"NNC" (space) message & send to 7575

شرق ِاوسط کے پرانے زخم

یوں تو کم و بیش ترقی یافتہ ملکوں میں ہر جگہ بے اطمینانی ‘داخلی و خارجی اور کسی نہ کسی طرح کا بحران موجود ہے ۔ پرانی طرز کی جنگوں کے زمانے گزر چکے ہیں۔بیشتر ممالک اپنی اپنی طاقت ‘ استطاعت و اہلیت‘ باہمی وداخلی وسائل کے مطابق‘ بحرانوں سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔پاکستان بھی ایسی صورتحال سے دوچار ہے۔اپنے ملک کو ہم ہر طرح پرُامن قرار نہیں دے سکتے ‘کیونکہ داخلی طور پر ہر طرح کے بحران اور بے اطمینانی موجود ہے ۔ دوسری طرف کئی ممالک بیرونی قوتوں کے ساتھ طاقتوں کے ٹکراو میں مبتلا رہنے کے بعد اب ٹھہراو کی طرف بڑھ رہے ہیں۔لبنان ایسے ہی ملکوں میں شامل ہے اور کیوں نہ ہوتا کہ امریکہ اس بحران کا طاقتور فریق رہا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ لبنان استحکام کی طرف بڑھتا ہے یاپھر یہاں مزید شدت میں اضافہ ہوتا ہے۔لبنان کوگزشتہ کئی ماہ سیاسی بحران کا سامنارہا‘ملک میں جاری سیاسی بحران شدت اختیار کرتا گیا‘ حکومت بنانے میںکئی دشواریاں پیش آئیں‘اس کے اقتصادی اور مالیاتی اعشارئے ظاہر کررہے تھے کہ اس کا دیوالہ نکلنے کو ہے۔ لبنان میں کئی عرصے سے اختیارات کی تقسیم کا نظام چل رہا ہے ‘جس کے تحت پارلیمنٹ کی نشستوں کو عیسائیوں اور مسلمانوں میں تقسیم کیا گیا۔ سعودی عرب کے قریبی سعد حریری نے 4 نومبر کو اچانک لبنان کے وزیر اعظم کے عہدے سے استعفیٰ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ' 'میں نے اپنی زندگی کو ٹارگٹ کرنے کے لیے بنائے گئے ‘پوشیدہ منصوبے کو محسوس کر لیا ہے‘‘ ۔
سعد حریری کے استعفے کے اعلان کے بعد ‘لبنان میں سیاسی بحران مزید شدت اختیار کرگیا‘ جبکہ حکام کی جانب سے سعودی عرب پر وزیراعظم کی حراست کے حوالے سے سوالات اٹھائے گئے ‘ جہاں وہ مستعفی ہونے کے بعد دو ہفتوں تک رہے ‘تاہم اب حکومت کو دوبارہ تشکیل دے دیا گیا ہے۔ الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ‘ وزیراعظم سعد حریری 30 اراکین پر مشتمل حکومت کے سربراہ ہوں گے اور انہوں نے فوری طور پر ملک کا نیا معاشی پروگرام‘ سیاسی اصلاحات پیش کرنے کا وعدہ کیاہے۔وزیراعظم سعد حریری نے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ ملک کی معیشت نئی حکومت کے لیے اصل چیلنج ہے۔انہوں نے سماجی رابطے کی ویب پر ٹوئٹ کیا کہ چلیں اب کام کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ لبنان میںحال ہی میں ایک اہم پیش رفت بھی ہوئی ہے اوروہ حزب اللہ کا کھل کر سامنے آنا ہے۔