امریکہ کی مہاجر پالیسی ناکامی کی جانب گامزن ہے۔امریکہ ہی نہیں‘ دنیا بھر میں پناہ گزینوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے‘ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ بڑی تیزی سے ملک میں داخل ہونے والے افراد پرپابندیاں لگا رہی ہے۔سکیورٹی خدشات کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔ کئی سوال ہرذی شعور کے ذہن میںجنم لے رہے ہیں‘ کیا مہاجرین کے داخلے کو ختم کرنے سے‘ امریکی محفوظ ہوں گے؟ یہ ایک ایساسچ ہے‘ جس کا جواب ڈھونڈنے کی اشد ضرورت ہے۔
امریکہ میں پناہ گزینوں کی تعداد کم کرنے سے‘ جبری طور پر نقل مکانی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے طویل المیعاد سلامتی کے خطرے میں حیرت انگیز طور پر اضافہ ہوگا۔ ملک میں آباد مہاجر متشدد جرائم یا دہشت گردی کے خطرے کو کیا بڑھاوا نہیں دیں گے؟در حقیقت قوم پرست گورے زیادہ پریشانی کا باعث ہیں۔ بے گھر ہونے والے افراد کی دوبارہ آبادی سے انکار‘ عالمی سطح پر مہاجرین کی تعداد میں کمی لانے میں ناکامی‘ تنازعات کو طول دینا‘ حکمت عملی اور معاشی طور پر اہم خطوں کو غیر مستحکم کرنے اور اتحادی ممالک کو کمزور کرنے سے ‘ طویل المیعاد امریکی قومی سلامتی کو نقصان پہنچا ہے۔دوسری جنگ عظیم کے بعد آج دنیا میں زیادہ سے زیادہ مہاجرین ہیں ‘جن کی تعداد تقریباً25.9 ملین ہے۔ لوگوں کے پاس حفاظت کی تلاش میں قومی سرحدوں کے پار بھاگنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب ارادی یا غیر ارادی طور پر بیرون ملک مقیم ہوناہے۔ بے گھر ہونے والے انسانوں کی تعداد میں اضافے کی کئی وجوہ ہیں۔ ایک بار جب کوئی شخص بیرون ملک بے گھر ہو جاتا ہے تو وہ اکثر سالوں تک گھر نہیں لوٹتا ‘ اس کا مطلب ہے کہ جب تک نئے مہاجرین کی تشکیل ہوتی ہے‘ تب تک اس کے خاندان کے افراد کی مجموعی تعدادمیں اضافہ ہوجاتاہے۔
گزشتہ کئی سال معاشی اور سکیورٹی کے حوالے سے خراب رہے ہیں۔ نئے تنازعات اور کریک ڈاونز نے بڑے پیمانے پر واقعات کو جنم دیا ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد خانہ جنگوںکی تعداد میں کمی تو دیکھی گئی ‘مگر 2012 ء سے اب تک 10 ملین سے زیادہ افراد بیرون ملک بے گھر ہوچکے ہیں۔ شام کی نصف آبادی کو لڑائی لڑ کر گھروں سے نکال دیا گیا ۔ آزادی حاصل کرنے کے بعد جنوبی سوڈان تیزی سے خانہ جنگی میں اتر گیا اور روہنگیا مسلمانوں کی نسلی کشی نے ہزاروں افرادکو خوف کے مارے میانمار سے جلدی جلدی فرار ہونے پر مجبور کردیا۔ خانہ جنگی کی موجودہ فصل پہلے کی نسبت زیادہ تعداد میں لوگوں کو بے گھر کرنے کے لئے بدنام ہے۔ 1990ء کے عشرے کے مقابلے میں اب ہر سال بہت سے لوگ خانہ جنگی سے بے گھر ہورہے ہیں‘اور یہی ایک دہائی تھی جس میں بلقان اور روانڈا کی نسل کشی کی جنگوں سے بڑے پیمانے پر انسانی اخراج ہوا تھا۔ اب گنجان آباد اور شہری علاقوں میں لڑائی عام ہے‘ عالمگیریت سفر میں آسانیاں پیدا ہوئی ہیں۔ جنگ کی نوعیت تیزی کے ساتھ جنگی میدانوں اور کثیر تعداد میں شریک گروپوں کے ساتھ بدل رہی ہے‘ جس میں مقامی اور بیرونی دونوں قوتیں شامل ہیں۔سیدھے الفاظ میں‘ پناہ گزینوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے‘ کیونکہ پرانی جنگیں حل نہ ہونے والی ہیں‘ نئی جنگیں شروع ہو رہی ہیں‘ اور آج کی جنگیں غیر یقینی طور پر غیر مستحکم معاملات کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔
ٹرمپ کے اشارے کے برعکس‘ تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے‘ کیونکہ زیادہ سے زیادہ لوگ امریکی عوام کی طرح زندگی جینا چاہتے ہیں ۔ شاید اسی وجہ سے زیادہ تر لوگ اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ یہ انتخاب نہیں ہے۔ دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی تعداد کے باوجود‘ پناہ گزینوں کے ذریعے امریکہ غرق نہیں ہوا۔ وجہ یہ ہے کہ اس کے درمیان ایک سمندر ہے اورباقی دنیا کے بدترین پناہ گزین بحران کا شکار ہیں۔ اسی طرح حالیہ برسوں میں امریکہ کو اس طرح کی آمد کا سامنا نہیں کرنا پڑا‘ جس طرح باقی ملکوں نے کیا۔ سیلاب کے باعث کئی پناہ گزین سرحدوں کوعبور کرنے کے بعد محفوظ مقامات کے متلاشی ہوتے ہیں۔ ریاستوں نے انہیں برداشت بھی کیا۔نسبتاًکم تعداد اور امریکہ کی سکیورٹی پالیسیوں کی بدولت‘ مہاجرین خود امریکہ کے اندر کوئی براہ راست خطرہ ثابت نہیں ہوئے ۔
پناہ گزینوں کی بڑی تعداد ٹرمپ کے بیان کی روشنی میں دوبارہ آباد ہو رہی ہے۔ جبکہ گزشتہ دو سالوں میں 70 فیصد سے بھی کم رہی ہے‘لیکن انتظامیہ امریکہ میں آباد کاری کی کامیاب تاریخ کو فراموش کر رہی ہے۔ 1980ء کے بعد سے اب تک امریکہ کی سلامتی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ کسی بھی ممکنہ حفاظتی خطرے کو کم سے کم کرکے‘ مہاجرین کو داخلے کی اجازت سے پہلے ان کا اچھی طرح سے جائزہ لیا جاتا ہے۔ اور تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ مہاجرین معیشت میں بہتری لاتے ہیں اور ٹیکس محصول میں اضافہ کرتے ہیں۔دریں اثناامریکہ میں نائن الیون کے بعد سے ہی دہشت گردی کا سراغ لگا رہا ہے اور تھنک ٹینکس نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جہادی خطرہ غیرملکی نہیں بلکہ ''ایپل پائی کی طرح امریکی ہے‘‘ یعنی‘ زیادہ تر دہشت گردی آبائی آباد ہے۔امریکی تحقیقاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکی سرزمین پر دہشت گردوں کے حملے میں ایک مہاجر کے ہاتھوں کسی امریکی کا قتل ہونے کا امکان کم ہوتا ہے۔1980ء کے بعد سے داخل ہونے والے کسی بھی مہاجرنے دہشت گردی کے حملے میں کسی امریکی کو ہلاک نہیں کیا ہے‘جبکہ سفید فام قوم پرستوں نے انتہا پسندی کے تشدد میں سیکڑوں افراد کو ہلاک کیا ہے۔اس بات سے بھی منہ نہیں موڑا جاسکتاکہ مہاجرین کی جانب سے سکیورٹی خطرات لاحق نہیں ہیں۔ مہاجرین گھریلو عدم تحفظ اور گھریلو جنگوں کو قومی سرحدوں سے آگے بڑھاتے ہیں۔ بڑی تعداد میں لوگوں کے بے گھر ہونے سے باغی‘ اسلحہ‘ منشیات اور بیماریوں کے پھیلاؤ میں آسانی ہوسکتی ہے اور ملک ‘ ہمسایہ معاشروں اور پورے خطے میں عدم استحکام سے متاثر ضرور ہوتا ہے ۔