2 اگست کو انٹرمیڈیٹ رینج نیوکلیئر فورسز (آئی این ایف) معاہدہ ‘جس کے تحت امریکہ اور روس کیلئے 500 سے 5500 کلومیٹر کے درمیان زمینی میزائل بنانے پر جوپابندی عائد تھی ‘ ختم کر دیا ہے ۔ اب صر ف دو طرفہ اہم معاہدے‘ امریکہ اور روسی جوہری ہتھیاروں کو محدود کرتے ہیں۔یوں اسلحہ کی ایک نئی دوڑ کا امکان ہے۔
واشنگٹن اور ماسکو نے معاہدے کے خاتمے کے ساتھ‘ایک دوسرے پر الزام تراشی بھی کی ہے‘ لیکن آئی این ایف کے معاہدے کے ختم ہونے کی اصل وجہ کچھ اور ہے ۔ سرد جنگ کے دور میں فوجی طاقت کا توازن بگڑا اور جس سکیورٹی ماحول میں دستخط کیے گئے تھے‘بنیادی طور پر تبدیل ہو چکا۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیںکہ ممالک کے درمیان دو طرفہ ہتھیاروں کے کنٹرول کے معاہدے بہت کم ہی کیے جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اب‘ کئی سوالات جنم لے رہے ہیں‘مثلاً یہ کہ معاہدے میں کیا غلطی ہوئی؟آخر ایسا کیوں ہوا؟ اگر آپ امریکی حکومت سے پوچھیں تووہ روس کی حکومت پر الزام لگاتی ہے کہ روس اس معاہدے کی خلاف ورزی کر تارہا ہے۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق‘ امریکی انٹلیجنس نے الزام لگایا کہ ماسکو کا 9M729 میزائل‘ جو 2000 کے عشرے میںبنایا گیا‘ ایٹمی معاہدے کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ امریکہ کے تمام نیٹو اتحادیوں نے بھی کہا کہ وہ امریکی فیصلے سے اتفاق کرتے ہیں‘ تاہم روس ایٹمی قوانین کو توڑ رہا ہے۔
باہمی الزام تراشی ‘ اسلحہ کے کنٹرول نہ ہونے سے معاہدے تباہ ہوجاتے ہیں‘ لیکن معمول کے مطابق‘اس کام پر گہری قوتیں ہمہ وقت موجود ہیں۔ دلچسپ سوال یہ نہیں کہ کون قواعد کی خلاف ورزی کر رہا ہے؟اصل بات یہ ہے کہ دونوں ممالک نے معاہدے کو ٹھیک کرنے کی بجائے خاتمے کو کیوں ترجیح دی؟ جب 1987ء میں اس معاہدے پر دستخط ہوئے تھے‘ تو رونالڈ ریگن امریکی صدر تھے اور سوویت یونین اس وقت موجود تھا۔ افغانستان پر سوویت حملے کے بعد‘ ریگن کی فوجی تشکیل اور ''بری سلطنت‘‘ قرار دئیے جانے کی تقریر کے بعد‘ سپر پاور کا تناؤ عروج پر تھا۔ اس سے قبل کہ سوویت رہنما میخائل گورباچوف ماسکو کی خارجہ پالیسی کو مزید مفاہمت کی سمت لے جاتا‘ دونوں سپرپاورز پورے یورپ میں درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے میزائل نصب کررہی تھیں۔ فوجی توازن مستحکم نہیں تھااور خطرہ یورپ پر منڈلا رہا تھا۔
نہ وہ وقت رہا‘ نہ وہ حالات ‘بحیرۂ اسود اور بالٹک میں روس کی طرف سے یوکرائن پر فوجی یلغار اور اس کی فوجی تشکیل کے باوجود بین الاقوامی سیاست کا سب سے بڑا چیلنج اب‘روس نہیں‘ بلکہ ابھرتے ہوئے چین کی معیشت ہے ۔ جب آئی این ایف معاہدے پر بات چیت کی گئی تھی‘ چین ایک ایسی دنیا میں مگن تھا‘جس کا کوئی خاص وجود نہ تھا۔ در حقیقت‘ اس کی فوج اتنی خستہ حال تھی کہ حال ہی میں اس نے پڑوسی ملک ویتنام کے ساتھ جنگ ہاری ہے۔ آج روس دوسرے یا تیسرے درجے کی طاقت ہے؛ حالانکہ اس کے پاس ابھی بھی ایٹمی وار ہیڈز کا ایک بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے‘ جبکہ ایسے ہتھیاروں کو INF معاہدے کے ذریعہ ممنوع قرار دیا گیا تھا۔