"OMC" (space) message & send to 7575

رجال الغیب تو استغفار کا کہتے ہیں

یہ معاملہ آج کی روشن خیال دنیا کے دانشوروں کو درپیش نہیں بلکہ یہ توصدیوں سے انسانی ذہن کی کشمکش کا حصہ رہا ہے۔ ہم اسی کو خدا تسلیم کرتے رہے ہیں جو ہمارے ذہن اور حواس خمسہ کی کسوٹی پر پورا اترتا ہے اور ہماری منطق کے مطابق خدا کہلانے کا مستحق ہوتا ہے۔ اوقات ہماری یہ ہے کہ اگر ہم ایک شخص کو آپریشن سے پہلے والا بے ہوشی کا ٹیکا لگائیں تو اُس کے بعد ڈاکٹر گھنٹوں اس کے جسم کی چیر پھاڑ کرتے رہتے ہیں اور اسے محسوس تک نہیں ہوتا۔ پھر اگر اسے ٹھڈے مارتے ہوئے کسی مقام پر لاکر چھوڑ دیا جائے‘ ہزاروں لاکھوں لوگ اسے دیکھ رہے ہوں لیکن کسی کو اس واقعہ کے بارے میں زبان کھولنے کا اذن نہ ہو‘ وہ آدمی ہوش میں آئے، اس کا پورا بدن نیلا ہوچکا ہوتو حقیقت میں یہ سب کچھ وقوع پزیر ہوا ہے، وقوعہ کرنے والے کردار بھی موجود ہیں، لیکن کوئی گواہ ایسا نہیںہے جو زبان کھولنے کی اجازت رکھتا ہو۔ اس کائنات کے قضا وقدر کے نظام میں اللہ نے اپنے ہزاروں بلکہ لاکھوں کارکنان کو متعین کررکھا ہے۔ کوئی ہمارے اعمال کی گواہیاں لکھ رہا ہے تو کوئی ہماری نصرت اور حفاظت کے لیے نازل کیا جاتا ہے: ’’ہر شخص کے آگے اور پیچھے وہ نگران مقرر ہیں جو اللہ کے حکم سے باری باری اس کی حفاظت کرتے ہیں ‘‘ (الرعد11) کیا کسی صاحب عقل ودانش نے ان نگرانوں کو دیکھا ہے؟ اگر یہ دنیا واقعی مکمل طورپر اسباب کی دنیا ہے تو اللہ کو کسی کی حفاظت پر نگران مقرر کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس آیت کا اگلا حصہ وہ ہے جو عقلیت پسند ’’عالمان دین‘‘ سیاق وسباق سے علیحدہ کرکے پڑھتے ہیں: ’’یقین جانو کہ اللہ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے حالات بدلنے کی کوشش نہ کریں۔‘‘ آگے چل کر اللہ اپنے تکوینی نظام کا ایک اور اصول بتاتا ہے۔ یعنی جب لوگ خود اپنی حالت نہ بدلنا چاہیں تو اللہ فرماتا ہے: ’’اور جب اللہ کسی قوم پر کوئی آفت لانے کا ارادہ کرلیتا ہے تو اس کا ٹالنا ممکن نہیں، اور پھر ایسی قوم کا کوئی حامی ومدد گار اور رکھوالا باقی نہیں رہتا۔‘‘ یعنی پھر اللہ اپنے محافظ اٹھا لیتا ہے اور آپ کے پاس دنیوی رکھوالوں کے دعوے باقی رہ جاتے ہیں۔ اللہ کے اٹل فیصلوں کو ٹالنے کی کسی میں جسارت ہے نہ دسترس۔ کیا رجال الغیب انبیاء سے بالاتر ہستیاں ہوتی ہیں؟ ہرگز نہیں۔ اگر اللہ کا عذاب ٹلنا ہوتا تو انبیاء کی دعائیں کافی ہوتیں۔ ہاں‘ اللہ نے ہی اس عذاب کو ٹالنے کا راستہ بتایا ہے اوریہ راستہ حضرت یونسؑ کی قوم نے اختیار کیا تھا۔ عذاب کی بشارت کسی رجال الغیب نے نہیں بلکہ خود اللہ کے پیغمبر حضرت یونسؑ نے اس علم سے دی تھی جسے وحیٔ الٰہی کہتے ہیں۔ فرما دیا تھا کہ تم پر تین دن کے اندر عذاب نازل ہو جائے گا۔ نینویٰ میں بسنے والی اس آشوری قوم نے جب دیکھا کہ حضرت یونس ؑ عذاب کا کہہ کر وہاں سے چلے گئے تو انہیں یقین ہوگیا اور پوری قوم اجتماعی طورپر اللہ کے حضور استغفار اور توبہ کے لیے جھک گئی۔ اللہ اپنے اس استثنائی اصول کو قرآن میں واضح کرتا ہے: ’’بھلا کوئی بستی ایسی کیوں نہ ہوئی کہ ایسے وقت ایمان لے آتی کہ اس کا ایمان انہیں فائدہ پہنچاتا، البتہ صرف قوم یونس کے لوگ ایسے تھے، جب وہ ایمان لائے تو ہم نے دنیا کی زندگی میں رسوائی کا عذاب ٹال دیا اور ان کو ایک مدت تک زندگی کا لطف اٹھانے دیا (یونس 98)۔ ادھر اللہ کے جلیل القدر پیغمبر نے آخری وقت تک نصیحت اور وارننگ کا سلسلہ جاری نہ رکھا اور بستی چھوڑ کر چلے گئے تو اللہ نے ان کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ آخری وقت تک لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے، اس کے راضی ہونے کے آثار بتانے اور اس کی ناراضگی کی علامتیں لوگوں کے سامنے بیان کرنے کا فرض پیغمبر بھی ادا کرتے ہیں اور وہ بھی جنہیں اللہ اپنی کتاب کا علم عطا کرتا ہے، جن کی ریاضتوں کی وجہ سے ان پر کائنات کی حقیقتیں کھول دیتا ہے‘ وہ رجال الغیب ہوتے ہیں۔ وہ جیسے ہی اللہ کی ناراضگی کی علامتیں کسی قوم میں دیکھنا شروع کرتے ہیں تو پریشان ہو جاتے ہیں، دعائوں کے لیے ہاتھ بلند کرتے ہیں، روتے ہیں، گڑگڑاتے ہیں۔ لیکن اللہ نے تو عذاب ٹالنے کے لیے راستہ خودہی بتا دیا اور یہ رجال الغیب پکار پکار کر لوگوں کو اس راستے کی جانب مائل کرتے ہیں، بلاتے ہیں۔ ڈاکٹر مرض کی علامتیں بتاتے ہیں، دوا تجویز کرتے ہیں لیکن اگر مریضوں کی کثیر تعداد اسے کھانے پر تیار نہ ہو تو پھر کون ہے جو انہیں مرنے سے بچا سکے۔ کیا کبھی کسی نے ڈاکٹر سے پوچھا کہ تمہارے پاس علم تھا، تم نے بتا دیا تھا کہ یہ مریض موت کے منہ میں جا رہا ہے تو پھر اسے بچایا کیوں نہیں؟ کیا کبھی رجال الغیب نے دعویٰ کیا کہ ہم مشیت الٰہی کو ٹال سکنے پر قادر ہیں؟ کیا کوئی یہ کہتا ہے کہ ہم اس میں دخل اندازی کر سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ انہیں تو اللہ نے ایک چشم بینا عطا کی ہوئی ہے۔ ان پر اللہ مبشرات سے واضح کرتا ہے کہ وہ خوش ہے یا ناراض۔ میں نے جب مارگلہ کی پہاڑیوں کے بارے میں اور سیلابوں کی آمد کے بارے میں 28 جولائی 2010ء کو کالم لکھا تو اس میں خوابوں کا ذکر کیا تھا کہ اہل نظر ایسے خواب دیکھ رہے ہیں۔ کیا رسول اللہ ﷺ نے نہیں فرمایا کہ ’’میرے بعد نبوت میں مبشرات کے علاوہ کچھ باقی نہیں بچا۔ پوچھا گیا یا رسول اللہ ﷺ مبشرات کیا ہیں۔ فرمایا: ’’اچھے خواب جو انسان دیکھتا ہے یا اسے دکھائے جاتے ہیں۔‘‘ (بخاری)۔ آپ ﷺنے ایک اور جگہ فرمایا: ’’جب قیامت کا زمانہ قریب ہوگا تو مسلمان کے خواب کو بہت کم جھٹلایا جائے گا اور تم سب میں سے زیادہ سچے خواب والا سچی بات کرنے والا ہوگا اور مسلمان کا خواب نبوت کا پینتالیسواں حصہ ہے۔‘‘ (ترمذی) کیا اہل نظر کے وہ خواب سچ ثابت نہ ہوئے؟ کیا اس کے بعد بھی اس قوم نے اللہ کی جانب رجوع کیا؟ نہیں ہرگز نہیں بلکہ ان سب کا تمسخر اڑایا گیا۔ رجال الغیب کو مانو یا نہ مانو‘ اس سے تمہارے ایمان پر کوئی فرق نہیں پڑے گا‘ لیکن اللہ کی نشانیوں سے انکار پر تم ایمان سے خارج ہو جائو گے۔ اللہ نے جو اصول وضع کیے ہیں‘ اپنی ناراضگی کی جو علامات بتائی ہیں‘ بستیوں پر اپنی رحمت کے جو اصول و قواعد بنائے ہیں، اُن سے انکار کرو گے تو پھر اللہ تمہیں تمہارے حال پر چھوڑ دے گا۔ یہ فقط اسباب و علل کی دنیا نہیں ہے۔ اس دنیا کا ایک مالک بھی ہے جو حی و قیوم ہے اور جو خالقِ اسباب ہے۔ جو کہتا ہے: ’’کوئی مصیبت آ نہیں سکتی جب تک میرا اذن نہ ہو۔ (التغابن۔11) لیکن کیا کریں‘ اللہ آپ لوگوں کی عقل اور سائنس میں فٹ ہی نہیں ہوتا۔ یہ دنیا خودکار فیکٹری نہیں جسے چلا کر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس کو چلانے کے لیے اصول بتا دیے گئے ہیں‘ اگر ان اصولوں پر عمل نہیں کرو گے تو پھر اللہ اپنی نگہبانی سے سبکدوش ہو جاتا ہے اور انسانوں کا بنایا ہوا نظام خود اپنے بوجھ تلے دفن ہو جاتا ہے۔ مجھے روشن خیال دانشوروں سے کوئی گلہ نہیں کہ وہ تو اللہ کی ذات کو نہیں مانتے‘ اس کائنات کو ایک خود رفتہ کھیل سمجھتے ہیں۔ میرا گلا تو ان سے ہے جن کو اللہ نے قرآن کا علم عطا کیا‘ جو روز قرآن پڑھتے اور پڑھاتے ہیں۔ان علماء میں شیعہ ہیں، سنی، بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث سب قرآن میں پڑھتے ہیں کہ گروہوں میں تقسیم ہو کر ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنا اللہ کا عذاب ہے۔ ہم سب کی حالت سورہ المنافقون کی آیت نمبر 5 جیسی ہے: ’’جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آئو اپنی غلطیوں کا اقرار کرو تاکہ اللہ کے یہ رسول تمہارے لیے مغفرت طلب کریں تو بے نیازی سے اپنے سر کو ہلاتے ہوئے مغرور انداز میں منہ پھیر کر چل دیتے ہیں۔‘‘ یہ سب علماء قوم کو حضرت یونسؑ کی قوم کی طرح توبہ اور استغفار کی طرف مائل نہیں کرتے بلکہ سب اپنے اپنے مسلک میں قید‘ کوئی دھرنے دیتا ہے، کوئی مارچ کرتا ہے، کوئی جلوس نکالتا ہے۔ یاد رکھو! دھرنوں، مارچوں اور ہڑتالوں سے حکومتیں گرائی جا سکتی ہیں، اللہ کا عذاب نہیں ٹالا جا سکتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں