ہوس اقتدار وہ بلا ہے جس نے انسانی تاریخ میں انسانوں کا سب سے زیادہ خون بہایا اور آج بھی اس کے ہاتھوں لاکھوں لوگوں کا قتل عام ہورہا ہے۔ اقتدار کی ہوس کا راستہ آمریت کا ہو یا جمہوریت کا‘ قتل اس کی سرشت میں شامل ہے۔ بادشاہوں میں سکندر اعظم ہو‘ اشوک اعظم یا اکبراعظم سب کے ہاتھ اقتدار کی جنگ میں انسانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں؛ حالانکہ مؤرخین انہیں اعظم یعنی ’’دی گریٹ‘‘ کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ سکندر پوری مغربی دنیا کا متفقہ ہیرو ہے اور مغربی تعلیم سے متاثر ہماری کئی نسلوں نے اپنی اولادوں کا نام سکندر رکھا۔ یہ شخص وہ ہے جس نے بار بار علاقے کے لوگوں سے معاہدے کیے اور پھر انہیں توڑ کر ان کا قتل عام کیا۔ ایتھنز کا وہ قتل عام تو اسے ظالم درندہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے جب اس شہر میں افواہ پھیلی کہ سکندر مرگیا ہے اور لوگوں نے دیواروں پر اس کے خلاف نعرے لکھ دیے۔ اسے خبر ہوئی ، اپنی فوج لے کر شہرپر ٹوٹ پڑا اور اس شہر کے شیرخوار بچے تک کو قتل کردیا۔ اشوک نے کلنگہ کی جنگ میں دس لاکھ انسانوں کو قتل کیا، اپنے نوے سے زیادہ بھائیوں کو موت کے گھاٹ اتارا اور پاٹلی پستر کے تخت پر قابض ہوا۔ اکبر جب ہندوستان پر دوبارہ قابض ہوا تو چتوڑ گڑھ کا قتل اس کی خونیں تاریخ کا حصہ ہے۔ اقتدار کی ہوس ایسی کہ خود اپنے بیٹے جہانگیر کے مقابلے میں تلوار لے کر میدان میں نکل آیا اور ہزاروں کو قتل کرکے بیٹے کو گرفتار کیا۔ چنگیز خان اور ہلاکو تو ویسے ہی تاریخ کے خونخوار کرداروں کے طور پر جانے جاتے ہیں… کھوپڑیوں کے مینار بنانے والے، شہروں کو آگ لگانے والے اور انسانوں کی کھالوں میں بھس بھرنے والے۔ دنیا کا کوئی خطہ ہوس اقتدار میں بدمست بادشاہوں کے ظلم سے خالی نہیں‘ لیکن جمہوری اقتدار کے راستے بھی ہوس کے خونی تھپیڑوں سے خالی نہیں، یہ قتل عام اقتدار میں آنے سے پہلے بھی کیا جاتا ہے اور اقتدار میں آنے کے بعد بھی۔ ہٹلر جب عوام کی بھاری اکثریت سے منتخب ہوا تو اس کا نشانہ وہ یہودی آبادی تھی جس سے وہ شدید نفرت کرتا تھا۔ ان پر جوظلم وستم ہوا اسے کتنا بھی بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہو لیکن آزاد سے آزاد تاریخ بھی اس جمہوری رہنما کے قتل وغارت کے طوفان سے خالی نہیں ہے۔ ایک نسل کشی کی مہم تھی جو اس نے شروع کی۔ اس نے بعد میں اپنی جمہوری سلطنت کو وسعت دینے کے لیے جس طرح اپنے اردگرد کے پڑوسی ممالک کو روندا، قتل عام کیا اور انسانی لاشوں کے انبار لگائے وہ بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔ یہ ہوس اقتدار ہی ہے جو جمہوری طورپر منتخب ہونے والے امریکی صدور کو مجبور کرتی رہی کہ وہ کبھی فلپائن میں گھس جائیں اور کبھی ویت نام میں چالیس لاکھ کے قریب انسانوں کا خون بہادیں۔ عراق اور افغانستان تو آج کی بدترین مثالیں ہیں۔ اپنی مرضی کا جمہوری نظام لانے اور اپنا تابع فرمان حکمران تخت پر بٹھانے کے لیے لاکھوں انسانوں کا خون کیا گیا اور لاکھوں گھر کھنڈر بنادیے گئے۔ انسانوں کی لاشوں کے انبار پر بیٹھ کر دونوں ملکوں میں آئین تحریر کیے گئے اور الیکشن کروائے گئے اور پھر اسے جمہوری نظام کی فتح قرار دیا گیا۔ ہوس اقتدار اور غلبے کی خواہش انسان کی بدترین خواہشوں میں سے ایک ہے۔ میرے ملک میں اس ہوس اقتدار نے کیا کیا رنگ نہیں دکھائے۔ طاقت سے حکومت پر قبضہ کرنے والوں نے فوج کے ذریعے ملک توڑا اور بار بار اقتدار کی ہوس کو پورا کیا۔ جمہوری طورپر منتخب لوگوں نے انہی کے ساتھ مل کر ملک توڑا پھر بچے کھچے پاکستان پر اقتدار حاصل کیا۔ کسی نے آئین توڑا تو کسی نے سویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا تاج سرپر سجایا۔ اس اقتدار پر جمہوری طورپر پہنچنے کی جدوجہد میں کیا کچھ نہیں ہوتا۔ مخالفین کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جاتا ہے۔ ٹارگٹ کلنگ سے لے کر بوری بند لاشوں تک سب اپنا جمہوری غلبہ قائم رکھنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ مخالف کو قتل کروانا، اسے جعلی مقدمات میں ملوث کرنا‘ اس کی جائداد پر قبضہ کرنا، اس کے رشتے داروں اور بیوی بچوں کو دھمکانا، اس کی معاشی ناکہ بندی کرنا اور ممکن ہوتو اسے غائب تک کروا دینا ان کا معمول ہے۔ آئین توڑ کر اقتدار میں آئو یا مخالفین کو ہراساں کرکے دونوں میں ایک خواہش بلاکی صورت سرپر سوار ہوتی ہے اور وہ ہے ہوس اقتدار۔ سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔’’دوظالم بھیڑیے اگر بھیڑوں کے گلے میں چھوڑ دیئے جائیں تو وہ اس قدر تباہی نہیں مچاتے جتنی اقتدار اور دولت کی ہوس میں مست افراد مچاتے ہیں‘‘۔ یہ حدیث کعب بن مالکؓ کی روایت ہے۔ مسند احمد، سنن نسائی، سنن ترمذی اور ابن حبان میں درج ہے اور صحیح کا درجہ رکھتی ہے۔ اس حدیث کو عبداللہ ابن عمرؓ ، عبداللہ ابن عباسؓ ، اسامہ بن زیدؓ،جابر ؓ نے ترمذی میں ان الفاظ سے بیان کیا ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’دوخونخوار بھیڑیوں کو بھیڑوں کے گلے میں اس وقت حملے کا موقع ملے جب مالک موجود نہ ہوتو وہ اس قدر تباہی نہیں پھیلاتے جس قدر مال اور اقتدار کی خواہش میں مست لوگ یادین کی راہ میں نام اور عزت کی خواہش کرنے والے‘‘۔ کیا میرے آقاؐ کا فرمان ہوبہو سچ ثابت نہیں ہوا؟ اقتدار اور دولت کی خواہش اور دین کی راہ میں نام اور عزت کی آرزو نے ہمارے ہاں قتل عام کا بازار گرم کیا ہوا نہیں ہے؟ پورے ملک میں بحث جاری ہے کہ جس نے آئین توڑا اس کو سزادو، پرویز مشرف کو سزادو، اس سے پہلے والوں کو بھی سزادو، اس کے ساتھیوں اور مددکرنے والوں کو بھی کیفر کردار تک پہنچائو۔ یوں لگتا ہے اٹھارہ کروڑ عوام، بھیڑوں کا ایک گلہ ہے اور اس پر کسی نہ کسی طریقے سے قبضے کے لیے بھیڑیوں میں جنگ جاری ہے جس سے بھوکے ننگے، خانماں برباد، لوڈشیڈنگ کے ستائے ہوئے اور بے آسراعوام کا کوئی واسطہ نہیں۔ اس جنگ میں ہوس اقتدار کے نشے میں مست لوگ خودہی تماشہ اور خود ہی تماشائی۔ عوام تو تماشائی بھی نہیں اس لیے کہ انہیں علم ہے ان میں جس کی بھی فتح ہوئی اس نے انہی پر چڑھ دوڑنا ہے۔