پوری دنیا دوسری عالمی جنگ کے جہنم میں جھونک دی گئی تھی۔ کوئی ملک ایسا نہیں تھا جو اس جنگ کے اثرات سے محفوظ رہاہو۔ پہلی عالمگیر جنگ میں ذلت آمیز شکست کے بعد عوام کی زبردست اکثریت سے منتخب ہونے والا جمہوری رہنما ہٹلر‘ ظلم و بربریت کی علامت اور دشمنوں کے لیے خوفناک آندھی کی صورت بن چکا تھا۔جرمن نسل کی برتری کا بھوت اُس کے سر پر سوار تھا اوراس کے اسی خلجان نے پوری قوم کو جنگ کی آگ میں جھونک دیا۔ نسلی تعصب اور جمہوری اکثریت کااس سے بدترین گٹھ جوڑ‘ تاریخ نے نہیں دیکھا۔ ایک جانب جرمنی‘ اٹلی اور جاپان تھے‘ اور دوسری جانب برطانیہ‘ فرانس‘ امریکہ اور روس۔ کئی ایسے ممالک بھی شامل تھے جو جنگ سے براہ راست متاثر ہوئے یا جنگ کے فریقین کو مدد فراہم کر رہے تھے جسے سفارتی زبان میں لاجسٹک سپورٹ کہتے ہیں۔ دونوں جانب کے ممالک کا دنیا بھر کی اقوام پر مسلسل دبائو تھا کہ وہ جنگ میں حصہ لیں یا مدد کریں۔ برصغیر پاک و ہند کی غلامی کا تو کیا کہنا۔ یہاں سے لاکھوں نوجوان برطانوی فوج میں بھرتی ہوئے‘ ان میں سے چھیانوے ہزار جنگ میں کام آئے‘ 74,354 زخمی ہوئے۔ دو ہزار سے زائد ہندوستانی فوجیوں نے تاجِ برطانیہ سے تمغے حاصل کیے تھے‘ جن میں 31 اعلیٰ ترین جنگی تمغہ وکٹوریہ کراس شامل ہیں۔ اتحادی افواج کو تیل ملاتو بحرین اور مسقط کی افواج ان کے ساتھ مل کر جرمنی سے لڑیں۔ ایران کے رضا شاہ پہلوی نے انکار کیا تو اگست 1941ء میں روس اور برطانیہ نے رضا شاہ پہلوی کو تخت سے دستبردار ہو کر ملک چھوڑنے پر مجبور کردیا اور اُس کے بیٹے محمد رضا شاہ کو تخت پر بٹھایا۔سپین اور ارجنٹائن جیسے ملک بھی دبائو برداشت نہ کر سکے اور جنگ میں اتحادیوں کا ساتھ دینے پر مجبور ہوگئے۔ کمال اتاترک کا ترکی تھوڑی دیر الگ تھلگ رہا لیکن پھروہ بھی اتحادیوں کی کشتی میں سوار ہوگیا۔ جنگ کے شعلے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکے تھے۔ متحارب فریق خونخوار بھیڑیوں کی طرح ایک دوسرے کے خون کی پیاسے تھے۔ پالیسی یہ تھی کہ جو ہمارے ساتھ نہیں ہے وہ ہمارا دشمن ہے۔ ایسے میں ایک ملک ایسا بھی نظر آتا ہے جو غیرت و حمیّت اور عزت و ناموس کے تحفظ کی علامت بنا رہا۔ اس ملک کے چاروں جانب جنگ ہو رہی تھی۔ دو لاکھ پچاس ہزار مربع میل پر محیط یہ ملک، جس کی اس وقت کل آبادی صرف ستر لاکھ تھی۔اس کی ساٹھ ہزار فوج میں فضائیہ صرف سو افراد پر مشتمل تھی اورطیاروں کے بارے میں کسی کو کچھ خبر نہیں تھی ۔یہ ملک تھا افغانستان۔ ان افغانوں کی سرزمین جنہوں نے بے سرو سامانی کے عالم میں چند دہائیاں قبل اس وقت کی سپر پاور برطانیہ (جس کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا)کو ذلت آمیز شکست دی تھی۔ سید الانبیاءﷺ کی بشارتوں کی امین‘ سرزمینِ خراسان۔ جیسے ہی جنگ کے شعلے بھڑکے جرمنی نے افغان حکومت کو فیکٹریاں لگانے‘ سڑکیں بنانے اور اشیائے صرف خریدنے کے لیے امداد کی پیشکش شروع کی۔ جرمنی سے ان کی مشہور ائر لائن نے پروازوں کا آغاز کردیا۔ جس قدر افغان طلبہ جرمنی کے ہائی سکولوں میں پڑھتے تھے ،ان کو وظائف دے کر اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخل کر لیا گیا۔ افغان افواج کے افسروں کو اپنے فوجی تربیت کے اداروں میں پڑھانا شروع کردیا۔ اس کے ساتھ ہی جرمن حکومت نے افغان حکومت کو اس بات کا قائل کرنا شروع کیا کہ وہ ہندوستان پر حملہ کرکے برطانیہ سے اپنے علاقے ، واپس لے لے، جرمن افواج اس کا ساتھ دیں گی۔ اس سے پہلے افغانستان جب لیگ آف نیشنز میں شامل ہوا تو اسے برطانیہ نے جنگی طیارے دیئے تھے، چیکوسلواکیہ سے مشین گنیں اور دیگر اسلحہ آیا تھا۔ اٹلی نے بھی افغان حکومت کو امداد فراہم کی تھی۔ جنگ کے پس منظر میں دونوں جانب کے ممالک افغانستان کی مدد کو تیار تھے اور اس پر بے شمار دبائو ڈالا جارہا تھا کہ وہ کسی ایک جانب فیصلہ کرے۔ کسی ایک جانب ہونے کے فوائد ویسے ہی تھے جیسے ان دنوں پاکستان کی حکومت کو بتائے جاتے ہیں اور ان کے منہ سے رال ٹپکنے لگتی ہے۔ بہانہ بناکر حملہ کرنے کا خطرہ بھی اسی طرح تھا جیسے آج ہمارے سروں پر ڈرون کی صورت منڈلاتا ہے۔ اسی دور میں قبائلی علاقوں میں فقیر آف ایپی کی تحریک چل رہی تھی اور اس نے برطانوی افواج کا ناک میں دم کررکھا تھا اور افغانستان جیسے ملک پر جنگ عظیم دوم کے ماحول میں حملہ کرنے کے لیے یہ بہانہ کافی تھا۔ لیکن غیرت مند اقوام کا ردعمل مختلف ہوتا ہے اور دنیا بھر کے لیے مثال بھی۔ اس دبائو کے دوران نومبر 1941ء میں بادشاہ ظاہر شاہ نے کابل میں لوئی جرگہ بلایا جس میں افغانستان کے تمام علماء، سردار اور تاجروں کے نمائندے شامل تھے۔ اس لوئی جرگے نے جو قرارداد منظور کی اس کے الفاظ تھے ’’ہم افغانستان کے عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ کسی بھی غیرملکی طاقت کو اس بات کی اجازت نہیں ہوگی کہ وہ ہماری سرزمین کو کسی بھی قسم کے فوجی آپریشن کے لیے استعمال کرے ،خواہ وہ زمینی ہو یا فضائی اور ہم اپنی فضائی حدود کو بھی کسی دوسرے ملک کو جنگ کے مقاصد کے لیے استعمال کی اجازت نہیں دیں گے ‘‘ یہ صرف ایک قرار داد ہی نہیں تھی جیسی ہماری پارلیمنٹ منظور کرتی ہے‘ بلکہ اس کے پیچھے پوری افغان قوم کاعزم شامل تھا۔ ظاہر شاہ نے دونوں جانب کی طاقتوں پر غیرت مند افغان قوم کا یہ مؤقف واضح کردیا۔ پھر اس کے بعد کسی کو اس شیردل قوم کو ڈرانے اور دھمکانے کی جرأت نہ ہوسکی۔ یہی نہیں بلکہ اپنے آپ کو آزاد اور خودمختار ثابت کرنے کے لیے افغانستان نے دوہزار سے زیادہ جرمنی باشندوں کو اپنی سرحدوں سے نکال دیا جو غیرسفارتی طورپر وہاں مقیم تھے۔ یہ سب اس لیے ہوا کہ یہ پوری کی پوری قوم صرف اور صرف اللہ پر بھروسہ کرنا جانتی ہے۔ اسی لیے آج تک دنیا کی کوئی سپر پاور ایسی نہیں جس نے افغانستان کے خلاف جارحیت میںذلت آمیز شکست نہ کھائی ہو۔ صرف چند پہاڑوں کے پار ہم بھی آباد ہیں۔ ہم جو یہ تصور کیے ہوئے ہیں کہ اگر امریکہ کی عالمی امداد ہمارے شامل حال نہ ہوئی تو ہم بھوکے مر جائیں گے۔ اگر امریکی اسلحہ کے فاضل پرزے اور نئی کھیپ نہ ملی تو ہم کہیں کے نہیں رہیں گے۔ ہمارے سیاست دان اس ڈر میں مبتلا ہیں کہ ہم نے سر اٹھایا تو یورپ میںہمارے کاروبار اور بنک اکائونٹ ٹھپ ہوجائیںگے۔ ہمارے بیورو کریٹ، رنیل، سیاست دان ، تاجر سب اولاد کی پڑھائیوں، نوکریوں، سامان کی کھپت اور سیروتفریح کے ویزوں کے ہاتھوں یرغمال ہیں۔ ہم میں سے ہرکسی نے اپنی اپنی قیمت لگا رکھی ہے۔کسی میں جرأت ہے کہ امریکی ناظم الامور کے سامنے احتجاج سے پہلے افغانستان کی طرح تمام غیر سفارتی امریکیوں کو ملک بدر کردے۔ پارلیمنٹ کی ایک قرارداد‘ امریکی سفیر کو دفتر خارجہ بلا کر احتجاج کرنااور اٹھارہ کروڑ بے وقوف عوام‘ یہ ہے ہماری غیرت کا کُل اثاثہ۔ اسے خریدنا کتنا آسان ہے۔