ادھرچین کی توسیع کے پیش نظرکچھ فوجی منصوبہ سازوں کا استدلال ہے کہ امریکہ کو ایشیاء میں زمین پر مبنی میزائل ٹیکنالوجی کے ساتھ فوجی اڈے قائم کرنے چاہئیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس توازن کو دیکھتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ چین کو شامل کرتے ہوئے '' اسلحہ کے کنٹرول معاہدے‘‘ پر دوبارہ بات چیت کی جائے۔ امریکی صدر نے اعلان کیا ہے کہ ہمیں ان ہتھیاروں کو تیار کرنا ہوگا‘ جب تک کہ روس ہمارے پاس نہ آجائے اور چین ہمارے پاس نہ آجائے اور وہ سب ہمارے پاس آئیں اور کہیں؛ چلو واقعی ہوشیار ہوجائیں‘ اور آئیں ہم میں سے کوئی بھی ان ہتھیاروں کو تیار نہ کرے‘‘۔تصویر کا دوسرا رخ دیکھیں تو چین کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ رواں ہفتے بیجنگ کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے اعلان کیا ہے کہ چین کسی بھی طرح سے INF معاہدہ کو کثیرالجہتی بنانے پر راضی نہیں ہوگا‘‘۔ اس کی کئی منطقی وجوہات دکھائی دیتی ہیں‘ چین یا روس دونوں ممالک امریکہ سے کہیں زیادہ ایڈوانس میزائل اورنیوکلیئر ٹیکنالوجی پر کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کوئی بھی نیا معاہدہ‘ جس میں امریکہ کے ساتھ مقداری برابری کو یقینی بنایا گیا ہو‘ اس میں جوہری تعمیر میں محدودیت شامل ہوگی ۔ بیجنگ کے پاس اس معاہدے پر دستخط کرنے کی کوئی خاص وجہ نہیں ہوگی‘ جو اسے مجبور کرے کہ وہ صرف امریکی سطح کے وار ہیڈز یا میزائلوں کا ایک حصہ برقرار رکھے۔ اور خوش قسمتی سے چین کو روس سے مستقل طور پر معاہدوں پر اتفاق بھی کرنا پڑتا ہے اورچین ‘جسے دوسرے درجے کی طاقت کے طور پر دیکھتا ہے۔
اس وقت امریکہ اور چین‘ ایشیاء میں مہارت حاصل کرنے کی جدوجہد میںلگے ہوئے ہیں۔ دوسرے لفظوں میںممکن ہے کہ دونوں ممالک اسلحہ پر قابو پانے والی نئی حکمت عملی پر اتفاق کریں گے‘ لیکن سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ روس کا کیا ہوگا؟ کیونکہ کریملن نے بھی INF معاہدے کو بچانے کے لئے کوشش نہیں کی۔ ماسکو کسی نیٹو ممالک کو یہ باور کرانے میں ناکام رہا ہے کہ اس کا 9M729 میزائل معاہدے کی شرائط کی خلاف ورزی نہیں‘ اس نے نیٹو کے خدشات کو دور کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ پیش کش بھی نہیں کی۔ با الفاظ دیگر روس معاہدے کا خاتمہ دیکھنے کے لیے بالکل تیار تھا۔آخر کیوں؟اور اس کی وجہ کیا تھی ؟ ان سوالات کے جوابات ابھی باقی ہیں۔
واشنگٹن کی طرح ماسکو کو بھی احساس ہے کہ چین کی فوجی طاقت عروج پر ہے۔ اس کے پاس تشویش کے لیے بہت سی وجوہات ہیں؛ حالانکہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور چین کے صدر شی جن پنگ نے دوستی کا دعویٰ کیا ہے‘ تاہم پھر بھی روس کی فکر صرف چین کی ہی نہیں‘ بلکہ کریملن نئی ٹیکنالوجیز کی افادیت کے بارے میں بھی سختی سے سوچ رہا ہے۔ آئی این ایف معاہدے میں میزائلوں کی صرف پرانی نسل پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ یہ وہ قسم ہے‘ جس کی ایجاد ریگن اور گورباچوف کے دور سے پہلے کی گئی تھی ۔
واضح رہے کہ چین‘ روس اور اب، امریکہ نئے ہائپرسونک میزائل تیار کررہے ہیں ‘جو آواز کی رفتار سے کئی گنا زیادہ تیزی سے اڑیں گے۔