چین کے صدر شی جن پنگ نے 2017ء میں 19 ویں کمیونسٹ پارٹی کانگریس کے اجلاس میں ''پھر سے جوان ہونے کے دور‘‘ کا ذکرکیا۔ انہوں نے قوم کے منتظر تاریخی مشن کو سب کے سامنے رکھا۔چین اندرونی استحکام اور معاشی ترقی کے ذریعے سات دہائیوںسے ''ذلت کی صدی‘‘ سے کہیں آگے نکل چکاتھا۔ملک نے بڑے پیمانے پر معیشت تیار کی ‘ عالمی طاقت کی حیثیت سے آگے بڑھنے کے مقصدکا آدھا راستہ عبور ہو چکاتھا۔چینی صدر نے منزل تک پہنچنے کے لیے اپنا باقی راستہ دیکھنا چاہا۔ اس نے اپنے سابقہ و موجودہ حالات کا تذکرہ کیا‘ مستقبل کے منصوبہ جات کے بارے میںآگاہی دی‘ حقیقت بھی یہی ہے کہ وہ ایک چین کا صدر ہے‘ جو جغرافیائی ‘سیاسی‘ معاشی میدان میںعالمی سطح پر‘ بڑا وزن رکھتا ہے۔
چین نے اپنی اقتصادی منتقلی میں اس نقطہ نظر کوسامنے رکھا‘ جہاں اسے تیز رفتارمعاشی ترقی درکار ہے۔چین کے رہنماؤں نے آخر میں ملک کے پچھلے ادوار‘موجودہ صورتحال اور مستقبل کے منصوبوں کی حدود کاتعین کیا۔ چین کو جارحانہ تجارتی جنگ‘ دو بدو مقابلہ اور چینی علاقائی مسائل کی شکل میں امریکہ سے کئی چیلنجز کا سامنا رہاہے ۔دعویٰ کیا گیا کہ مستقبل قریب؎ میں چین کو داخلی اور بیرونی چیلنجوں میں سے کسی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا؛ اگر کچھ بھی غیر ممکنہ حد تک بڑھ گیا‘ تواس کے لئے دہائی کے حتمی برسوں کا تعین کیا گیا اور اختتام پر انہیں حل کرنے کا منصوبہ سامنے رکھا گیا۔
پیچیدہ چیلنجز‘جن کا چین کو آج سامنا ہے‘ ان سے نمٹنے کے لیے تحقیقات اور جانچ پڑتال جاری ہے ۔تاریخی پس منظرمیں اس سوال کا جواب نہیں کہ چین آئندہ کیا کرے گا؟ یہ ہرملک کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں کہ وہ کن مسائل پر توجہ مرکوز رکھتا ہے ‘ اس ملک کے رویہ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی پہلی ترجیح کیا ہے۔چین کے اقدامات ملک کے اقتصادی راستے سے منسلک ہیں‘ جغرافیائی سیاست عالمی سطح پر انفرادی طاقت‘ مسائل پر قابو پانے میںکئی حدود تک مدد دیتی ہے۔
مئی 2012 ء میں شی جن پنگ نے کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکریٹری کی حیثیت سے اپنی جگہ بنائی‘ اس سے قبل اصلاحات کے دور میں چین کو اقتصادی اور سیاسی ہدایت دیتے رہے۔1978 ء میں‘ چین نے اپنی معیشت کودنیا کے لیے کھولا اور اقتصادی کامیابی کا راستہ اختیار کرناشروع کر دیا‘ فوج میں عالمی سطح پر اضافہ کیا گیا۔اس 40 سالہ دور میں ‘ چین کی معیشت ہچکولے کھاتی رہی اور بالآخر سنبھل گئی‘ مگر اس دور میں بڑے اندرونی مسائل نے جنم نہیں لیا۔سرمایہ کاری کی واپسی اور بیرونی تجارت ‘ چین کے معاشی معجزہ کے بنیادی ستون بنے‘ ترقی کا یہ سفر مستقل مزاجی سے جاری ہے۔ گھریلو کھپت‘ جدوجہد ‘نجی معیشت اور اعلیٰ قرضوں میں اضافہ‘ بیرونی طور پر چلنے والے مالی بحرانوں کے لئے خطرہ سمجھا جا رہے‘جو موجودہ امریکی اورچین کے درمیان تجارتی جنگ میں بڑا ہتھیار ہے۔ چین کی ٹیکنالوجی میں ترقی امریکہ سمیت کئی ممالک کے لیے درد سر بنی ہوئی ہے۔
