بیجنگ میں موجود چینی حکام میں اس بات کا احساس‘ بلکہ اسے خوف بھی کہا جا سکتا ہے‘ بڑھ رہا ہے کہ امریکی صدر‘ ڈونلڈ ٹرمپ ان دو طرفہ تعلقات کو سیدھا کرنے کے اپنے وعدے کو پورا کرنے میں سنجیدہ ہیں‘ جن کے دونوں ممالک پچھلی چند دہائیوںمیں عادی ہو چکے ہیں۔ بیجنگ میں یہ ادراک کسی صدمے سے کم نہیں کہ جو رپورٹیں سامنے آ رہی ہیں‘ ان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے چین کے سامنے بند باندھنے کی وسیع تر پالیسی اقدامات اس سے کہیں زیادہ ہیں‘ واشنگٹن کی جانب سے جن کے بارے میں اعلانات کئے جاتے رہے ہیں۔ جون سے اب تک امریکہ اور چین کے مابین سفارتی تعلقات مختلف محاذوں پر تیزی سے بگڑ چکے ہیں۔ محض تجارت ہی نہیں‘ فوجی اور سیاسی معاملات میں بھی ان دونوں میں اچھا خاصا بگاڑ پیدا ہو چکا ہے‘ تاہم اسے ایک نئی سرد جنگ کا آغاز قرار نہیں دیا جا سکتا‘ فی الحال تو بالکل نہیں۔ لیکن دونوں ملکوں کے مابین تعلقات بے حد ٹھنڈے پڑچکے ہیں۔ اتنے ٹھنڈے کہ شاید اس سے پہلے کبھی نہ تھے۔
اب چین کے صدر شی چن پنگ‘ نومبر میں بیونس آئرس میں ہونے والے جی 20 کے سالانہ اجلاس میں صدر ٹرمپ کے ساتھ ملاقات کریں گے تاکہ ان معاملات اور مسائل کا کوئی حل نکالا جا سکے؟ دونوں ممالک کے پالیسی ایکسپرٹ اس بات پر فکر مند ہیں کہ پہلے ہی اس قدر تاخیر ہو چکی ہے کہ شاید حالات کا رخ واپس نہ موڑا جا سکے۔ نیو یارک میں قائم امریکہ چین تعلقات پر ایشیا سوسائٹی کے سنٹر میں‘ ڈائریکٹر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دینے والے‘ اورویل سچیل نے‘ اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ''امریکہ پُرانے معاہدوں سے اتنا منحرف کبھی نہیں ہوا‘ جتنااب ہے۔ کم از کم میں نے اپنی زندگی میں اس سے پہلے ایسا ہوتے کبھی نہیں دیکھا‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ دونوں ملک ایسے مقام پر پہنچ چکے ہیں‘ جہاں تعاون پر مبنی تعلقات کی سوچ کو اب ایک حد تک ہی بچایا جا سکتا ہے۔ بہت کم لوگوں نے یہ تصور کیا ہو گا کہ دونوں ملکوں کے تعلقات کا گراف اس حد تک نیچے آ جائے گا‘ حالانکہ یہ دنیا کے اہم ترین سفارتی تعلقات میں سے ایک ہیں۔ 1990 اور 2000 ء کی دو دہائیوں میں لوگ‘ تین ٹیز (Ts) یعنی تائیوان‘ تبت اور ٹیاننمین (کے قتل عام) کو امریکہ چین تعلقات میں سب سے زیادہ متنازعہ موضوعات کے طور پر دیکھا کرتے تھے۔ اگرچہ یہ متنازعہ معاملات اور ایشوز موجود رہے‘ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ کہیں پس منظر میں چلے گئے اور زیادہ اہم معاملات ابھر کر سامنے آ گئے۔ اب جبکہ تائیوان کا ایشو ایک بار پھر ابھر کر وائٹ ہائوس کے سامنے آ گیا ہے تو دو دوسرے ٹی (Ts) بھی ابھر کر سامنے آ گئے ہیں‘ لیکن یہ پُرانے والے ٹی نہیں ہیں‘ نئے ہیں‘ یعنی تجارت (Trade) اور سب سے اہم ٹرمپ (Trump)۔ ایک امریکی تھنک ٹینک کی جانب سے ان معاملات پر دئیے گئے ریمارکس کے رد عمل میں امریکی نائب صدر ‘مائیک پینس نے گزشتہ ہفتے چینی پالیسیوں کو وسیع تر تناطر میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے اپنی تنقید میں داخلی سطح پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے لے کر‘ امریکہ میں ہونے والے انتخابات میں مداخلت کے دعووں تک متعدد ایشوزکا احاطہ کیا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا ''جیسا کہ ہم سب کو معلوم ہے‘ بیجنگ اپنی حکومت کی مکمل سوچ کو آگے بڑھانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ وہ سیاسی‘ معاشی اور فوجی ہتھکنڈوں کے ساتھ ساتھ پروپیگنڈا مہم کو بھی بروئے کار لا رہا ہے تاکہ امریکہ میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھا سکے اور یہاں اپنے مفادات کا زیادہ سے زیادہ تحفظ کر سکے‘‘۔
