صبح ہی سے اس عمارت کے ارد گرد گہما گہمی تھی جس کی پیشانی پر کلمۂ طیّبہ تحریر ہے۔ خوبصورت ملبوسات اور خوشبوئوں سے معطر افراد ایسی شاندار گاڑیوں سے برآمد ہو رہے تھے جن کو ہاتھ لگا کر دیکھنا بھی اٹھارہ کروڑ عوام کے لیے ایک خواب ہے۔ کیمروں کی بہار اور سکیورٹی عملے کی یلغار کے درمیان بے اعتنائی کے تکبّر میں اکڑے ہوئے وجود ایک ایسی عمارت میں داخل ہو رہے تھے جس کی پیشانی پر یہ الفاظ تحریر ہیں کہ اس کائنات کا کوئی حاکم‘ فرمانروا‘ بادشاہ یا حکمران نہیں ہے سوائے اللہ کے۔ تین سو سے زائد زمینی خدا عوام کی حاکمیت‘ عوام کی فرمانروائی اور عوام کی بادشاہت کی تختیاں گلے میں لٹکائے اُس ہال میں جا پہنچے جہاں گرمی برساتے سورج کی تمازت کا کوئی اثر نہیں ہوتا جو ایسے گرم موسم میں دھان کی فصل لگانے والے کسان‘ ریڑھی بان‘ رکشہ ڈرائیور یا بجری کوٹنے والے مزدور کے سر پر عذاب کے تازیانے برسا رہی ہوتی ہے۔ قالین ایسے جن میں پائوں دھنس جائیں اور کرسیاں ایسی کہ نیند کے جھونکے آنے لگیں۔ آج یہ لوگ اللہ کو حاضر ناظر جان کر‘ اسے گواہ بنا کر ایک حلف اٹھانے جا رہے تھے۔ ایک عہد کرنے یہاں جمع ہوئے تھے۔ جس اللہ کو اس حلف کا گواہ بنایا جا رہا تھا اسی اللہ کی سنت ہے کہ وہ امتحان گاہ میں اتارنے سے قبل اصول و قواعد ضرور بتا دیتا ہے۔ یوں تو یہ تمام اصول و قواعد اس نے چودہ سو سال قبل اپنی کتابِ مبین میں درج کر دیئے ہیں‘ لیکن کھیل شروع ہونے سے پہلے عموماً قواعد دہرا دیئے جاتے ہیں تاکہ کوئی کھلاڑی لاعلمی کا بہانہ نہ کر سکے۔ یہ میرے اللہ کی قدرتِ کاملہ کا اظہار تھا کہ جب دو جون کی صبح تلاوتِ قرآن حکیم کے اعلان کے بعد ہال میں سناٹا چھایا تو تلاوت کرنے والے قاری کی نگہ انتخاب سورہ النحل کی ان آیات پر جا نکلی۔ ترجمہ بھی سنا دیا گیا کہ کوئی یہ بہانہ نہ کر سکے کہ اسے عربی زبان سے شدھ بدھ ہی نہیں تھی۔ اسمبلی کے ایوان میں گونجنے والی سورہ النحل کی 91,90 اور 92 نمبر آیات یہ تھیں ’’اللہ عدل اور احسان اور صلۂ رحمی کا حکم دیتا ہے اور بدی و بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے۔ وہ نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق لو۔ اللہ کے عہد کو پورا کرو اگر تم نے اس سے کوئی عہد باندھا ہو۔ اور اپنی قسمیں پختہ کرنے کے بعد توڑ نہ ڈالو‘ جب کہ تم اللہ کو اپنے اوپر گواہ بنا چکے ہو۔ اللہ تمہارے سب افعال سے با خبر ہے۔ دیکھو تمہاری حالت اس عورت کی سی نہ ہو جائے جس نے آپ ہی اپنی محنت سے سوت کاتا اور آپ ہی اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے۔ تم اپنی قسموں کو آپس کے معاملات میں مکر و فریب کا ہتھیار بناتے ہو‘ تاکہ ایک قوم دوسری قوم سے بڑھ کر فائدہ حاصل کرے‘ حالانکہ اللہ اس عہد و پیمان کے ذریعے سے تم کو آزمائش میں ڈالتا ہے اور ضرور وہ قیامت کے روز تمہارے تمام اختلافات کی حقیقت تم پر کھول دے گا‘‘۔ قرآنِ پاک کی یہ آیات اس ایوان میں موجود تین سو سے زائد اراکین کے سامنے قواعد و ضوابط یا رولز آف دی گیم کے طور پر پیش ہوئیں جنہوں نے بیک زبان ہو کر چند ہی منٹ بعد اللہ کو حاضر و ناظر جان کر حلف اٹھایا۔ اس عہد کی پاسداری میں جس اللہ کو گواہ بنایا گیا ہے، وہ سمیع و بصیر ہے لیکن انسان کو یاد دلانا پڑتا ہے کہ یہ ایوان، حکومت اور زندگی سب عارضی ہے اور تمہیں ایک روز ایک بڑے دربار میںحاضر ہونا ہے۔ اس دنیا میں ہدایت کا تمام دارومدار اللہ نے عہد کے ساتھ رکھا ہے۔ اللہ فرماتا ہے ’’اللہ ایک ہی بات سے بہتوں کو گمراہی میں مبتلا کرتا ہے اوربہتوں کو راہ راست دکھاتا ہے اور گمراہی میں صرف انہی کو مبتلا کرتا ہے جو فاسق ہیں (البقرہ 26)‘‘ آیت آگے فاسقین کی تعریف کرتی ہے تاکہ واضح ہوجائے کہ اللہ کن لوگوں کو ہدایت نہیں دے گا۔ البقرہ کی ستائیسویں آیت ہے ’’یہ وہ ہیں جو اللہ کے ساتھ کیے گئے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ دیتے ہیں، اللہ نے جسے جوڑنے کا حکم دیا ہے اسے کاٹتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں۔ حقیقت میں یہی لوگ نقصان اٹھانیوالے ہیں۔‘‘ عربی میں عہد اس فرمان کو کہتے جو بادشاہ اپنے مطیع لوگوں کے لیے جاری کرتا ہے۔ یہ ایک حلف نامہ ہوتا ہے۔ رسول اللہﷺ کی مشہور حدیث ہے ۔ ’’اس شخص میں ایمان نہیں ہے جس میں عہد کی پاسداری نہیں۔‘‘ دو جون کی صبح کو پارلیمنٹ ہائوس کی عمارت میں گونجنے والی اللہ کی آیات اور پھر بیک زبان ہو کر اللہ کو گواہ بنا کر حلف اٹھانے والے ممبران اسمبلی اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام کے لیے بیک وقت امید اور خوف کی علامت ہیں۔ امید یہ ہے کہ شاید یہ ممبران اسمبلی اللہ سے ڈر جائیں اور اپنے عہد کو پورا کریں اور خوف تو ایسا ہے کہ جس کی بنیاد ساٹھ سال پرانی ہماری جمہوری، سیاسی، معاشی اور معاشرتی زندگی ہے۔ ہم حلف اٹھاتے وقت یہ تصور تک نہیں کرتے کہ اللہ حاضر و ناظر ہے اور ہم اس کو گواہ بنا رہے ہیں۔ روز اس ملک کی عدالتوں میں ہزاروں گواہ پیش ہوتے ہیں۔ ان کی قسمیں تو بہت ڈرانے والی ہیں۔ الفاظ یوں ہیں ’’اللہ کو حاضر و ناظر جان کر جو کچھ کہوں گا سچ کہوں گا، اگر جھوٹ بولوں تو مجھ پر اللہ کی لعنت و پھٹکار‘‘۔ جب 1986ء میں یہ قسم عدالتوں میں شروع ہوئی تو بہت سے پولیس اہلکار جھجکتے تھے، پیشہ ور گواہ ڈرے ہوئے تھے‘ لیکن پھر آہستہ آہستہ یہ سب اس کے عادی ہوگئے۔ اب وہ یہ فقرے ایسے بولتے ہیں جیسے کسی تحریر کا دیباچہ ہوں۔ ہمارے گورنر، وزرائے اعلیٰ، وزیر اوروہ تمام عہدیدار جو ایسے حلف اٹھا رہے ہوتے ہیں وہ اسے بس ا یک آئینی ذمہ داری کے علاوہ کچھ نہیں سمجھتے۔ اس حلف کو یاد کرنے یا اسے ڈھونڈنکالنے کی ضرورت پانچ سال بعد آتی ہے جب وہ دوبارہ حلف اٹھانا ہوتا ہے۔ کیا ان سب نے اسلامی نظریہ‘ جو پاکستان کے قیام کی بنیاد ہے‘ کے تحفظ کا فرض ادا کیا؟ یہ وعدہ تو انہوں نے اللہ کو گواہ بنا کر کیا تھا۔ ہم روزانہ کاروبار میں جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں، چھوٹے دکاندار سے لے کر بڑے سے بڑا کاروباری اللہ کی قسم اٹھا کر جھوٹ بھی بولتا ہے اور اس کو گواہ بنا کر کیے گئے عہد سے پھر بھی جاتا ہے۔ جس ملک میں سیاست کا مطلب چال بازی رکھا گیا ہے اور ایک سچ بولنے والے اور عہد نبھانے والے شخص کے بارے میں یہ کہا جائے کہ اسے سیاست نہیں آتی، یہ بہت سادہ ہے، ابھی یہ اس میدان میں نیا نیا ہے، جب یہ ہماری طرح جھوٹا، مکار، فریبی، چال باز، اللہ کو گواہ بنا کر عہد توڑنے والا بن جائے گا تو اس دن ہم اسے کامیاب سیاست دان کہیں گے‘ ایسے ملک میں اللہ کی ہدایت کے سرچشمے کیسے پھوٹ سکتے ہیں۔ جس ملک کے عوام کی اکثریت کو پتہ ہو کہ یہ سب ووٹ مانگنے والے جھوٹے وعدے کررہے ہیں، یہ کچھ نہیں کرسکتے۔ یہ مفاد پرست لوگوں کا ٹولہ ہے۔ یہ اپنے وعدے پورے نہیں کریں گے اور پھر بھی انہیں ووٹ دے کر اسمبلی کی راہداریوں میں پہنچا دیں‘ وہاں اسمبلی ہال میں سورہ النحل کی آیات گونجتی رہیں‘ اللہ کو حاضر و ناظر جان کر صدقِ دل سے حلف کے الفاظ بیک زباں ہو کر پڑھے جاتے رہیں‘ وہاں اللہ سے ڈرنے والے عام آدمی کے حصے میں تو خوف ہی آئے گا۔ اسے محسوس ہوگا کہ یہ سب اس عورت کی طرح سوت کات رہے ہیں اور پھر خود ہی اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے۔