"OMC" (space) message & send to 7575

فلسفہ رہ گیا ،تلقینِ غزالی نہ رہی

جمہوری سیاست کا کمال ہے کہ وہ جن کے اسلاف زندگی بھر رواداری اور اتحاد بین المسلمین کا درس دیتے رہے، جن کی زندگیاں امت میں انتشار کے خاتمے کی جدوجہد میں گزریں، انہی کی مسندوں پر بیٹھنے والے آج صرف اسمبلی کی ایک سیٹ، وزارت کے منصب اور چند سال اقتدار کی خاطر ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھال رہے ہیں۔ گرد آلود اور کِرم خوردہ کتابوں سے حوالے ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایک دوسرے کے آبائو اجداد کو غلط ثابت کیا جا رہا ہے۔ اگر صدیوں پرانا کفر کا کوئی فتویٰ مل جائے، چاہے اُس کی زد میں اُس دور کے لوگ تھے یا وہ خالصتاً علمی مواد کی بنیاد پر دیا گیا تھا، اُسے آج کے پیرو کاروں پر جڑ دیا جاتا ہے اور یہ تک نہیں دیکھا جاتا کہ کئی سو سال پہلے یہ کسی عالم دین کی خطائے اجتہادی یا غلطی تو نہیں تھی ۔ یوں پوری مسلم امہّ پہلے شیعہ، سنی اور خارجیوں میں تقسیم ہوئی اور پھر صدیوں سے حنفی، مالکی، شافعی،حنبلی اور جعفری فقہوں میں تقسیم چلی آ رہی ہے۔ یہ خانے اتنے سخت اور مضبوط کر دیئے گئے ہیں کہ کوئی ایک دوسرے کو برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ کیا ان لوگوں کے اسلاف بھی ایسے ہی تھے؟ کیا ان میں بھی برداشت اور حوصلہ نہیں تھا؟ کیا وہ بھی ایک دوسرے سے اتنی ہی نفرت کرتے تھے اور ان کی تقریریں بھی اسی طرح دوسروں کے بارے میں زہر بھری تھیں؟ حنفی اور شافعی دو ایسے مسالک ہیں کہ ایک زمانے میں پورا بغداد انہی میں تقسیم تھا، لیکن تاریخ ایک ایسا واقعہ بیان کرتی ہے کہ جس میں دوسرے کی شخصیت اور احترام کے لازوال جذبے کی مثال موجود ہے۔ امام شافعی ؒمستقل فجر کی نماز میں دعائے قنوت پڑھتے تھے اور شافعی مسلک کے ماننے والے بھی ایسا کرتے ہیں۔ امام شافعی ؒ ایک دفعہ امام ابوحنیفہ ؒکے مزار سے ملحق مسجد میں نماز پڑھا رہے تھے ،انہوں نے امام ابوحنیفہ ؒکی قبر کا اسقدر احترام کیا کہ فجر میں دعائے قنوت ترک کر دی۔ اسی طرح ایک دفعہ ابو عاصم حنفی جو فقہ حنفیہ کے بہت بڑے عالم تھے ،شافعی مسلک کے بہت بڑے عالم القضال شافعی کی مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے داخل ہوئے۔ ابھی اذان نہیں ہوئی تھی۔ شافعی اذان میں ترجیع یعنی دہرانے کے قائل نہیں۔ القضال شافعی نے کہا کہ اذان ترجیع کے ساتھ دی جائے۔ اس کے بعد انہوں نے امامت کے لیے ابو عاصم حنفی کو مصلّے پر کھڑا کر دیا۔ احترام کا کمال دیکھیے کہ آپ نے نماز رفع یدین کے ساتھ پڑھائی جس کے حنفی کسی طور پر قائل ہی نہیں ہیں۔ ملتِ اسلامیہ کے ایک بطل جلیل امام احمد بن حنبل وہ شخصیت ہیں جنہوں نے خلق قرآن کے مسئلہ پر معتزلہ، جہمیہ اور مُرجیۂ گروہوں کے سامنے کلمۂ حق بلند کیا۔ عباسی خلیفہ خلق ِ قرآن کا قائل تھا۔ آپ پر شدید تشدد کیا گیا۔ اتنے کوڑے برسائے جاتے کہ آپ لہولہان ہو جاتے۔ تشدد کا یہ عالم ان لمحوں میں بھی ہوتا جب وہ روزے سے ہوتے۔ کئی بار ان کو جیل میں ڈالا گیا ، بازار میں زنجیروں میں باندھ کر گھسیٹا گیا۔ اس سب کے باوجود وہ معتزلہ ،جہمیہ اور مُرجیۂ کے اماموں کے پیچھے نماز پڑھ لیتے بلکہ کمال کی بات یہ ہے کہ اگر ان لوگوں میں کوئی شخص انتقال کر جاتا تو اُس کے لیے بخشش اور مغفرت کی دعا بھی کرواتے۔ یہ تو وہ لوگ ہیں جو فقہی اختلاف کے زمانے کے لوگ ہیں۔ اوائل دور کے مسلمان جن کے زمانے میں خارجیوں کے ساتھ اختلاف اس قدر بڑھ گیا تھا کہ سیّدنا علیؓ کی شہادت کا سانحہ بھی ہوا اور مسلسل جنگیں بھی چلتی رہیں۔ عبداللہ ابنِ زبیر ؓ کے ساتھ بھی ان کی جنگیں رہیں۔ اس دور کے دو صحابہ حضرت عبداللہ ابنِ عمرؓ اور عبداللہ ابن زبیرؓ خارجی نظریہ رکھنے والے امام کے پیچھے نماز پڑھ لیتے تھے۔ کسی نے ابن زبیر ؓسے سوال کیا کہ آپ تو ان کے مسلک کو غلط کہتے ہیںپھر ان کے پیچھے نماز کیوں پڑھتے ہیں تو آپ نے فرمایا جو بھی نماز کے بلانے کے لیے ’حی علی الصلوٰۃ ‘پکارے گا، میں اُس کی آواز پر لبیک کہوں گا۔ امام ابویوسف ؒوہ ہیں جنہوں نے فقہ حنفیہ کو مرتب کیا اور اسے تمام علاقوں میں نافذ بھی کروایا۔ ان کی کتاب جس میں اسلامی معیشت کے اصول مرتب ہوئے ہیں اسے کتاب الخراج کہا جاتا ہے اور یہ فقہ حنفیہ کی اوّلین کتابوں میں سے ایک ہے۔ اگر کپڑے خون آلودہوں تو حنفی نماز کے قائل نہیں جبکہ امام مالک ؒاسے جائز قرار دیتے ہیں۔ ایک دفعہ خلیفہ ہارون الرشید نے ایسی حالت میں نماز پڑھائی کہ اُس نے پچھ لگوائے ہوئے تھے اور خون جاری تھا۔ امام ابو یوسف ؒنے اسی حالت میں ہارون الرشید کے پیچھے نماز پڑھ لی کہ امت میں اختلاف پیدا نہ ہو۔ لوگوں نے امام ابویوسف ؒسے سوال کیا کہ ایسا کیوں کیا تو آپ نے فرمایا کہ ہمارے مسلک کے بارے میں کوئی وحی تو نازل نہیں ہوئی کہ یہ درست ہے۔ اس کے باوجود کہ امت میں اختلاف موجود رہا مگر برداشت قائم رہی۔ علماء ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے لیکن ان کے مقلدین ایک دوسرے کو مرنے مارنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ 450ہجری میں مشہد کے نواحی شہر طوس میں ایک ایسی شخصیت نے جنم لیا جنہیں اس امت میں اصلاح کا کام کرنا تھا۔ طوس وہ جگہ ہے جہاں سے بڑے بڑے نابغہ روزگار افراد نے جنم لیا۔ لیکن امام غزالی ؒکی شخصیت ان سب سے جدا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پوری مسلم امہ پر سیکولر فلسفے کا اثرو نفوذ گہرا ہوتا جارہا تھا۔ یونان سے متاثر علماء نے اس الحاد میں پورا حصہ ڈالا لیکن امام غزالی ؒکی کتاب تہا فتہ الفلاسفہ نے آنے والے زمانوں کے لیے فلسفہ کے باب میں الحاد کا دروازہ بند کر دیا۔ اگر انہوں نے فلسفہ میں الہٰیات کا باب تحریر نہ کیا ہوتا تو ہم آج یقین و بے یقینی کے اندھیروں میں الجھے ہوتے۔ احیاء العلوم وہ کتاب ہے جس نے نہ صرف اپنے دور کے مسلمانوں کو متاثر کیا بلکہ یورپ میں علوم کی نشأۃِ ثانیہ کی جو تحریک چلی ،جس نے علم کی دیوانگی پیدا کی ،اُس کا نام ہی احیاء العلوم رکھا گیا۔ لیکن امام غزالی ؒکا سب سے بڑا کارنامہ ان کی کتاب ’’ التفرقہ بین الاسلام والزند قہ‘‘ ہے ۔اس کتاب میں انہوں نے مناظرہ کرنے کے شوقین علماء اورواعظین ،متکلمین اور فقہ کی باریکیوں میں اُلجھے ہوئے لوگوں کا تفصیلی جائزہ لیا۔ انہوں نے ایک ایک فقہ کے فروعی معاملات کا جائزہ لیا اور پھر اس کی جڑ تک پہنچے۔ ان کے نزدیک ان تمام علماء کی اخلاقی خرابی اور تفرقہ کی بنیاد مناظرہ اور مجادلہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آخری عمر میں جب دوبارہ بغداد بلایا گیا تو انہوں نے اس لئے انکار کردیاکہ وہاں مناظرے کے بغیر رہنا ممکن نہیںتھا۔ انہوں نے مناظرہ کرنے والے علما ء میں جو عیب گنوائے جو مناظرے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں، وہی ہمارے ہاں فرقہ پرستی کی بنیاد ہیں۔ تفاخر، حسد، رشک، ضد ، جاہ پرستی، حبّ مال ، فضول گوئی اور دل کی سختی، یہ سب اسی بحث و مباحثہ سے پیدا ہوتا ہے ۔ لیکن امام غزالی ؒکی اس کتاب کا اثر یہ ہوا کہ502ہجری میں بغداد کے شہر میں سنیوں اور شیعوں میں صلح ہوئی ورنہ ہر محلہ جنگ وجدل میں ڈوبا ہوا تھا۔ ہم آج اسی طرح کے بغداد میں زندہ ہیں لیکن ہم میں کوئی غزالی موجود ہے اور نہ اس کی کتاب کو پکڑ کر منبر ومحراب پر کھڑے ہوکر کوئی وحدت کا درس دینے والا۔ اب تو جلسے ہیں، جلوس ہیں، تقریریںہیں، ایک دوسرے پر حملے ہیں۔ ایک جمہوری کلچر ہے جس کی کوکھ سے مناظرہ جنم لیتا ہے۔پھر اسی طرح تفاخر، حسد، رشک ، ضد، جاہ پرستی حب ِ مال، فضول گوئی اور دل کی سختی پیدا ہوتی ہے۔ آپ کسی بھی مذہبی جماعت کی الیکشن مہم دیکھ لیں ،آپ کو یہ سب وافر مقدار میں مل جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں