اگر کسی حکمران، سیاسی رہنما، تجزیہ نگار یا دانشور کو یہ گمان ہے کہ مراکش کے ساحلوں سے لے کر برونائی کی سر زمین تک کسی بھی ایسی حکومت کو فوج یا عالمی طاقتوں کی مدد سے ختم کردیا جائے، جو خالصتاً جمہوری عمل اور عوام کی کثرتِ رائے سے برسر اقتدار آئی ہو اور جو ملک کے عوام کی امنگوں کے مطابق اسلامی طرز زندگی کو نافذ کرنا چاہتی ہو تو اس دہشت گردی اور بربریت کا اثر باقی ممالک کی عوام پر نہیں ہوگا ،تو یہ ان سب کی لاعلمی، کو تاہ خیالی اور زمینی حقائق سے بے خبری ہوگی۔ اس لیے کہ دنیا بھر میں اس وقت جتنی بھی اسلامی تحریکیں جمہوری جدوجہد کے ذریعے اپنے اپنے ملکوں میں اسلامی نظام کے نفاذ کی کوشش کر رہی ہیں، ان کے روحانی اور علمی رہنمائوں کی کتابیں اور لٹریچر دنیا بھر کی زبانوں میں ترجمہ ہو کر تقریباً ہر ملک میں پہنچ چکا ہے اور ہر ملک کی تحریک کا ہر کارکن دوسرے ملک کے رہنمائوں سے نہ صرف واقف ہے بلکہ وہ انہیں ایک اجتماعی قیادت کا حصہ بھی سمجھتا ہے۔ موجودہ دور میں اسلام پرلکھنے والی سب سے بڑی مصنفہ کیرن آرم سٹرانگ نے اپنی کتاب ’خداکے لیے جنگ‘ (The Battle for God) میں اس کی پوری تاریخ بیان کی ہے۔ اس مصنفہ کے مطابق کئی صدیوں بعد اسلام کے سیاسی نظام کے لیے جدوجہد اور طریق کار کی آواز برصغیر سے سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اپنی تحریروں کے ذریعے بلند کی۔ اس سے پہلے تک امت بادشاہت، عثمانی خلافت کی مرکزیت اور فقہ کے جھگڑوں میں الجھی ہوئی تھی اور مغرب کے سیاسی نظام سے مغلوب ہو کر اس نے فلاحی کاموں پر زیادہ سے زیادہ توجہ مرکوز کر رکھی تھی۔ لیکن مغرب کے اس سیکولر نظام اور کمیونسٹ اشتراکیت کو پہلی دفعہ اس شخص نے للکارا اور ایک جمہوری جدوجہد سے اسلام کے نظام کا رستہ دکھایا۔ مصر کی اخوان المسلمون‘ جو 1921ء میں قائم ہوئی تھی، اس وقت تک ایک فلاحی اور معاشرتی اصلاحی جماعت کی حیثیت رکھتی تھی۔1950ء کی دہائی میں جب سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی کتابیں عربی میں ترجمہ ہو کر عرب دنیا میں پہنچیں تو اخوان کی قیادت نے انہیں ایک انقلابی پیغام کے طور پر لیا اور پھر ان سے متاثر، سیّد قطب شہید کی کتب نے اخوان المسلمون کو انقلاب کا راستہ دکھایا۔ اسی سیّد قطب کی کتابیں آج پاکستان ، ترکی، انڈونیشیا اور بنگلہ دیش جیسے ممالک کی زبانوں میں ترجمہ ہو کر وہاں کی تحریکوں کے کارکنوں کو بھی راستہ دکھاتی ہیں۔ ملائیشیا کے صوبہ کیلنٹن میں گذشتہ تین دہائیوں سے جو اسلامی جماعت برسر اقتدار ہے اس کے لٹریچر میں مولانا موودوی اور سیّد قطب سے لے کر ہر اس شخص کی کتب موجود ہیں جو کسی بھی ملک میں اسلامی تحریک کا سر خیل ہے۔ فلسطین کی حماس ہو یا انڈونیشیا کی تحریک اسلامی، ترکی کا نجم الدین اربکان ہو یا مراکش کاغنوشی سب عالمی سطح پر ایک دوسرے کے مسائل سے آگاہ ہیںاور نظریات کو بھی یکساں سمجھتے ہیں۔ ان سب کے کارکنوں، ہمدردوں اوربہی خواہوں کے دل بھی ایک دوسرے کے سا تھ دھڑکتے ہیں اور وہ ان کا درد بھی امت مسلمہ کا جسدِ واحد ہونے کی حیثیت سے محسوس کرتے ہیں۔ اس سارے پس منظر میں اگر کوئی شخص یہ تصور کر بیٹھا ہے کہ مصر میں اخوان المسلمون کی اس حکومت کو‘ جو جمہوری طور پر برسر اقتدار آئی تھی اور جس نے ایک اسلامی آئین کے لیے چونسٹھ(64) فیصد ووٹ حاصل کیے تھے‘ عالمی استعمار کی مدد سے اور فوجی بغاوت کے ذریعے ختم کر کے نہتے عوام پر گولیاں برسا کر باقی تمام ممالک میں راوی چین ہی چین لکھے گا تو اس سے بڑی خام خیالی کوئی نہیں ہو سکتی۔ اس پوری سازش کی ایک لمبی کہانی ہے جس کے پیچھے امریکہ اور اس کے حواری ممالک کی پروردہ فوج،مصر کے سرمایہ دار اور میڈیا نے اپنا بھر پور کردار ادا کیا۔ میڈیا کے ’’ٹائی کون‘‘، نجیب سوبریس نے اپنے چینل کے ذریعے مرسی حکومت کے خلاف پہلے اقلیتوں کے حقوق کی نام نہاد کہانیاں شروع کیں اور پھر ان سرمایہ داروں نے تیل، گیس اور بجلی کا بحران پیدا کیا‘ جو نیل کے جزیرے میں عالیشان مکانوں میں رہتے ہیں اور جن میں سے اکثریت نے اسرائیل کی یہودی عورتوں سے شادیاں کر رکھی ہیں۔ اس کے بعد شریعت‘ جو اکثریت کا مطالبہ تھا‘ کو خوفناک بنا کر پیش کیا گیا۔ جب یہ سب کچھ ایک جمہوری حکومت کو متزلزل نہ کر سکا تو چند لاکھ افراد کو سڑکوں پر لا کر فوج کے لیے بغاوت کے منصوبے پر عمل کرنے کی راہ ہموار کی گئی۔ اس کے بعد کی کہانی انتہائی خوفناک اور درد ناک ہے۔ فوج کے آتے ہی پٹرول پمپوں پر تیل بھی ملنے لگا اور گیس بھی ۔ لوڈ شیڈنگ بھی ختم ہو گئی ۔ لیکن عوام کو اندازہ تھا کہ یہ سب کیوں ہو رہا ہے اس لیے وہ اپنی جمہوری جدوجہد پر قائم رہے۔ آج سے دو ہفتے قبل ان نہتے لوگوں پر گولیاں برسائیں گئیں۔ سو کے قریب لوگ اللہ اکبر کہتے ہوئے سینہ تان کر گولیاں کھاتے رہے اور اپنے مقام پر بیٹھے رہے۔ دو دن قبل اس پُر امن ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے ان پر ٹینک چڑھا دیئے گئے۔ تین ہزار کے قریب افراد نے اس راہِ حق میں جان اپنے اللہ کے سپرد کردی۔ پوری دنیا کا میڈیا اس قتل عام پرچپ سادھے رہا۔ نہ کسی کو انسانی حقوق یاد آئے اور نہ ہی جمہوری سیاست۔ اس لیے کہ دنیا بھر میں جمہوری سیاست کا مطلب یہ تصور کر لیا گیا ہے کہ ایسا الیکشن اور ایسی جیت جس میں اللہ کا نام سنائی نہ دے۔ یہ دنیا اب ایک دوسرے سے اتنی بھی دور نہیں رہ گئی کہ اسے حقیقت کا علم نہ ہو سکے‘ بلکہ اب تو میڈیا اگر مجرمانہ خاموشی اختیار کرتا ہے تو سوشل میڈیا گھر گھر وہ خبر پہنچا دیتا ہے جس کی تصدیق بھی ضروری نہیں ہوتی۔ افواہ بھی وہاں خبر بن جاتی ہے اور لوگ اس پر یقین کر لیتے ہیں۔ اس المیے، بلکہ خونچکاں اور خوفناک المیے کا ایک پہلو ایسا ہے کہ اگر دنیا بھر کے مسلمان ملکوں کے حکمران، سیاسی رہنما اور دانشور اس معاملے پر غور نہیں کر رہے تو ایک دن وہ آتش فشاں کی طرح ان کے سامنے آکر کھڑا ہو جائے گا۔ دنیا بھر میں جہاں جہاں اسلامی تحریکیں چل رہی ہیں، وہاں دو طرح کے طریقِ کار ہیں اور دونوں میں اختلاف ہے۔ ایک جو جمہوری ذریعے سے، لوگوں کی رائے عامہ سے اسلامی نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں اور دوسرے جوبزور طاقت باطل قوتوں سے جہاد کر کے حکومت حاصل کرنا چاہتے ہیں تا کہ شریعت نافذ ہو سکے ۔ طاقت سے حکومت حاصل کرنے والے گذشتہ تیس برسوں میں لوگوں کی ایک کثیر تعداد کو اس لیے اپنا ہمنوا بنا چکے ہیں کہ الجزائر میں جمہوری حکومت کو برسرِ اقتدار نہ آنے دیا گیا، افغانستان کی مستحکم حکومت پر قبضہ کیا گیا اور عرب دنیا کے بعض ممالک میں سیکولر ذہن رکھنے والے حکمرانوں کو کھلی چھوٹ دی گئی۔ ان کو مغرب کی پشت پناہی بھی حاصل رہی۔جب گذشتہ دو سال پہلے عرب دنیا میں ایک انقلاب کی لہر شروع ہو ئی تو دنیا بھر نے اسے ایک سیکولر جمہوری جدوجہد کا نام دیا۔ ایسے میں طاقت کے بل بوتے پر اسلامی انقلاب کے داعی جمہوری راستے پر چلنے والوں کو سیکولرفتنوں کے عزائم سے ڈراتے رہے، اس کے باوجود اخوان المسلمون نے جمہوری راستہ اپنا یا۔ وہ اخوان‘ جو گذشتہ نوے سال میں سیکولر ڈکیٹروں کے ہاتھوں اپنے دو لاکھ افراد کی قربانی دے چکی تھی‘ لیکن تاریخ نے اخوان کے اس جمہوری راستے کو غلط ثابت کیا۔ پھر ظلم یہ کہ پوری مسلم امہ کے کسی بھی جمہوری ملک کے سیاست دانوں اور دانشوروں نے ان کی حمایت میں دو لفظ بھی ادا نہ کیے۔ لیکن یہ سب لوگ اپنی خاموشی سے ایک ایسے آتش فشاں کو جنم دے رہے ہیں جس کا لاوا اچانک پھٹا کرتا ہے۔ ایسے میں اگر وہ جمہوری راستے کی بات کریں گے تو لوگ سوال کریں گے کہ مصر میں اخوان نے یہ راستہ اختیار کیا تھا تو اس وقت تم کہاں تھے؟ وہ لوگ جو طاقت کے ذریعے انقلاب چاہتے ہیں ان کی حمایت میں اضافہ ہوگا۔ یہ لوگ ایک اچانک موڑ کی طرح قوموں کی شاہراہ پر نمودار ہو جایا کرتے ہیں اور جب قوموں پر ایسے لمحے آتے ہیں تو حکمرانوں، دانشوروں اور سیاست دانوں کو جواب دینے کی بھی مہلت نہیں ملتی۔