھا۔ چرچل نے (soft belly) کا لفظ استعمال کیا تھا جس کے معنی نرم پیٹ ‘ یعنی نازک حصہ کے ہیں؛ چنانچہ یہ تونیسیا تھا‘ جہاں سے اٹلی اور برلن تک ‘طویل خونی مارچ شروع ہوا تھا۔
ممکن ہے روس کے صدر ولادی میر پوٹن تاریخ کے طالب علم ہوںیا وہ نقشے دیکھنے میں دلچسپی رکھتے ہوں۔ ان کا مشغلہ جو بھی ہو‘ لیکن یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑے گی کہ وہ جغرافیہ کا اچھا خاصا علم رکھتے ہیں۔ ماسکو کا اثر و رسوخ سوویت یونین کے دور کی نسبت خاصا مختلف ہو چکا ہے۔ تب روس (سوویت یونین) اپنی موکل ریاستوں کو اکٹھا رکھتی تھی (سوائے شام میں اس کی جانب سے طاقت کے حالیہ استعمال کے)‘ اس کے باوجود روس اس حوالے سے ایک موثر‘ اور خاصی موثر طاقت رہی ہے کہ اتحادی ممالک کو امریکہ سے دور رکھا جائے۔ اس دوران روس خود کو ایک با صلاحیت‘ غیر نظریاتی پارٹنر کے طور پر پیش کرتا رہا ہے‘ جو علاقائی کھلاڑیوں کے ساتھ مشترکہ مفادات کا حامل ہے اور اس کے اس طرز عمل کے پس منظر میں دراصل اس کی مشرق وسطیٰ اور یورپ کے حوالے سے اپنی حکمت عملی کارفرما ہے۔ یعنی واشنگٹن کی قیمت پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانا‘ اس خطے میں امریکی پوزیشن کو کمزور کرنا اور اس عمل کے دوران یورپ پر کمزور راستوں سے دبائو ڈالنا ‘ اس معاملے میں یہ راستے یورپی یونین کا جنوب اور جنوب مشرق ہے۔ایک نقشہ لیجئے اور اس پر ماسکو سے دمشق تک اور پھر شام کے دارالحکومت سے عراقی کردستان میں اربل تک لکیر کھینچئے۔ شام میں کیا ہوا؟ اس سے سبھی واقف ہیں۔ روسی اس تنازع کا حصہ بنے تاکہ اپنے ایک اتحادی کو تحفظ دے سکے۔ اس طرح اس کی مدد کی کہ وہ جنگ لڑ سکے۔ ایک ایسی جنگ جس کے نتیجے میں لاکھوں لوگ پناہ گزین بننے پر مجبور ہو گئے۔ ان میں سے بہت سوں نے یورپ کی راہ اختیار کی ۔ اس کے یورپ کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوئے اور یورپ کے بعد‘ از جنگ لبرل اتفاق رائے کی قیمت پر روس کا حامی ایک طبقہ پیدا ہو گیا۔ شام کی حقیقت کے بارے میں کون آگاہ نہیں؟ لیکن واشنگٹن میں محض چند لوگوں نے اس صورتحال کا نوٹس لیا ہو گا کہ 2017ء کے بعد سے اب تک روس نے مبینہ طور پر کردستان کے تیل اور گیس کے شعبے میں 4 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ اربل سے روسی اثر و رسوخ اور طاقت کی لائن مشرق کی جانب دراز ہوتی ہے‘عراقی کردستان سے ایران کی جانب۔ ایک خط روسی دارالحکومت سے شروع ہوتا ہے اور ترکی کے دارالحکومت انقرہ تک جاتا ہے۔ روس نے ترکی کو تبدیل نہیں کیا بلکہ شام کے ساتھ تعلق کو تبدیل کیا ہے‘ جہاں پوٹن پاور بروکر ہیں‘ جبکہ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کی دنیا کے بارے میں سوچ‘ اور سرد جنگ کے بعد تاحال تبدیل ہوتی ہوئی بین الاقوامی سیاست نے‘ ترکی اور روس کی پارٹنرشپ کو ممکن بنا دیا ہے۔ ترک جولائی 2019ء میں روس سے ایڈوانسڈ ایس 400 ایئر ڈیفنس سسٹم حاصل کرنے والا ہے۔ ترکی کی روس کے ساتھ تجارت کا حجم‘ امریکہ کے ساتھ تجارت کے حجم سے کہیں زیادہ ہے۔ حال ہی میں رجب طیب اردوان نے ماسکو ‘ بیجنگ اور تہران کو واشنگٹن کا متبادل قرار دیا ہے۔ اس ساری صورتحال نے واشنگٹن کی پالیسی کمیونٹی میں بھونچال پیدا کر دیا ہے اور اس میں ترکی کو کھونے کا ایک طرح کا خوف پیدا کر دیا ہے۔ لیکن یہ صورتحال یورپ کے لئے ایک ڈرائونے خواب سے کم نہیں‘ کیونکہ یورپی لوگ اشیا اور سروسز کی ترسیل کے نظام کے ذریعے انقرہ کے ساتھ منسلک ہیں اور وہ اناطولیہ کو اپنے اور ماسکو کے مابین بفر زون سمجھتے ہیں۔