2008-9ء عالمی مالیاتی بحران کے بعد چین کے گھریلو ماحول پر گہرے اثرات پڑے‘چینی پالیسی کی ترجیحات تبدیل ہوئیں نئے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا‘مالی بحران نے برآمدات پر مبنی ترقی کے ماڈل کونقصان پہنچایا‘ بنیادی خطرات سامنے آئے ‘300ملین افراد کو نوکری سے ہاتھ دھونا پڑا‘ان میں اکثریت کم عمر کے مینوفیکچررز کارکنوں کی تھی‘ جنہوں نے گھر بھی‘ بینک سے قرضوں پر لیے ہوئے تھے۔جب چین نے ساحلی معیشت کو مارا اور 40 ملین مزدوروں نے خودکو بے روزگار پایا‘ تو حکومت نے برآمداتی سیکٹر میں تیزرفتاری سے گریز کیا‘سڑکوں‘ ریلوے اور ترقی کے منصوبے میں حکومتی 4 ٹریلین یوآن (591 بلین ڈالر) کی سرمایہ کاری کا خلا پیدا ہوا۔معاشی بحران کے بعد چین نے اپنے اقتصادی منتقلی کو برقرار رکھنے کے لئے کریڈٹ کی توسیع پر زور دیا‘ جس کا نتیجے میں صنعتی صلاحیتوں اور بقایا قرض کی ادائی میں کافی معاونت ملی۔
یہ وہ دور تھا‘جب چین نے سست ترقی کا مظاہرہ کیا۔ اس کی معیشت پختگی کی جانب پیش قدمی کرتی رہی ‘ حکومتی قیادت کی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا‘ قدرتی طور پرجس نے معاشی دباؤ کوکم کیا‘حیران کن طورپر‘ بیجنگ رئیل اسٹیٹ مارکیٹ کی حوصلہ افزائی کرتا رہا‘ جو 2015ء سے پہلے تجرباتی طور پر کوئی خاطر خواہ نمایاں نتائج نہیں دے پا رہی تھی‘ نتیجے میں مقامی گھریلو کھپت اور رئیل اسٹیٹ مارکیٹ کو فروغ دینے کی وجہ سے‘ اس کی اہم پالیسی سامنے آئی ‘جو برآمد کے تسلسل سے چین کی تیز رفتار تبدیلی ثابت ہوئی ۔اعداد وشمار کے مطابق برآمدی شعبے 2007ء میں 36 فی صد جی ڈی پی اور 2013 میں صرف 22 فیصد رہی۔چین کو اس حقیقت کا سامنا بھی کرنا پڑاکہ گھریلو کھپت کے طورپر نجی سرمایہ کاری سخت ہوئی اور قرض میں اضافہ ہوا۔ اس کے برآمداتی شعبے میں بحران کے بعد ڈالر کی قدر میں اضافہ کم ہوا ‘ ملک کی معاشی منتقلی کے لئے اہم بفرثابت ہوا‘ کام کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے تیز رفتار شہریوں کو ناگزیر طور پر چھٹکارا حاصل ہوا‘ جغرافیائی منافع بڑھنے لگا‘ جس کے نتیجے میں ابھر کر سامنے آنے والی معیشتیں چین کے مقابلے میں کمزور ہو تی گئیں۔جنوب مشرقی ایشیا ‘ مشرقی افریقہ میں معیشتیںاور خشک درمیانی آمدنی کے نیٹ ورک سے بچنے کے لئے‘ چین کو ٹیکنالوجی کے شعبے میں ترقی کی رفتار تیز کرنا پڑے گی ‘تاکہ ملک کی معیشت کو زیادہ قدر ‘اضافی اور جدید ترین بنا سکے۔
جب شی جن پنگ اقتدارمیں آیا‘ ملک دو قسم کی معیشتوں کے درمیان جکڑا ہوا تھا‘ شوقین ابھرتی ہوئی چینی مینوفیکچررزمارکیٹ تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی تھی‘ لیکن ایک ہی وقت میں‘ چین نے مغربی ٹیکنالوجی پر انحصارکرنا شروع کر دیا‘چینی رہنماؤں کو معلوم تھا کہ ان کے اختیارات محدود تھے‘ اور ان کے پاس کافی وقت بھی ہے۔شی جن پنگ جانتا تھا‘ وہ غلط سمت کی جانب دوڑ رہا ہے۔ (جاری)