یہ سب وہ لوگ ہیں جن کی تحریر اور تقریر کے ذریعے میرے جیسے سیدھے سادھے مسلمان تک اللہ کے دین کا علم پہنچا ہے۔ یہ سب کے سب کسی بھی مکتبۂ فکر سے تعلق رکھتے ہوں، انہوں نے نسل در نسل قرآن و حدیث کے احکامات کو عام آدمی تک پہنچایا ہے۔ ان کے آبائو اجداد اور اساتذہ خود بھوکے رہے، کسمپرسی کے عالم میں زندگی گذارتے رہے لیکن چٹائیوں پر بیٹھ کر لوگوں تک اللہ کے احکامات کی تعلیم پہنچاتے رہے۔ جنہیں اللہ نے قلم کی طاقت سے نوازا تھا، انہوں نے تفاسیر سے لے کر دین کی سمجھ بوجھ پر کتابیں لکھ کر قلم سے جہاد کیا۔ان لوگوں کی تاریخ شوقِ شہادت اور طاغوت سے جنگ سے بھی عبارت رہی ہے۔ یہ ان عظیم المرتبت علماء کے وارث ہیں جنہوں نے طاغوت سے کسی طور بھی سمجھوتہ نہ کیا۔1803ء میں جب برصغیر پر ایک مسلمان مغل بادشاہ کی حکومت تھی تو ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس کاسہ لیس حکمران سے ویسا ہی حکمرانی کا اختیار حاصل کرلیا تھا جیسا آج کل امریکہ کا حکم ہمارے حکمرانوں پر چلتا ہے، یعنی، ’’ ملک خدا کا‘ حکومت بادشاہ کی اورحکم کمپنی بہادر کا‘‘۔ یہی وہ لمحہ تھا جب شاہ ولی اللہ کی حمیّت کے وارث شاہ عبدالعزیز نے ہندوستان کو دارالحرب قرار دیا تھا یعنی تخت پر کوئی بھی بیٹھا ہو، جس کا حکم چلتا ہو‘ اُس سے اور تخت پر بیٹھنے والے دونوں سے جہاد فرض ہے۔ اسی اعلان کی کو کھ سے سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل کی جدوجہد کی داستان نے جنم لیا۔ یہی وہ جذبہ تھا جس کے بارے میں موجودہ دور میں برصغیر پر سب سے معتبر مورخ ولیم ڈارلپل نے اپنی کتاب میں لکھا ہے: ’’یہ جھوٹ ہے کہ1857ء میں تمام قوموں نے انگریز کے خلاف جنگ کاآغاز کیا تھا بلکہ یہ صرف مسلمان تھے جو لڑے تھے کیونکہ جہاد کا اعلان جامع مسجد دہلی سے کیا گیا تھا۔ چند ہندو اور سکھ بھی شامل ہوئے لیکن قیادت مسلمانوں کے ہاتھ میں تھی، اسی لیے فتح کے بعد ہزاروں علمائے حق کو پھانسیوں پر لٹکایا گیا تھا‘‘۔ یہ سب لوگ جن علماء کے وارث ہیں وہ 1857ئـ کے بعد بھی مصروفِ جہاد رہے۔ ان پر بے شمار مقدمے قائم ہوئے جن میں انبالہ سازش1864ء، پٹنہ سازش1865ء راجہ محل سازش کیس1870ء مالوہ سازش کیس1870ء اور انبالہ سازش کیس1871ء تاریخ کے روشن باب ہیں۔ قلم سے جہاد کرنے والوں کی تو ایک طویل فہرست ہے اور اس میں ہر مکتبۂ فکر کے لوگ شامل ہیں جنہوں نے اپنی تحریروں سے دین کی شمع روشن رکھی۔ عام لوگ برطانوی حکومت کے رنگ میں رنگے جار ہے تھے اوریہ لوگ اپنا چراغ روشن کیے ہوئے تھے۔ جسٹس منیر جیسے جھوٹے شخص کے بقول مولوی ایک اسلام پر متفق نہیں ہوتے۔( جھوٹا میں نے اس لیے کہا کہ اُس نے اپنی مشہورمنیر رپورٹ میں قائداعظم کو سیکو لر ثابت کرنے کے لیے ان کے رائٹرز کے انٹرویو میں اپنے طرف سے بہت کچھ شامل کیا تھا)۔ ایسا شخص کسی مہذب ملک میں ہوتا تو اُس کی کتابوں کو لائبریروں سے اٹھا کر باہر پھینک دیا جاتا لیکن وہ آج تک ہمارے سیکولر دانشوروں کا ہیرو ہے۔ اس شخص کی جھوٹی تحریروں کے باوجود یہ تاریخ کا انمٹ نقش ہے کہ اس ملک کے تمام فرقوں کے علماء ایسے 22نکات پر متفق ہو گئے تھے جو اس ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کی بنیاد تھے۔ نظریات کی بنیاد پر آج تک ایسا اتفاق سیاسی پارٹیوں کے درمیان کبھی پیدا نہ ہوسکا۔ یہاں تک کہ1973ء کے آئین‘ جسے متفقہ کہا جاتا ہے‘ پر بھی خیر بخش مری جیسے کئی رہنمائوں کے دستخط موجود نہیں تھے۔ بعد میں کی جانے والی ترامیم تو خیر اقتدار کی بندر بانٹ کے لیے ہوئی تھیں۔ اصولوں کو تو پسِ پشت ڈالے ایک زمانہ ہو گیا تھا۔یہ تھا وہ تابناک ماضی جس میں ان لوگوں کی قلم تلوار تھی اور تلوار طاغوت سے لڑنے کے لیے مستعد۔ یہ سمجھوتے کے قائل نہیں تھے کہ اللہ کے دین پر تو سمجھوتہ ان کے نزدیک کفر کی پہلی سیڑھی تھا۔ پھر یہ کچھ سب کیسے بدل گیا۔ انہیں کس کی نظر کھا گئی۔ یا پھر یہ خود ہی اپنے نفس کی خواہشات کے اسیر ہو گئے۔ پچاس کی دہائی کے پہلے سالوں میں امریکی خفیہ دستاویزات میں شامل ایک اہم رپورٹ اس خرابی کی تہہ تک پہنچاتی ہے۔ یہ جس تھنک ٹینک نے مرتب کی تھی اُس کے ارکان نے رنیڈ کاریشن اوربرو کنگز انسٹیٹیوٹ جیسے اداروں کو مستحکم کیا۔ یہ رپورٹ امریکی حکام کو مشورہ دیتی ہے کہ مسلمانوں کی مذہبی قوتوں کو بے اثر کرنا ہے تو انہی جمہوری سیاست میں الجھا دو۔ اسے وہMain stream سیاست کا نام دیتی ہے۔ اس رپورٹ کے بعد وہ لوگ جو اسلام کی اصل روح یعنی انقلاب پر یقین رکھتے تھے انہیں کچلنے کا عمل شروع ہوا اور صرف مصرمیں اخوان المسلمون کے ڈھائی لاکھ لوگ شہید کر دیئے گئے۔ لبیا میں سنوسی اور انڈونیشا میں ماشومی تحریک کا گلا دبایا گیا۔ باقی تمام امت کے مسلمانوں کو خوف کے عالم میں یہ یقین دلایا گیا کہ تبدیلی کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے پُرامن جمہوری جدوجہد۔ منبرومحراب سے لے کر علمی جدوجہد کے نقیب علماء بھی جمہوریت کے پرفریب اور چکا چوند بھنور میں آگرے۔ الیکشن، جلسے، تقریریں ، پوسٹر،تصویریں، تالیوں کی گونج، نعروں کا شور اور ہاتھ ہلا کر نعروں کا جواب دیتے علماء کرام۔ پارلیمنٹ، مباحث، وزارتیں، گاڑیاں اور پھر روزانہ اخبارات سے لے کر ٹیلی ویژن پر جلوہ گری۔ یہ سب اتنا دلکش تھا کہ چٹائیوں پر بیٹھنے والے اور قلم سے ہر فتنے کا جواب دینے والے، آئین اور جمہوریت کی بقا کے لیے، شرابیوں، چوروں، قاتلوں، رسہ گیروں کے ساتھ کبھی اتحاد کی صورت جلوہ گر ہوئے اور کبھی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے نام پر۔ یہ لوگ ا قتدار میں بھی رہے ، جس کی معراج صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت تھی۔ جمہوری طور پر برسر اقتدار آنے والے ان علماء نے قرآنِ پاک میں سود کے بارے میں یہ احکامات بار بار پڑھے اور پڑھائے ہوں گے کہ یہ اللہ اور اُس رسول کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ صوبے کاکون سا ایسا وزیر خزانہ ہے جو سٹیٹ بینک سے سود پر قرض نہیں لیتا، آئی ایم ایف اور ورلڈبینک کے پیسے پر سود نہیں دیتا۔ تمام وزراء اپنے محکموں میں ایسے ہزاروں پراجیکٹ منظور کرتے ہوں گے جن میں ملکی اور غیر ملکی بینکوں پر سود کا قرض شامل ہو تا ہے۔ لیکن ہر کسی کو جمہوریت، اسمبلی کی رکنیت اور وزارت اس قدر عزیز تھی کہ کوئی یہ کہہ کر وزارت چھوڑ کر باہر نہیں آیا کہ یہ سب حرام ہے کہ یہ لوگ خوب جانتے تھے کہ سود لکھنے اور حساب کتاب کرنے والے پر بھی اللہ کی لعنت برستی ہے۔ ان لوگوں نے وہ سارے رنگ ڈھنگ اپنائے جو جمہوری سیاست کا خاصہ ہیں۔ اپنے حلقے کے لیے سکیمیں منظور کرانا، اپنے بندوں کو نظریاتی کارکن کہہ کر نوکریاں دلوانا، بیشک عدل کا تقاضا یہ ہو کہ دوسرے علاقے میں ترقیاتی کام ضروری ہیں لیکن اس عدل کو چھوڑ کر اپنے ووٹوں کی خاطر اپنے علاقے میں کام کروانا ۔ کیا خوبصورت دلیل دی جاتی ہے کہ ہم اگر اسمبلیوں میں نہ ہوتے تو آج اس ملک میں لادینیت قانون ہوتی۔ اگر آپ اسمبلیوں سے باہر ہوتے اور ویسے ہی ہوتے جیسے 1949ء میں 22نکات کے وقت تھے، ایک صالحین کا گروہ، ایک ایسا جتھہ جس کے خوف سے اسمبلی والے کانپتے تھے، جو صرف ایک آواز دیتا تو پورا ملک انگارہ بن جاتاتھا۔ آپ کی اصول پرستی پر اٹھارہ کروڑ عوام کو فخر ہوتا۔ لیکن کیا کریں۔ اقبال کی رباعی یاد آرہی ہے۔ ز مَن بر صُوفی و مُلاّ سلامے کہ پیغامِ خُدا گُفتَند ما را ولے تاویلِ شاں در حیرت اَنداخت خُدا و جبرئیلؑ و مصطفیؐ را میری جانب سے صُوفی ومُلاّ کو سلام پہنچے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے احکامات ہم کو سنائے۔ لیکن انہوں نے اُن احکامات کی جو شرح بیان کی، اُس نے اللہ تعالیٰ، جبرائیل ؑاور محمد مصطفیﷺ کو بھی حیران کر دیا۔