ایک دفعہ پھر نقشہ پکڑئیے ۔ اس بار بحیرہ روم کے علاقے کو پھلانگتے ہوئے قاہرہ پر جا کر رکئے۔ بائیں جانب مڑئیے اور لائن کو بن غازی تک کھینچئے۔ یہ تیسرا محور ہے۔ روس نے مصر کے لیڈروں کو ہائی ٹیک اسلحہ فراہم کرنے کی پیشکش کی ‘جبکہ انسانی حقوق کے حوالے سے ان مصری لیڈروں سے کوئی جواب بھی طلب نہیں کیا جائے گا۔ یہ مصر کی قیادت کیلئے امریکہ کا ایک زیادہ بہتر متبادل ہے۔ مصر موجودہ علاقائی سیاسی صورتحال کا ایک اہم حصہ رہا ہے‘ جو اس حوالے سے امریکہ کے حق میں تھا کہ امریکہ کو مشرق وسطیٰ میں تین دہائیوں تک اپنی طاقت کے استعمال کا موقع فراہم کرتا رہا۔ 1970ء کی دہائی کے کسنجر کے زمانے میں جب مصریوں کا رخ امریکہ کی طرف تھا‘ کو مکمل طور پر پلٹنے کے بجائے‘ ماسکو نے صرف ان معاملات کو چھیڑا ہے‘ جن میں امریکیوں اور مصریوں کے اختلافات تھے۔ ظاہر ہے اس سے یورپی لیڈر آرام اور سکون محسوس نہیں کر سکتے۔ دنیا بھر میں ہونے والی تجارت کا دس فیصد یہ سامان زیادہ تر یورپ جاتا اور وہاں سے لایا جاتا ہے (درآمدات و برآمدات)‘ اور نہر سویز کے ذریعے ترسیل ہوتا ہے۔ مصر کے روس کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات نے ایک طویل عرصے میں پہلی بار یہ سوال اٹھا دیا ہے کہ امریکی اور یورپی بحریہ‘ اب مشرقی بحیرہ روم بلا کسی روک رکاوٹ کے سرگرم رہنے کے قابل نہیں ہوں گی۔
ماسکو اس خطے میں جو کھیل کھیل رہا ہے‘ ان میں سب سے نمایاں لیبیا ہے۔ یہ واضح نہیں کہ روسی‘ لیبیا کے مشرقی حصے میں کتنی گہرائی تک ملوث ہیں ؟لیکن یہ بالکل واضح ہے کہ وہ تریپولی میں ایک نئی حکومت میں مذہبی عناصر کو شامل کرنے کے کسی سیاسی تصفیے کے خلاف مصریوں اور امارات والوںکا ساتھ دے رہے ہیں۔ لیبیا کا ممکنہ مردِ آہن ‘خلیفہ حفتار کئی بار روسی حکام سے مل چکا ہے اور 2017ء میں پوٹن نے مغربی مصر میں لیبیا کی سرحد سے محض 60 میل دور ایک ایئر بیس پر ایک مختصر سی روسی فورس تعینات کی تھی اور یہ کوئی اتفاق نہیں تھا۔ ظاہری طور پر تو روس نے لیبیا کی سیاسی طاقتوں کے درمیان مصالحت کی کوششیں کی تھیں‘ لیکن یورپ والوں کو شبہ ہے کہ ماسکو حفتار کی حمایت کر رہا ہے۔ لیبیا پوٹن کو ایک بڑی وسعت فراہم کرنے کا باعث ہو سکتا ہے۔ پوٹن ‘ جس کے بارے میں اکثر کہا جاتا ہے کہ اس کے پاس اپنی خارجہ پالیسی پر خرچ کرنے کیلئے محدود وسائل ہیں۔ اس میں پریشان ہونے والی کیا بات ہے؟ دراصل مشرقی لیبیا میں زیر زمین خام تیل‘ دنیا کے سب سے بڑے ذخائر میں سے ایک ذخیرہ ہے۔ جبکہ افریقہ کا قدرتی گیس کا پانچواں بڑا ذخیرہ بھی یہیں ہے۔ لیبیا کا زیادہ تر تیل اور گیس یورپ کو برآمد کیا جاتا ہے۔ لیبیا میں ملوث نہ ہونے کی پالیسی پوٹن کی ایک بڑی تزویراتی غفلت ہوگی ‘ یہ ایک ایسی جگہ ہے‘ جہاں بیٹھ کر روس یورپ کو توانائی کے وسائل کی ترسیل پر واضح طور پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ابھی گزشتہ برس تک روس‘ شام میں مداخلت اور کریمیا کو اپنے ساتھ ملانے جیسے معاملات سے انکار کر ر ہا تھا اورکہہ رہا تھا کہ وہ ان معاملات کا حصہ نہیں ہے۔ لیکن اب تک یہ بات واضح ہو جانی چاہئے کہ ماسکو کی مشرق وسطیٰ میں شام سے بھی اگلے علاقوں میں واپسی عام سی بات نہیں۔ یہ معاملہ کسی بڑے کھیل کا حصہ محسوس ہوتا ہے‘‘۔