چین کے عروج کے بعد ایشیا پیسفک کے علاقے میں چین کی سرگرمیاں محدود ہو گئیں‘ جبکہ جاپان واپس آ رہا ہے۔ 2013ء سے جنوب مشرقی ایشیا میں جاپانی غیر ملکی سرمایہ کاری کو ڈرامائی طور پر بڑھتے ہوئے دیکھا گیا۔ خاص طور پر ابھرتی ہوئی معیشت جیسے ویت نام‘ تھائی لینڈ‘ فلپائن اور انڈونیشیا میں سرمایہ کاری ہوئی۔ انفرادی ریاستوں کے ساتھ علاقائی سلامتی ‘ سفارتی تعاون اور فعال کوششیںجاپان کے بڑھتے ہوئے مالیاتی منصوبوں کو تقویت بخشنے لگیں۔ ویت نام‘ فلپائن‘ ملائیشیا اور انڈونیشیا جیسی ریاستوں کے ساتھ دفاعی تعاون کو بڑھانے کے لیے ٹوکیو ‘چین کے جنوبی سمندر میں زیادہ حرکت میں آیا‘ جبکہ اس نے آسٹریلیا اور بھارت کے ساتھ قریبی دو طرفہ دفاعی تعلقات کا بھی تعاقب کیا ۔ایک طرف جاپان نے 2017 ء میں امریکہ سے آزاد تجارتی معاہدوں پر مذاکرات سے انکار کیا ۔دوسری جانب ٹرانس پیسفک پارٹنرشپ کے لیے وسیع اور ترقی پسند معاہدے کر کے‘ ممکنہ طور پر جاپان نے دو علاقائی میکانیزموں میں ایک اہم کردار ادا کیا ۔ چین کے ساتھ جاپان‘ امریکہ‘ آسٹریلیا اور بھارت کو ایک ساتھ لے کر مختلف پہلووں پرکئی سکیورٹی ڈائیلاگ بھی ہوئے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں‘جاپان ہمیشہ وسیع علاقے پر اپنا اثرورسوخ رکھتا ہے۔ اس نے 1997ء کے ایشیائی مالیاتی بحران کے بعد علاقائی کرنسیوں کو مستحکم کرنے میں اپنا کردار ادا کیا اور طویل عرصے سے کئی کثیر معاشی اور سکیورٹی پلیٹ فارمز کی چیمپئن کے طور پر رہنمائی کرتا رہا ‘ خاص طور پر تھائی لینڈ‘ انڈونیشیااور ویت نام میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری ڈھکی چھپنی نہیں۔ جنوبی شرق اوسط میں چین سے کہیں زیادہ سرمایہ کار سٹاک رکھتا ہے‘ اس کے حصول میں علاقائی سپلائی زنجیروں کا حصہ بھی ہے۔جاپان‘ جنوب مشرقی ایشیا کو سب سے زیادہ امدادبھی فراہم کرتا ہے۔ اس کی محدود خارجہ سکیورٹی کوان ممالک میں موجودگی سے مدد ملتی ہے۔
درحقیقت‘ چین اور دونوں کوریاوں میں جنگ کے دوران ‘جاپان بھی کافی حد تک متاثر ہوا ۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد پیسیفائسٹ نظریے کو اپنایا‘ جاپان نے جنوبی ایشیا اور مشرقی ایشیا میں اپنا معیار دوبارہ سے بحال کیا۔ خاص طور پر جن علاقوں میں ریاستیں معاشی طور پر غیر مستحکم ہیں۔امریکہ اور چین مسلسل ایک دوسرے سے تجارتی میدان میں دست و گریباں ہوتے ہیں‘ سیاسی مصلحت کے طور پر یہ طاقتیں ان ممالک کو کسی ایک کے ساتھ ملنے کے لیے مجبور بھی کر سکتی ہیں۔ ان ممالک میں رائے عامہ کے مطابق؛ جاپان سب سے قابل اعتماد ممالک میں سے ایک ہے۔
تاہم چین نے گزشتہ دو عشروں کے دوران پیسفک رم کے ارد گرد کسی بھی بڑے کردار کا تعاقب کیا ہے۔ تجارتی‘ سرمایہ کاری اور بنیادی ڈھانچے کے روابط کو فروغ دینے اور اس کے فوجی اثرات کو فروغ دینے کے لیے اپنی حیثیت کو کئی گنا بڑھایا۔بہت سے تجزیہ کار‘چین کے عروج کو ایک عنصر کے طور پر بیان کرتے ہیں ‘جس نے جاپان کے علاقائی کردار کو کم کیا ۔ عملی خیالات نے بھی ٹوکیو کے چند اقدامات کو زبردست قرار دیا۔ 2000ء سے قبل‘ جنوبی ایشیا اورمشرقی ایشیا میںجاپان‘ بیرونی ممالک کو ترقیاتی امداد دینے والا سب سے بڑا ملک تھا‘ لیکن 2000 ء کے وسط سے غیر ملکی امداد میں غیر متوقع طور پرواضح کمی دیکھنے کو ملی۔ جاپان کا زراعت کے شعبے میںمرکزی کردار رہا‘ اس شعبے میںکمی کی وجہ سے اقتصادی طاقت متاثر ہوئی‘ غیر ملکی سکیورٹی آپریشنز مسلسل حدود میں آئے‘ متعدد علاقائی نقطہ نظر اور خارجہ پالیسیاں تبدیل ہوئیں۔خاص طور پر جب امریکہ نے نائن الیون کے بعد انسداد دہشت گردانہ جنگ کا آغاز کیا۔سرد جنگ کے خاتمے کے بعد‘ جاپان نے لبرل بین الاقوامی آرڈر اور پیسفک رم کے ارد گرد امریکی موجودگی کو اپنے قومی مفادات کی ضمانت کے طور پر برقرار رکھا۔ اس موقف نے ٹوکیو کو علاقائی اور عالمی لحاظ سے نسبتاً غیر فعال کھلاڑی بنادیا۔
واشنگٹن کے تعاون سے‘ ٹوکیو اب مسلسل سکیورٹی فریم ورک کے اندرکام کرتے ہوئے‘اپنی طاقت کوبڑھانے اوراپنے آپ کو مضبوط بنانے کے لیے کام کررہا ہے۔ جاپان نے اپنی خود دفاعی قوتوں کی سرگرمیاں کی گنجائش کو وسیع کیا اور غیر ملکی کارروائیوں میں بہت زیادہ اہم کردار ادا کررہا ہے‘اس حوالے سے نئی خارجہ پالیسیاں بھی بنائی جا رہی ہیں۔ حکومت نے ملک کے امن کے لیے آئین کے کچھ پہلوؤں کو تبدیل کیا۔ مجموعی طور پرگھریلو مصنوعات میں ایک فیصد دفاعی اخراجات کی حدود رکھی گئیں‘ لیکن جاپانی وزیر اعظم ''شینوزو آبی ‘‘کو آئین کے آرٹیکل نمبر 9 کے آئینی ترمیم سے دھچکا بھی لگا اورسنگین رد عمل کا سامنا بھی کرنا پڑا‘ جو کہ بین الاقوامی تنازعات کو حل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ خاص طور پر اس کی اصطلاح 2021ء میں ختم ہوجاتی ہے‘جب وزیراعظم کا دور حکومت ختم ہوگا۔ امریکہ چین کے خلاف توازن قائم کرنے کے لیے زبردست طاقتور قوتوں کو ساتھ ملانے کے لیے دن رات کوشاں ہے۔ اتحادیوں کو علاقائی ذمہ داریوں کو قبول کرنے ‘معاشی اور دفاعی طور پر مضبوط دیکھنا چاہتا ہے‘ جیسا کہ ٹوکیو نے موجودہ سکیورٹی کی پالیسی میں تبدیلی لائی ۔
جاپان نے تیز رفتارتبدیل ہوتی ہوئی جغرافیائی آب و ہوا کے مطابق؛ خود کو ایڈجسٹ کرتے ہوئے اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کیا‘ امریکی قیادت کی علاقائی سلامتی اور بنیادی ڈھانچے کے اقدامات پر قابل اعتماد اور فعال پارٹنر ثابت ہوا ۔ جاپانی وزیراعظم نے تقریباً کسی دوسرے اتحادی سے زیادہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ بہتر تعلقات پیدا کیے ۔ انعام کے طور پر‘ امریکی رہنما نے اپنے جاپانی ہم منصب کو اعلیٰ حصص کی تجارت کے مذاکرات سے دوبارہ استحکام دیا۔انڈس پیسفک کے علاقے میں مینوفیکچررز کے منصوبوں کو توسیع دینے کے لیے معاہدے کیے گئے ۔ایسا صرف بڑی طاقتوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے فیصلہ کیا گیا ۔ علاقائی ریاستیں‘ امریکہ اور چین کے درمیان توازن کو برقرار رکھنے کے لیے جاپان کو تیزی سے تبدیل کر سکتے ہیں۔ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد نے گزشتہ مئی کے انتخاب کے بعد تین بار جاپان کا دورہ کیا ہے۔جنوبی افریقہ کے ملک کے مینوفیکچررز کی ترقی اور فنانس میں ٹوکیوکے کردار کوغیر فعال بنانے‘ کوالالمپور نے بڑے پیمانے پر چین کے قرضوں سے مالی امداد حاصل کی ‘ اسی طرح‘ فلپائن کے صدر روڈٹرٹ نے اب چین سے کئی معاہدے کئے۔دوسری جانب چین کے ون بیلٹ ون روڈ کے منصوبے میں جاپان کا شامل ہونا ‘جغرافیائی ماحول کو تبدیل کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے ‘جو امریکہ کے لیے کئی مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