تجزیہ کاروں نے پینس کی اس تقریر کو چرچل کی اس معروف تقریر سے مشابہ قرار دیا ہے‘ جس میں انہوں نے ''آ ہنی پردے‘‘ کی بات کی تھی اور ایک سرد جنگ کے آغاز کی پیش گوئی کی۔ دونوں ملکوں کی حکومتوں نے ایسے تصورات کو ‘کم از کم عوامی سطح پر فی الحال ایک طرف کر دیا ہے لیکن چینی حکام خصوصی طور پر تجارتی جنگ جاری ہونے کے باوجود‘ دو طرفہ الجھے ہوئے تعلقات کو
اجاگر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ تقریر کے کئی روز بعد ایف بی آئی ڈائریکٹر‘ کرسٹوفر ویری نے‘ نائب صدر کی جانب سے معاملات پر دئیے گئے زور کو دوگنا کرتے ہوئے ‘یہ تک کہہ دیا کہ چین ‘امریکہ کے لئے روس سے زیادہ بڑا خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ امریکی سینیٹ کے ایک حالیہ اجلاس میں انہوں نے کہا تھا ''کائونٹر انٹیلی جنس کے حوالے سے ہم جن خطرات کا سامنا کر رہے ہیں‘ چین بہت سے حوالوں سے ان میں سب سے وسیع تر‘ سب سے زیادہ پیچیدہ اور سب سے زیادہ طویل مدتی خطرہ ہے‘‘۔ واشنگٹن کے ساتھ تعلقات میں اس اچانک اور گہری تبدیلی نے بیجنگ کو ایک صدمے سے دوچار کر دیا ہے‘ جہاں موجود قیادت کا خیال تھا کہ ان کے پاس ٹرمپ کا نمبر موجود ہے اور یہ کہ وہ اس امریکی لیڈر کو شانت کرنے اور بہلانے پھسلانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔
اگست 2017ء میں ریاستی میڈیا نے لکھا تھا کہ ٹرمپ محض ایک کاغذی شیر ہیں‘ یہ ایک ایسے شخص کے لئے چینی جذبات کا اظہار تھا‘ جو اپنی طاقت کا بڑھا چڑھا کر اظہار کرتا ہے‘ لیکن در پردہ بے حد کمزور ہے۔ واشنگٹن میں سی ایس آئی ایس چائنا پاور پروجیکٹ کے ڈائریکٹر‘ بونی گلیزر نے‘ اس معاملے پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا '' چین میں جو سوچ جڑیں پکڑ رہی ہے‘ یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ‘ چین کے سدِ باب کے لئے باہر نکل چکی ہے اور اس کے تجدیدِ شباب کے قومی ہدف کو نقصان پہنچانے کے لئے سرگرم ہو چکی ہے‘‘۔اس واضح ہو کر سامنے آنے والی نئی حقیقت پر بیجنگ اور واشنگٹن کا رد عمل ایک دوسرے سے بہت زیادہ مختلف نہیں ہو سکتا۔ امریکہ میں جہاں‘ اب سیاست بے حد جانب دارانہ ہو چکی ہے‘ چین ایک ایسے غیر ممکن لائٹنگ راڈ کی شکل اختیار کر چکا ہے‘ جس نے ری پبلکنز اور ڈیموکریٹس کو متحد کر دیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں ‘یہ ایک عجیب کرتب ہوا ہے کہ ایک دوسرے کی مخالف جماعتیں کسی نکتے پر متحد ہو گئی ہیں۔ پورے سیاسی منظر میںسرکاری حکام‘ تعلیمی ماہرین اور کاروباری لیڈرز اس نکتے پر زیادہ سے زیادہ متفق ہوتے جا رہے ہیں کہ اس وقت امریکہ چین تعلقات کو جنبش دینے کی اشد ضرورت ہے جوان کے خیال میں‘ عرصہ ہوا یک طرفہ طور پر چین کے حق میں ہو چکے ہیں۔ یہی وہ نکتہ ہے‘ جو صدر ٹرمپ بار بار دھرا رہے ہیں۔(سٹیو جیانگ‘ بن ویسکاٹ)