چاروں جانب خوشی کے شادیانے بج رہے تھے۔ اخباری نمائندے اپنے کیمروں کے ساتھ ویران کابل میں نیٹو افواج کے ساتھ داخل ہو رہے تھے۔ دنیا کے تمام ممالک کے حکمرانوں نے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے چالیس سے زیادہ عالمی طاقتوں کو ایک نہتے، کمزور اور بے سرو سامان ملک پر دہشت گردی کا لائسنس دیا تھا اور آج اس لائسنس کے تحت ہونے والی دہشت گردی کی فتح کا دن تھا۔ دنیا بھر کا میڈیا اور میرے ملک کے ٹیکنالوجی اور طاقت سے مرعوب ہونے والے دانش ور طالبان کی شکست پر جس لذت بھرے لہجے میں تبصرے کرتے تھے اور انہیں فرسودہ، دقیانوس، کم عقل، ناسمجھ اور ناعاقبت اندیش ثابت کرنے میں مگن تھے وہ دیدنی تھا۔ ایسے میں پاکستان کے صدر پرویز مشرف کو دانا، عقل مند، ملک و قوم کا خیر خواہ اور وقت کی نزاکت کو سمجھ کر امریکہ کے سامنے سربسجود ہو کر پاکستانی قوم کو بچانے والا بنا کرپیش کیا جاتا تھا۔ بڑے سے بڑا سیاسی لیڈر اور عظیم سے عظیم تبصرہ نگار بھی یہی کہتا ’’ اگر ہم ڈٹ جاتے تو ہمارا تورا بورا بنا دیا جاتا‘‘۔ کابل میں بغیر کسی مزاحمت کے داخل ہونے کو ایسے پیش کیا جا رہا تھا جیسے امریکی جن تھے جنہیں دیکھتے ہی سب خوفزدہ ہو کر بھاگ نکلے ۔ اس دوران ایک پچیس سالہ نوجوان کی آواز گونجی :’’ طالبان کو شکست نہیں ہو سکتی۔ ہم نے شمالی علاقوں کو حکمتِ عملی کے تحت چھوڑا ہے تا کہ ہم اپنی طاقت کو جنوبی علاقوں… غزنی،قندھار، ہلمند، ارزگان اور زابل میں جمع کریں اور موت تک اس جنگ کو جاری رکھیں ۔ ہمیں اسامہ بن لادن کو اپنی سرزمین پر مہمان رکھنے پر کوئی شرمندگی نہیں کیوں کہ اس نے افغانستان کو کمیونسٹ روس سے آزاد کرانے میں ہمارے ساتھ خون بہایا ہے۔‘‘ یہ آواز تھی ملا محمد عمر کے ذاتی سیکرٹری طیب آغا کی۔ یہ وہی شخص ہے جو آج بارہ سال بعد قطر کے شہر دوحہ میں عزت و توقیر کے ساتھ میز پر ایک جانب بیٹھا ایک شکست خوردہ عالمی طاقت اور اس کے حواریوں سے مذاکرات کر رہا ہو گا،وہ طاقت جس کے خوف سے میرے ملک کے عظیم رہنمائوں کے دل آج بھی کانپ اٹھتے ہیں۔ طیب آغا جس کا بچپن اور جوانی کوئٹہ کی گلیوں میں بسر ہوئی،ابھی تین سال کا تھا کہ اس کے ملک پر کمیونسٹ روس کی افواج چڑھ دوڑیں۔ ثور انقلاب کی کمیونسٹ سیاسی پارٹیوں ’’ پرچم‘‘ اور’’ خلق‘‘ کے افغانی دھڑے ان کے ہمرکاب تھے۔ کوئٹہ میں وہ ایک مہاجر بچے کی حیثیت سے آیا کیونکہ اس کا والد ملاسدوزئی اپنے ملک کے دفاع کی جنگ میں مصروف تھا۔کوئٹہ کے ایک مدرسے میں زیر تعلیم اس نوجوان نے کمپیوٹر کلاسوں اور انگریزی زبان میں مہارت حاصل کرنا شروع کی۔ اٹھارہ سال کی عمر میں یہ نوجوان عربی، انگریزی، اردو، پشتو اور فارسی میں اس قدر ماہر ہو چکا تھا کہ اس پر شک ہونے لگتا کہ کہیں یہ اُس کی مادری زبانیں تو نہیں ہیں۔ اسی عالم شباب میں1994ء کی گرمیوں میں اُس کے والد کے شاگرد ملا محمد عمر نے افغانستان میں کرپشن،بھتہ خوری، خونریزی اور سمگلنگ سے کمائی گئی رقم سے ہونے والی قتل و غارت اور جنگ و جدل کے خلاف جہاد کا اعلان کیا تو جو پہلے53نوجوان ملا عمر کے ساتھ تھے ان میں اٹھارہ سالہ طیب آغا بھی شامل تھا۔ طالبان سے پہلے کا افغانستان بھی سب کو یاد ہے جب وہاں خون اور دہشت کے سائے تھے۔ چمن سے قندھار تک پچاس کے قریب بھتہ خوری کی چیک پوسٹیں تھیں جو ہر گذرنے والے سے مجاہدین کے نام پر تاوان وصول کرتی تھیں۔طالبا ن کے بعد کا افغانستان بھی لوگوں کو یاد ہے جب کوئٹہ، پشین اور چمن جیسے مقامات سے لوگ اپنے مقدمات ان کے پاس فیصلوں کے لیے لے جاتے تھے کہ انصاف ملے ۔ ایک ایسا افغانستان جس میں صدیوں پرانی افیون کی کاشت صرف ایک حکم نامے پر ختم ہو گئی ۔ اس دور کے افغانستان کی تفصیل دنیا بھر کے میڈیا پر موجود ہے لیکن امن و آشتی سے بھر پور یہ پانچ سال بہت سے لوگوں کے لیے جہاں حیرت کا باعث ہیں وہاں ان کے دلوں میں بھرے ازلی و ابدی بغض کے بھی عکاس ہیں جو چند چھوٹے چھوٹے واقعات کی بنیاد پر افغانستان میں تباہی و بربادی اور قتل و غارت کے بعد امن وامان کے قیام کو کوئی کارنامہ قرار ہی نہیں دیتے۔ لیکن اصل معاملہ تو گیارہ ستمبر کے بعد کا ہے۔ طالبان کے پاس بھی وہی دو راستے تھے جو پرویز مشرف اور اُس کی حکومت کے پاس تھے۔ افغانستان کا کوئی شخص براہ راست گیارہ ستمبر کے واقعات میں ملوث نہ تھا اور پاکستان کے کسی شہری کا نام بھی اس فہرست میں شامل نہ تھا۔ دونوں پر عالمی برادری کی مسلمہ دہشت گردی اور غنڈہ گردی مسلط کی جارہی تھی۔ ایک جانب غیرت سے زندہ رہنے کا فیصلہ کرنے والے وہ لوگ تھے جو اللہ پر توکل رکھتے تھے اور دوسری جانب مادی وسائل کے غلام اور ٹیکنالوجی کے پرستار۔ ایک ہماری سرحد کے اُس پار رہتے تھے اور دوسرے میرے ملک کے حکمران۔ اقبال نے اس تقسیم کو کس خوبصورتی سے واضح کیا ہے: اللہ کو پامردیِ مومن پہ بھروسہ ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا لیکن میرے ملک کے حکمرانوں کو اندازہ نہیں تھا کہ اللہ کی نصرت اور مدد تو ہر ٹیکنالوجی سے بالا تر ہے۔ یہ جنگ بھی عجیب تھی۔ دنیا کی تمام طاقتور قوتیں ایک جانب ، کوئی پڑوسی طالبان کے ساتھ نہ تھا ۔ پاکستان سے ستاون ہزار مرتبہ امریکی جہاز اڑے اور ان نہتوں پر بم برسائے۔ایران ساتھ نہ تاجکستان بلکہ تاجکستان کی سرزمین سے تو امریکی فوج اندر داخل ہوئی۔ امریکہ کے ساتھی شمالی اتحاد کو ہر طرح کی امداد ایران نے فراہم کی۔ ایسے میں یہ مردانِ کوہستانی اور بندگان صحرائی گیارہ سال تک لڑے۔ ہم نے یہ گیارہ سال گذارے اور حامد کرزئی نے بھی ۔دونوں نے اپنے آقا امریکہ کو خوش کرکے اور اس کی آشیر باد کو طاقت کا سرچشمہ سمجھ کر گذارے۔ ہم نے روز لاشیں اٹھائیں۔ مارنے والے بھی کلمہ گو اور مرنے والے بھی کلمہ گو۔ طالبان کو کم از کم ایک اطمینان اور یقین ضرور تھا کہ وہ جس سے جہاد کرنے نکلے ہیں وہ اللہ کا منکر ہے۔ دنیا کی ہر اخلاقیات کے حساب سے وہ ان کے ملک پر قابض ہے۔ ان کی جنگ اسلام کے حوالے سے بھی حق پر تھی اور قوم پرستی کے حوالے سے بھی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاتھ میں ریمنڈ ڈیوس آتا ہے اور ہم اپنی انا اور خودداری بیچ کھاتے ہیں ۔اُن کے ہاتھ صرف ایک امریکی سارجنٹ آیا تھا اور آج اُس کے بدلے وہ گوانتا ناموبے سے اپنے ساتھی چھڑوا رہے ہیں۔ کس قدر منت سماجت سے ان سے کہا جا رہا ہے کہ امارات ِ اسلامی افغانستان کا پرچم ذرا کم نمایاں کر لیں ،اس لیے کہ ہمارے پالتو حامد کرزئی کو تکلیف ہوتی ہے۔ کوئٹہ کی گلیوں میں کمپیوٹر سیکھنے اور انگریزی تعلیم حاصل کرنے والا شخص طیب آغا جس نے قرآن و حدیث اسی شہر کے مدرسے میں پڑھی امریکی وزیر خارجہ کے مقابل بیٹھے گا۔ اس شخص کی آنکھوں کی چمک دیکھتا ہوں تو طالبان کی قید میں رہ کر مسلمان ہونے والی ایون رڈلی کی بات یاد آتی ہے۔ اس نے قید سے فوراً رہائی کے بعد کہا تھا :’’ یہ لوگ مجسم انسانیت تھے۔ یہ حیران کن لوگ تھے، کالی داڑھیوں اور زمرّد جیسی سبز رنگ آنکھوں والے جو خوبصورت سے خوبصورت یورپی عورت کو پگھلا کر رکھ دیں۔ حیرت ہے کہ ان کی آنکھوں میں شرم اور حیا اس قدر تھی کہ میرے سامنے کسی مجرم کی طرح جھکی رہتیں۔ بموں کی یلغار میں نماز کے لیے کھڑے ہو جاتے۔ خود بھوکے رہتے ،مجھے کھلاتے۔ یہ کیا لوگ ہیں، یہ تو اس جہان کے لوگ ہیں ہی نہیں‘‘۔ یہی تو وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں اللہ وعدہ کرتا ہے کہ ہم ان کی نصرت کے لیے فرشتے نازل کرتے ہیں۔ گیارہ سال بعد اس مملکتِ خداداد ِ پاکستان میں بیٹھا سوچ رہا ہوں، تورا بورا کس کابنا، ہمارا یا طالبان کا؟ غیرت سے کون زندہ رہا؟ عزت سے کون سرفراز ہوا؟ یہ سوال اب تاریخ کا نہیں بلکہ آج کا ہے۔ اللہ کی نصرت ثابت کرنے کے لیے اب کسی کو عمر ابنِ خطاب کے زمانے کی جنگِ قادسیہ میں ایران کی شکست دکھانے کی ضرورت نہیں۔ اللہ نے کھول کر اپنی نشانی دکھا دی ۔ اب کوئی ایمان نہ لائے تو اس کے نصیب۔