گزشتہ دس سال اس دنیا نے جمہوری نظام کے قیام اور اس کے تسلسل کی جو قیمت چکائی ہے، جس قدر قتل وغارت دیکھا ہے، اس کی تعداد دوعالمگیر جنگوں اوربادشاہوں کی ملک گیری کی ہوس میں مارے جانے والے افراد سے کسی صورت کم نہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ اس دنیا پر قابض جمہوری مافیا نے انسانوں کا خون چوسنے والے سرمایہ دارانہ کارپوریٹ کے ساتھ اتحاد سے پوری ایک صدی میں صرف ایک ٹیکنالوجی میں کمال ترقی کی جسے جنگی مہارت کا نام دیا جاتا ہے۔ کاغذ کے نوٹوں سے پیدا شدہ مصنوعی دولت کے بل بوتے پر دنیا بھر کے وسائل لوٹے گئے اور ٹینکوں ، توپوں، میزائلوں، لڑاکاطیاروں، بحری بیڑوں اور ڈرونز کے انبار لگالیے گئے۔ یہی وہ مصنوعی طورپر پیدا شدہ سرمایہ تھا جس سے دنیا بھر کا خام مال مغرب میں پہنچا اور ساتھ ہی افریقہ کے ساحلوں سے جانوروں کی طرح غلام بھر بھر کر لائے گئے اور فیکٹریاںآباد کی گئیں، سڑکیں اور پل بنوائے گئے اور کھیتوں کو سرسبز کروایا گیا۔ کبھی دنیا بھر سے پڑھے لکھے اور قابل افراد کو دولت کے لالچ میں خرید کر اپنے ہاں آباد کر لیا گیا۔ دنیا بھر سے جتنے ڈاکٹر اس وقت امریکہ جاکر آباد ہوئے ہیں اور وہاں کے لوگوں کا علاج کررہے ہیں اگر امریکہ ان کی تعلیم اپنے ریاستی خرچ پر کرتا تو اس کی لاگت اس امداد سے تین گنازیادہ ہوتی جو وہ ابھی تک پوری دنیا کے غریب ملکوں کو دے چکا ہے۔ یہ سب صرف اس لیے ممکن ہوا کہ سب سے پہلے مغرب نے ایک عظیم فوجی طاقت بنائی اور پھر دنیا پر چڑھ دوڑا۔ آئزک نیوٹن جسے دنیا ایک سائنس دان کے طورپر جانتی ہے اور اس کا بہت احترام کرتی ہے، لیکن اس کی مکاری اور عیاری سے اس دنیا میں جو توازن بگڑا اُس کی وجہ سے آج تک انسان جوظلم سہہ رہا ہے وہ انتہائی خوفناک ہے۔ برطانیہ کے ایک سرمایہ دار چارلس‘ ارل آف ہیلی فیکس سے نیوٹن کی دوستی 1679ء میں شروع ہوئی۔ نیوٹن ایک غریب آدمی تھا لیکن تھا ذہین۔ چارلس نے اس کے تعلیمی اخراجات اٹھائے اور اسے اپنے ساتھ ساتھ اعلیٰ حکومتی حلقوں میں لے کر گھومنے لگا ۔ میں یہاں موضوع کو رنگین کرنے کے لیے نیوٹن کی بھانجی کیتھرین بارٹون اور چارلس کے تعلقات کا ذکر نہیں کرنا چاہتا جس سے اس زمانے کا محدود میڈیا روزلطف اندوز ہوتا تھا۔ لیکن اس سارے فسانے میں اہم ترین بات یہ ہے کہ چارلس نے نیوٹن کو سکے ڈھالنے والے ٹیکسال کا انچارج (Master of the Mint)لگوایا۔ دوسری جانب چارلس‘ ارل آف ہیلی فیکس نے 1694ء میں بینک آف انگلینڈ کی بنیاد رکھ دی۔ بینک آف انگلینڈ کا چارٹر بھی انگلستان کے یہودیوں نے حکومت برطانیہ کو مقروض کرکے حاصل کیا تھا۔ اس میں سب سے زیادہ قرضہ چارلس‘ ارل آف ہیلی فیکس نے دیا تھا ۔ نیوٹن سائنس دان تھا، اسے علم تھا کہ قدرت نے اس دنیا میں سرمائے کے توازن کے لیے سونے اور چاندی کے درمیان ایک اور بیس کی شرح رکھی ہوئی ہے اور پوری دنیا کے ٹیکسال اسی شرح سے سکے ڈھالتے ہیں۔ 1717ء میں اس نے یہ شرح تبدیل کرکے ایک اور پندرہ کردی۔ یہ آغاز تھا سونے کے سکوں کی قدر کم کر کے اور اسے مارکیٹ سے غائب کرکے کاغذ کے نوٹوں کو متبادل بنانے کا۔ پہلے چاندی نے اہمیت اختیار کی اور پھر اس سارے سرمایہ دارانہ جمہوری مافیا نے دنیا بھر کے وسائل کو لوٹ کر اپنے پاس جمع کرلیا۔ اس شرح سے پہلے سونا سستا کیا گیا اور پھر دنیا بھر سے سونے کو خریدا گیا۔ آپ حیران ہوں گے ایسٹ انڈیا کمپنی جب لوگوں سے ٹیکس وصول کرتی تو سونے کے سکوں میں کرتی اور چاندی کے سکے ناقابل قبول ہوتے۔ یوں یہ عالمی مافیا دنیا بھر سے وسائل اور سونا اکٹھا کرتا رہا، لیکن اس ساری لوٹ مار کی بنیاد وہ فوجی طاقت تھی جو اس نے منظم کی تھی۔ جب اس دولت اور لوٹ مار کی بدولت خوشحالی نے مغرب کے دروازے پر دستک دی تو پھر اس کے تحفظ کے لیے ایک مضبوط جمہوری نظام قائم کیا گیا تاکہ لوگوں کو یہ یقین دلایا جاسکے کہ یہ تمہاری حکومت ہے، یہ تمہاری دولت ہے اور اس کا تحفظ تم پر فرض ہے ۔ بھولے بھالے عوام کو کیا خبر کہ پارلیمنٹ میں بیٹھے ارکان وہ کٹھ پتلیاں ہیں جنہیں ان مکاری سے امیر ہونے والوں نے پارٹی فنڈ کے نام پر خریدا ہوا ہے۔ آج بھی اگر سرمایہ دار اربوں ڈالر ، پونڈ یا یورو پارٹی فنڈ میں نہ دیں تو کوئی الیکشن نہ جیت سکے۔ سرمائے کے بل بوتے پر جہاں انہوں نے حکمرانوں کو خریدا ، وہاں کیمونزم کے خوف اور مزدوروں کے غصے سے بچنے کے لیے لولی پاپ کی طرح شہری سہولیات اور تھوڑی بہت سوشل سکیورٹی میں اضافہ کیا، ورنہ آلیورٹوسٹ کا ناول جس زمانے میں لکھا گیا اس وقت کا انگلستان دنیا کا سب سے بڑا چائلڈ لیبر کا مرکز تھا‘ جہاں روزانہ معصوم بچے مشینوں کے پٹوں میں آکر یا گرم گرم چمنیاں صاف کرتے ہوئے موت کی آغوش میں چلے جاتے تھے۔ جمہوریت بھی تھی، پارلیمنٹ بھی تھی لیکن کوئی ایک آواز اس کے خلاف نہ اٹھ سکی ۔ یہ تو بھلا ہو مزدوروں کی سوشلسٹ تحریک کا جس نے خوفزدہ کرکے تھوڑا بہت ان سے چھین لیا۔ سود ، سرمایہ، فوجی قوت اور جمہوریت کا یہ گٹھ جوڑ اب عوام کو مکمل طورپر بے وقوف بنانے کے لیے تیار تھا ۔ اس کا بہترین راستہ میڈیا تھا۔ پہلے اخبارات اور نیوز ایجنسیاں بنیں اور پھر میڈیا ہائوسز… اور آج یہ سب کے سب اسی مافیا کے کنٹرول میں ہیں۔ ان پر اشتہارات کی صورت میں نوٹوں کی بارش کی جاتی ہے جس کے بدلے میڈیا وہی راگ الاپتا ہے جو وہ چاہتے ہیں۔ دنیا کو پہلے لوٹا گیا پھر فوجی طاقت بنائی گئی، پھر کاغذ کے نوٹ عام کیے گئے اور پھر ان کاغذ کے ٹکڑوں کے بدلے جہاں سے چاہا تیل، گندم، کپاس، سونا، ہیرے اور قیمتی دھاتیں سب خرید لیا گیا ۔ آج بھی یہ لوٹ مار جاری ہے اور اس کا تحفظ ان کے پیسے پر پلنے والی کانگریس، پارلیمنٹ ، اسمبلیاں اور میڈیا کرتا ہے۔ کیا خوبصورت نظام ہے… دنیا کو آزادی، انسانی حقوق اور عوام کی بادشاہت کے خواب میں الجھا کر لوٹ مار جاری رکھو اور جو ملک اس کو نہ مانے اس کا وہ حشر کرو کہ دنیا کانپ اٹھے۔ یہی وہ گورکھ دھندا ہے جس کی وجہ سے گزشتہ دس سال کے دوران اس دنیا نے جمہوری نظام کے قیام اور اس کے تسلسل کے لیے بیس لاکھ سے زیادہ انسانوں کی لاشیں اٹھائی ہیں۔ ان لوگوں نے شور مچایا کہ افغانستان اور عراق میں آمریت ہے، یہ غدار کہاں سے آگئے ۔ پوری دنیا نے مل کر ان ممالک پر حملہ کیا، ہرملک میں دس لاکھ سے زیادہ انسانوں کو قتل کیا، ایک آئین تحریر کیا، الیکشن کروایا اور کہا: جاہل، گنوار اور اجڈ لوگو! ایسے زندگی گزارو ورنہ جینے نہیں دیں گے۔ میرے ملک میں پانچ سال لوٹ مار ہوتی رہی، قتل وغارت ہوا، انسانوں کی زندگی دائو پر لگ گئی، لوگ بھوک سے خودکشیاں کرنے لگے‘ لیکن خبردار ! خاموش رہو کہ جمہوریت کا تسلسل جاری رہنا چاہیے۔ اس نظام کو ہاتھ مت لگانا ورنہ ملک ٹوٹ جائے گا۔ یہ ملک کون توڑے گا؟ وہ مغربی ممالک جن کے شہروں میں اس ملک کو توڑنے کا نعرہ لگانے والے عیش وعشرت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ جن کے سرمائے سے وہ اسلحہ خریدتے ہیں۔ خوف بھی خود پیدا کیا ، اپنے خریدے ایجنٹوں کے ذریعے کیا اور بچت کا راستہ بھی خود دکھاتے ہیں کہ جمہوریت کے تسلسل میں ہی تمہاری بچت ہے۔ یہی وجہ ہے ،ہرکوئی یہ کہتا پھرتا ہے الیکشن تو عراق اور افغانستان میں بھی ہوگئے تھے، پاکستان میں کونسی مشکل ہے۔ عراق اور افغانستان میں الیکشن قابض فوجوں نے کروائے تھے، وہاں کے عوام نے نہیں۔ عوام کے بس میں ہوتا تو وہ ان لوگوں کی بوٹیاں نوچ لیتے جنہوں نے انہیں قتل ، بربریت ، بھوک اور افلاس کے ساتھ جمہوریت بھی تحفے میں دی۔