اسرائیل ان کے بارے میں پہلے سے جانتا تھا‘ لیکن اس نے اس کی موجودگی کا اعلان اب کیا ہے‘ تاکہ اس کو سیاسی تعلقات ِعامہ کی مہم کے ایک ایشو کے طور پر عام کیا جاسکے ‘ کیونکہ ایسی مہمات کی کوئی سرحدیں نہیں ہوتی ہیں۔اسرائیل کے سابق وزیر دفاع موشے یعلون نے فوجی ریڈیو سیک کو انٹرویو میں کہا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے ان بحرانوں کے بارے میں عوام سے جھوٹ بولا ۔اس نے لبنان کی سرحد کے ساتھ یہودی آباد کاروں کی بستیوں کے مکینوں کی تشویش سے ہمیشہ انکار کیا ۔انھوں نے ہر وقت ڈرلنگ کے شور کی شکایت کی تھی۔یعلون کے مطابق‘ حکومت نے عوام سے اس لیے جھوٹا بولا کہ اسرائیل اپنے دشمن (حزب اللہ) کو گم راہ کرنا چاہتا تھا ‘ اس کو سرنگوں کی کھدائی جاری رکھنے کی اجازت دی‘ تاکہ اسرائیلی حکام اس کی نگرانی کرسکیں۔ حزب اللہ کو منصوبوں میں تبدیلی یا کوئی اور حکمت ِعملی اختیار کرنے سے روک سکیں۔بعد میںاسرائیل نے ٹیلی ویژن پر ان سرنگوں کی دریافت کی خبر کا خوب ڈراما رچایا اور پروپیگنڈا کیا ۔ اب وہ یہ کہہ رہا ہے کہ لبنان کے سرحدی علاقے میں اس نے سرنگوں کی تلاش جاری رکھی ہوئی ہے‘ مگر دوسری جانب حزب اللہ نے مکمل خاموشی اختیار کررکھی ہے۔ لبنانی ملیشیا سرحد پر اپنے فوجی اثاثوں کی تباہی کو خاموشی سے دیکھ رہی ہے؛ حالانکہ وہ ان پر مستقبل میں کسی جنگ کی صورت میں انحصار کرسکتی تھی۔
لبنانی ریاست اپنے طور پر الجھن کا شکار ہے‘ بالخصوص جب سے اقوام متحدہ کی لبنان میں امن فوج (یونیفل) نے سرنگوں کی موجودگی کو تسلیم کیا اور کہا کہ یہ لبنانی علاقے سے اسرائیل کی جانب جاتی تھیں۔یونیفل اقوام متحدہ کی قرارداد 1701 پر عمل درآمد کی ذمہ دار ہے۔اس کی جانب سے حزب اللہ کی سرنگوں کی موجودگی کے اعلان کو اس قرارداد کی خلاف ورزی سمجھاگیا ہے۔ اس سے لبنان کی پوزیشن بہت ہی کمزور ہوگئی ۔اسرائیل اس مہم سے کئی اہداف حاصل کرنا چاہتا تھا۔ کوئی شک نہیں کہ اسرائیل سرنگوں کے مسئلے کو لبنان کے ساتھ سرحد پر کنکریٹ کی دیوار کی تعمیر کو جاری رکھنے کے لیے ایک جواز کے طور پر استعمال کرنا چاہتا تھا۔ بالخصوص ان متنازعہ علاقوں میں وہ یہ دیوار تعمیر کرنا چاہتا تھا‘ جن تک حزب اللہ کی رسائی ہوسکتی تھی۔وہ یہ ظاہر کررہاتھا کہ قرارداد 1701 ناکام ہوچکی ہے۔اسرائیل اقوام متحدہ کی قرارداد کو الزام دینا چاہتا تھا کہ وہ حزب اللہ کے فوجی ڈھانچے کی ترقی کے لیے ایک ڈھال بن گئی ہے اور حزب اللہ اس عسکری صلاحیت کو اس کے خلاف مستقبل میں جنگ میں استعمال کرسکتی ہے۔ اسرائیل کی خواہش ہے کہ سکیورٹی اور فوجی ترجیحات کو اس طرح از سرنو مرتب کیا جائے‘ تاکہ ان سے ایران‘ حزب اللہ اور شمالی محاذ کے ایشوز کو اولیت حاصل ہوجائے اورجنوبی محاذ غزہ وغیرہ پر بھی اس کو برتری حاصل ہو۔اس مرحلے میں اسرائیلی وزیر دفاع ایویگڈور لائبرمین کی رخصتی سود مند ثابت ہوئی ۔بالخصوص جب نیتن یاہو کسی بھی بھاری سیاسی قیمت پر غزہ میں جھڑپوں کا خاتمہ چاہتے تھے۔یہ ایران کی شام سے لبنان تک‘ اسرائیل کیساتھ جنگ کے مجوزہ منصوبے کے بارے میں اسرائیلی اور عالمی رائے کو ہموار کرنے کا ایک دیباچہ ہے ‘کیونکہ شام میں اس پر روس کا دباؤ ہے‘روس کے نزدیک شام میں استحکام کا انحصار‘ داخلی لڑائی منجمد ہونے کے بعد اسرائیل اور ایران کے درمیان بالواسطہ اور بلا واسطہ محاذ آرائی کے خاتمے پر بھی ہے۔ اس صورت میں ایران کی ترجیح ہوگی کہ جنونی لبنان کے محاذ کو گرم رکھا جائے۔اسرائیل کی فوجی نقل وحرکت بھی روس کے ساتھ بات چیت کا موضوع رہی ہے۔وہ شام میں نقل وحرکت کی آزادی چاہتا ہے ‘کیونکہ ستمبر 2018ء میں شام میں روس کے ایک لڑاکا طیارے کی تباہی کے بعد یہ معطل ہوگئی تھی اورتین ماہ قبل ہی بحال ہوئی ہے۔
اگرروس لبنان میں امن واستحکام سے متعلق تذبذب کا شکار ہے ‘ جیسا کہ اس نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ مستقبل میں لبنان کی توانائی کی مارکیٹ میں ایک بڑا سرمایہ کار بننا چاہتا ہے‘ تو اس کو شام میں اسرائیلی نقل وحرکت پر لگائی گئی اپنی پابندی کو واپس لینا ہوگا۔ وہ شام میں اسرائیل کو نقل وحرکت کی آزادی دے کر لبنان میں امن قائم کرسکتا ہے۔ان ممکنہ مقاصدکے پیش نظر اسرائیل کی سرحدوں پر سرگرمی بظاہرکوئی نئی پیش رفت کا آغازنہیں ہے اور وہ کسی چیز کا اختتام بھی نہیں۔یہ سب کچھ ایک ایسے وسیع تر تناظر کا حصہ ہے ‘جس کا تعلق ایران کے ساتھ محاذ آرائی سے ہے۔اس کی قیادت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کر رہی ہے‘ بنیامین نیتن یاہو کی حکومت اور عرب حکومتیں بڑے جوش وجذبے کے ساتھ اس کی پیروی کررہی ہیں۔یہ بات ناممکنات میں سے نہیں کہ سخت پابندیوں میں گھرا ہوا ایران اپنے موثر آلہ کاروں کو استعمال کرے گا۔دوسروں کو نقصان پہنچانے کے لیے حزب اللہ اس کا ایک بڑا پتا ہوسکتی ہے۔ یہاں اس بات کا حوالہ دینے کی ضرورت نہیں کہ اس نے اپنی سرحدوں سے دور خطے میں بد امنی پیدا کرکے تیل کی قیمتوں میں اضافے کا کافی جواز پیدا کردیا ہے۔ 
دوسری طرف ایران پابندیوں کی حکمت عملی کو بھی یقینی طور پر نقصان پہنچا سکتا ہے ۔یہ حکمتِ عملی ایران کی تیل کی برآمدات کو روکنے اور عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں کم سطح پر برقرار رکھنے میں توازن پر مبنی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں