امام رازی جب سورہ ’’والعصر‘‘ کی تفسیر لکھنے بیٹھے تو پہلی آیت پر ہی حیرت میں ڈوب گئے۔ قرآن‘ کلام الٰہی ہے نہ اس کا ترجمہ ممکن اور نہ ہی اس کی تفسیر کا حق ادا ہوسکتا ہے ۔ کلام الٰہی کا جاہ و جلال، اس کے معانی ومطالب ، اس کا اسلوب کسی اور زبان یاقالب میں اگر ڈھالنے کی کوشش بھی ہو تو وہ ایک محدود فکر اور سوچ رکھنے والے انسان کی ایک کاوش ہوگی۔ اسی لیے قرآن کے کلام کی عظمت اور کیفیت انسان پر اسی وقت طاری ہوتی ہے جب اسے اس طرح پڑھا جائے کہ یہ اس پر نازل ہورہا ہے۔ یہ راستہ اقبال کو ان کے مردحق پرست والد نے بتلایا تھا جسے انہوں نے اپنے اس شعر میں بھی رقم کیا ہے: ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب گرہ کشا ہے رازی نہ صاحب کشاف یہ وہی رازی ہیں کہ عظیم صاحب علم ہونے کے باوجود بھی جب اس آیت پر پہنچے کہ ’’قسم ہے زمانے کی، بے شک انسان خسارے میں ہے تو ذہن تھم سا گیا۔ کچھ سمجھ نہ آتا تھا خسارے کی کیا وضاحت کریں۔ پہلے مفسرین قرآن کی لکھی تحریروں کو پڑھتے گئے اور پھر اس قول نے تو انہیں اور بھی حیران کردیا کہ اگر صرف سورہ ’’والعصر‘‘ ہی نازل ہوتی تو وہ پورے قرآن کے مطالب واضح کرنے کے لیے کافی ہوتی۔ بارگاہ الٰہی میں دعائوں ، التجائوں اور منت زاریوں سے مطلب سمجھانے اور الجھن دور کرنے کی درخواست کرنے لگے۔ کہتے ہیں کہ یقین تھا کہ اللہ اس آیت کے مطالب واضح کردے گا ۔ ایک دن بازار سے گزر ہوا، راستے میں ایک شخص برف بیچ رہا تھا اور صدالگا رہا تھا’’ترس کھائو اس شخص پر جس کا اثاثہ اس کے ہاتھوں میں پگھلا جارہا ہے ‘‘ ۔ فرماتے ہیں یوں لگا جیسے مجھ پر مطلب واضح کردیاگیا ہو۔ ہم سب خسارے میں ہیں اور ہمارا اثاثہ جس پر ہمیں بہت ناز ہے، ہمارے ہاتھوں میں پھسلا چلا جارہا ہے۔ ہم ہر روز زندگی میں کامیابی کی سیڑھیاں چڑھتے بلند ہورہے ہوتے ہیںحالانکہ ہمیں خبر تک نہیں ہوتی کہ ہمارے پائوں کے نیچے سے ایک سیڑھی ہرلمحے پھسلتی چلی جارہی ہے اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔ ایک دن ایسا آتا ہے کہ وہ بلندی ، وہ سرفرازی جسے ہم اپنی منزل تصور کررہے ہوتے ہیں ، ہم اس سے یک دم دھڑام سے گرتے اور بے مایہ ہوجاتے ہیںجس طرح برف پگھلتی ہے تو اس کا نشان تک باقی نہیں رہتا‘ تھوڑی دیر میں دھوپ زمین پر پھیلے پانی کو بھی اڑا لے جاتی ہے، اسی طرح وقت کی دھوپ ہماری کامیابیوں کے نشان تک چاٹ جاتی ہے۔ اس سب کے باوجود ہم کس قدر معاملہ فہم بنتے ہیں، ہمیں اپنی منصوبہ بندیوں پر کتنا ناز ہوتا ہے۔ ہم زمین پر کیسے گردن تانے ، سراٹھائے اکڑ اکڑ کر چلتے ہیں۔ لیکن اگر ذرا سی مصیبت آجائے، پریشانی کا سامنا ہوتو دنیا جہاں کی تدبیریں کرتے ہیں مگر پھر بھی ہمیں اطمینان نہیں ہوپاتا۔ مجبوراً ایک روز اللہ کے سامنے دست دعا بلند کردیتے ہیں، صدقہ خیرات کرنے لگتے ہیں کہ کوئی ہمیں خوش ہوکر دعا دے، کسی نیک انسان سے التجا کرتے ہیں کہ ان کے حق میں دعا کرے۔ اپنی گزشتہ زندگی پر نظر دوڑاتے ہیں، اپنی کوتاہیوں اور بداعمالیوں پر نظر پڑتی ہے تو سوچنے لگتے ہیں کہ شاید یہی ہماری شامت اعمال کی وجہ ہے، فوراً اللہ سے معافی اور استغفار کے طلب گار ہوتے ہیں۔ ہم یہ سب کچھ اس لیے کرتے ہیں کہ ہم معاشی اور معاشرتی سطح پر جس بلندی کو چھونا چاہتے ہیں اس کے راستے رک گئے ہوتے ہیں ۔ ہم سیڑھی سے نیچے آچکے ہوتے ہیں، ہمیں اس بات کا احساس تک نہیں ہوتا کہ ہرلمحہ ہمارے پائوں کے نیچے سے ایک سیڑھی پھسلتی چلی جارہی ہے۔ ہم خسارے میں ہیں۔ قوموں کا خسارہ بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ صدیوں محنت کرکے ایک قوم عروج کے آخری درجے پر جاپہنچتی ہے، اس ترقی کو سب کچھ تصور کرنے لگتی ہے، سینہ تان کر ، گردن اکڑاکر ، اتراتے ہوئے چلنے لگتی ہے اور پھر یکدم اس کے نیچے سے مستقل پھسلتی سیڑھیاں خاموشی سے اسے نشان عبرت بنادیتی ہیں۔ یہ تو ابھی کل کا قصہ ہے، آدھی دنیا پر راج کرنے والی روسی قوم جس طرح گرجاکرتی تھی ، للکاراکرتی تھی، جب روبہ زوال ہوئی تو اس کی خوبصورت عورتیں ڈبل روٹی کے ٹکڑوں کے عوض عصمت کے سودے کرتی نظر آئیں۔ دنیا مقام عبرت ہے لیکن عبرت اسی کو حاصل ہوتی ہے جواللہ سے عبرت کا طلبگار ہواور اس عبرت کا ایک ہی راستہ ہے کہ اس کی بارگاہ میں اپنی کوتاہیوں، بداعمالیوں اور گناہوں کی معافی طلب کی جائے، اس سے رحم کی درخواست کی جائے، اس کے غضب سے پناہ مانگی جائے۔اس کی زمین پر کھڑے ہوکر بڑے بڑے دعوے نہ کیے جائیں۔ ایسا سب کچھ ہم اپنی ذاتی زندگی میں اکثر کرتے ہیں، بیمار اولاد کی زندگی کی بھیک مانگتے ہوئے، امتحان میں کامیابی کے لیے، کاروبار میں نقصان سے بچنے کے لیے، لیکن ہم بحیثیت قوم یہ سب کرنے سے نہ جانے کیوں ہچکچاتے ہیں، شاید ہم یہ تصور کرلیتے ہیں کہ میں بچ گیا، میرا کاروبار سلامت رہا تو ٹھیک ،باقیوں سے مجھے کیا غرض ۔ لیکن اس کائنات میں ایک رشتہ ایسا ہے کہ جس کا آپ کے نفع ونقصان میں کوئی حصہ ہو یا نہ ہو وہ آپ کے لیے دعائیں کرتے ہیں، آپ کی جانب سے اللہ سے معافی کے طلب گار ہوتے ہیں ،یہ رشتہ ہے والدین کا۔ قوموں کے حوالے سے، انسانوں کی اجتماعی زندگی کے حوالے سے بھی اللہ کے کچھ نیک بندے ایسے ہوتے ہیں جو ہرلمحہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ہوتے ہیں، رورو کر التجائیں کرتے ہیں، گڑگڑا کر استغفار کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ لوگ حضرت ابراہیم ؑکی شخصیت کا پرتو ہوتے ہیں ،یعنی انتہائی نرم دل ،شفیق اورمہربان ۔ اللہ ان کی دعائوں کی وجہ سے بندوں پر رحم کرتا ہے، عذاب ٹالتا ہے، بارشیں برساتا ہے۔ یہ لوگوں کو بار بار اللہ کی ناراضگی کے بارے میں بتاتے ہیں، انہیں اللہ سے معافی مانگنے کی ترغیب دیتے ہیں کہ اللہ کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کا اس سے بہتر اور کوئی نسخہ نہیں۔ ایسے ہی ایک صاحب حال ، مردحق پرست کہ جن کا میں ذکرکرتا رہتا ہوں، دعوے سے پاک، نام ونمود کی خواہش سے مبرا، مدتوں دست بدعا تھے کہ اللہ ہم پر مہربان ہوجائے، روٹھے رب کو منانے میں لگے تھے کہ اس کے غیظ وغضب کی یہ قوم متحمل نہیں ہوسکتی۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ وہ انتہائی اضطراب میں مجھ سے رابطہ کریں۔ تین دن قبل رابطہ کیا اور حکم دیا کہ مسلسل استغفار کرو اور سب جاننے والوں سے ایسا کرنے کا کہو۔ شاید اللہ کو رحم آجائے، ایسا ہو بھی سکتا ہے۔ اگر خوشخبری ہوئی تو لاہور آکر دو تو لے مٹھائی کھلائوں گا۔ یہ ان کا خاص تکیہ کلام ہے۔ گزشتہ سات سالوں میں یہ پہلا ٹھنڈی ہوا کا جھونکا تھا۔ میں جوآنے والے دنوں کے خوف سے کانپ رہا تھا، ایک امید سے بندھ گیا ہوں۔ شاید اللہ کو ہم پر ترس آجائے ، شاید یہ قوم کوئی ایسے فیصلہ کردے کہ جس میں میرے اللہ کی وہ شرط پوری ہوجائے کہ وہ کسی قوم کی حالت اسی وقت بدلتا ہے جب وہ اس کی خواہش کرنے لگتی ہے۔ لگتا ہے کہ دعائوں کی قبولیت ہونے والی ہے، شاید اس لیے کہ ہم عذاب کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ ایسا ہوا تو سب کچھ بدل جائے گا۔ نہ تماشہ رہے گا نہ کھلاڑی‘ نیا موسم اور نئے لوگ۔ استغفار کرتے رہیے۔ مستقل استغفار ، جس کو جتنی توفیق ملے۔ شاید ہمیں ان سب سے نجات مل جائے جنہوں نے ہماری زندگیاں اجیرن کیں، شاید اللہ کو ہم پر ترس آجائے۔ نوٹ:الیکشن کا دن ہے۔ نتیجہ کیا ہو ،یہ اللہ کو خبر ہے لیکن میں عمران خان کو وہ وعدہ یاددلانا چاہتا ہوں جو اس نے ساری زندگی سود کے خلاف جہاد کرنے والے عبدالودود خان سے کیا تھا۔ مرحوم چند دن پہلے اپنا سودکے خلاف متبادل نظام لے کر اس کے پاس گئے تو عمران نے کہا اگر اللہ نے مجھے اقتدار بخشا تو میں سودکا خاتمہ کردوں گا ۔