میری ان سے آخری ملاقاتیں کوئٹہ میں ہوئی تھیں۔ یہ وہی شہر ہے جہاں ڈھاکہ شہر میں پاکستان سے عشق و محبت کی سزا میں مکتی باہنی کے غنڈوں کے ہاتھوں اذیت ناک موت سے شہادت کے رتبے پر فائز ہونے والے مولوی فرید احمد کا بیٹا ظہیر فرید بھی بنگلہ دیش سے آ کر کئی کئی مہینے قیام کیا کرتا تھا۔ مولوی فرید احمد نظامِ اسلام پارٹی کے سربراہ تھے۔ ظہیر مکتی باہنی کے مظالم کی داستانیں سناتا تو رگوں میں خون جمنے لگتا۔ وہ نسلاً بنگالی اور ایک بنگلہ دیشی شہری تھا۔ اسے1971ء سے پہلے پاکستان کے’’عظیم ‘‘ دانشوروں کے زہر آلود پراپیگنڈے کا بخوبی اندازہ تھا۔ ظہیر کوئٹہ کے گردو نواح میں بنگلہ دیشی عورتوں کے بکنے کا منظر دیکھتا تو روپڑتا۔ روتے روتے مجھ سے سوال کرتا ’’تم جیسے دانشوروں نے بنگالیوں کے دلوں میں نفرت کے بیج بوئے، تم قومیت کے متوالوں نے معاشی اعداد و شمار سے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اسلام آباد کی سڑکوں سے پٹ سن کی بو آتی ہے، ادھر میرے مشرقی پاکستان کے ایسے ہی ادیبوں نے استحصال کے نام پر خواب دکھائے۔ کیا 1971ء سے پہلے کوئی بنگالی عورت ایسے بکی تھی؟ اب تو دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جہاں ان کی بولیاں نہ لگتی ہوں۔ پندرہ بیس ہزار بھی کوئی رقم ہوتی ہے جس کے عوض تفتان سے لے کر پشین تک بنگالی عورت سمگل کر کے بیچی جاتی ہے‘‘۔ میرے پاس اس کا کوئی جواب نہ ہوتا۔ میں کہتا: تم لوگ خود ہی بنگالی قومیت، بنگلہ زبان ا ور بنگالی ثقافت کی عظمت کے نام پر ہم سے علیحدہ ہوئے۔ ظہیرایک موٹی سی گالی دیتا اور کہتا کہ اسی بنگالی ثقافت اور بنگالی زبان بولنے والے شہر کلکتہ کے بازارِ حسن میں بنگلہ دیش سے نوکری کا جھانسہ دے کر لائی جانے والی مسلمان عورتوں کی تعداد ستر فیصد ہے۔ کوئی ایک عورت بھی1971ء سے پہلے وہاں نہیں گئی تھی۔ اسی طرح ہمیں جس زمانے میں یہ عظیم دانشور معاشی طور پر ایک مظلوم قوم بنا کر پیش کرتے تھے، اس استحصال زدہ معاشرے سے، اس مشرقی پاکستان سے کوئی ایک شخص بھی چوری چھپے بھارت میں مزدوری کر کے رزق کمانے نہیں گیا۔ آج بھارت میں ایسے خانماں برباد بنگلہ دیشیوں کی تعداد لاکھوں میں ہیں۔ یہ بھارت میں ذلت و رسوائی سے اپنا رزق کماتے ہیں۔ کیایہ ’’خوشحالی‘‘ نصیب ہوئی ہے ہمیں؟ میں اسے پاکستانی اخبارات میں بنگلہ دیش کی ترقی کے اعداد و شمار دکھاتا تو اس کا ایک ہی جواب ہوتا کہ اگر ہم آزادی کے بعد اس قدر خوشحال ہو گئے ہیں تو پھر یہ سب کیا ہے؟ کوئٹہ میں میری عدالت میں جب بھی چھاپے کے دوران پکڑی جانے والی ایسی بنگالی عورتیں بیان کے لئے لائی جاتیں، جنہیں مختلف ترغیبات دے کر پاکستان لایا گیا ہوتا تو ان کی کہانیاں رُلا دیتیں۔ چاغی میں ڈپٹی کمشنر ہائوس میں ایک خانسا ماں تھا‘ یہ 1997ء کی بات ہے جب میں وہاں تعینات تھا ۔وہ چٹاگانگ سے قسمت آزمائی کے لیے پاکستان آیا تھا اور صرف وہ نہیں اس ضلع میں پچاس کے قریب ایسے خانساماں تھے۔ بنگلہ دیش کوبنے26سال ہو چکے تھے اور آج بھی مغربی پاکستان ان کے لیے دبئی تھا۔ میرے پاس بلوچستان کا رکن اسمبلی سخی دوست محمد آتا تو اس بنگالی خانساماں کو دیکھ کر کہتا: یہ آزاد بلوچستان والے جس طرح ہمیں امیر بنانے کے خواب دکھا رہے ہیں، ہم ا گر خدانخوستہ بنگالیوں کی طرح ہو گئے تو ہمیں تو خانساماں کے لیے بھی جگہ نہ ملے گی۔ ان کے پاس تو پاکستان ہے، وہ لاکھوں کی تعداد میں یہاں آجاتے ہیں، ہم کس ملک جائیں گے… ایران، ا فغانستان… وہاں تو ہمارے بلوچ آج بھی بدترین غلامی کی زندگی گذار رہے ہیں۔ یہ تھا وہ سارا پس منظر اور حقیقت نامہ جس نے مجھے کبھی اس بات پر یقین نہ کرنے دیا کہ بنگلہ دیش آزاد ہونے کے بعد خوشحالی کے دور سے گذرا ہوگا۔ ہاں اتنا ضرور تھا کہ دنیا بھر اور پاکستان کے سرمایہ کاروں کے لیے بھی وہ جنت بن گیا جو مظلوم بنگالیوں کی سستی مزدوری کی وجہ سے اپنی فیکٹریاں وہاں لے گئے اور میرے ملک کے معاشی تجزیہ نگار نعرے بلند کرتے رہے کہ وہاں کتنی سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔ دیکھو وہ خوشحال ہو رہے ہیں۔ اس سارے پس منظر اور بنگلہ دیش کے رہنے والوں سے حاصل معلومات وہ محرک تھا کہ مجھے ان سے ملنے کے لیے بے پناہ اشتیاق تھا۔ ایک ا یسا شخص جو برطانوی ہند کے اس حصے ، جسے مشرقی پاکستان کہتے ہیں،میں1922ء میں پیدا ہوا۔ اس کی شہریت1971ء میں شیخ مجیب الرحمن نے چھین لی تھی۔ منشی شہاب الدین کے صوفی گھرانے میں جنم لینے والا پروفیسر غلام اعظم‘ جس کا د دھیال اور ننھیال دونوں آج بھی پورے بنگلہ دیش میں روحانی گھرانے کی حیثیت سے قابل تکریم ہیں‘ اپنے ابتدائی ایاّم میں ایک قوم پرست طالب علم تھا، جو گیارہ مارچ1948ء کو بنگالی زبان کے حق میں تحریک چلانے پر گرفتار ہوا۔ دوسری دفعہ 1952ء میں پھر اسی تحریک کے سلسلے میں پابند سلاسل کیا گیا۔ لیکن انہی قوم پرستوں کے عزائم اور منصوبوں نے اسے اسلام اور پاکستان سے قریب کیا اور پھر اس کا دیوانہ بنا دیا۔ میری اولین ملاقات، یہ ملاقات کیا‘ ان کی صحبت اور جلسوں میں ان کی تقریر سننے تک محدود تھی جو1970ء کے الیکشن کے دوران منعقد ہوئے‘ لیکن کوئٹہ میں ان کے ساتھ گذارے دن یاد گار تھے۔ پاکستان سے محبت کی کتنی کہانیاں ہیں جو ان کی زبانی سننے کو ملیں۔ بنگلہ دیشی عوام میں بھارت سے نفرت کا قصہ سناتے ہوئے کہنے لگے: جس دن پاکستان نے ڈھاکہ کی سرزمین پر بھارت کو کرکٹ میچ میں ہرایا تھا‘ پورے شہر میں ایک جشن کا سماں تھا۔ ہر چوراہے پر لوگوں نے اس خوشی کے عالم میں کئی سو بیل ذبح کیے تھے۔ اس عمر رسیدہ محب پاکستان کو بنگلہ دیش میں نوے سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ سزا اس جرم میں سنائی گئی ہے کہ پروفیسر غلام اعظم نے اپنے ہی ملک میں عالمی سطح پر مسلم ریاست پاکستان کی حمایت کیوں کی اور بھارت کی جارحیت کے سامنے سینہ سپر کیوں ہوگیا۔ یہ بنگلہ دیش پاکستان کے 1973ء کے آئین کابھی حصہ تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی اسمبلی میں بنگالی ممبران کی نشستیں خالی رکھی گئی تھیں۔ نورالامین،راجہ تری دیورائے اور محمود علی جیسے محب وطن بنگالی وزارتوں پر متمکن تھے۔ پروفیسر غلام اعظم اس پاکستان کا حامی تھا اور اپنے اسی جائز ملک اور ریاست کے ساتھ وفاداری کی آج سزا بھگت رہا ہے۔دنیا میں شاید ہم وہ واحد ملک ہیں جو اپنوں سے وفاداری کا یہ صلہ دیتے ہیں کہ میرے ملک کا ہر ’’عظیم‘‘ دانشور خاموش ہے، مہربلب ہے۔ پروفیسر غلام اعظم کو وہیل چیئر پر بیٹھے عدالت کا فیصلہ مسکراتے ہوئے سنتے دیکھتا ہوں تو سوچ میں پڑ جاتا ہوں۔ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی۔ لوگوں کی رائے بھی ایک موج کی طرح ہوتی ہے، اگر کہیں بدل گئی تو وہ دانشور جو اس ملک کا کھاتے ہیں، جنہیں اس ملک نے عزت دی ہے اُن کا کیا بنے گا؟ اگر کبھی ایسا وقت آگیا کہ وزیرستان، سوات یا کسی اورجگہ ریاست پاکستان کے تحفظ کے لیے جنگ کرنے والوں پر مقدمے قائم ہونے لگے تو کیا وہ سارے دانشور، ادیب، اینکر پرسن کٹہروں میں نہیں کھڑے کر دیے جائیں گے؟ ان پر غلام اعظم کی طرح غداری کا مقدمہ قائم نہیں ہوگا؟ حالانکہ وہ تو ایک مسلم ریاست اور جائز سلطنت کے دفاع میں بولتے تھے۔ ہو سکتا یہ سب ایک نسل کے بعد ہو اور یہ لوگ بھی بوڑھے ہو چکے ہوں۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ بوڑھے غلام اعظم کے چہرے پر جو اطمینان اور سکون یہ سزا سننے کے بعد تھا، وہ ان لوگوں کو میسر نہ ہوگا کہ یہ اطمینان اور سکون تو اللہ پر یقین اور اللہ کے لیے کھڑے ہونے والوں کے نصیب میں ہوتا ہے۔