گزشتہ دو صدیوں سے سود کی معیشت پر پلنے والے ترقی یافتہ ممالک پر جب2008ء میں معاشی بحران آیا تو ان بلند و بالا معیشتوں کی کھوکھلی عمارتیں زمین بوس ہونے لگیں۔ ابھی صرف پراپرٹی کے شعبے میں لوگوں کی زندگی بھر کی جمع پونجیاں غارت ہوئی تھیں کہ اس کا خوف امریکہ اور یورپ کی معیشتوں پر چھاگیا ۔ لوگوں کا اعتماد پہلے بینکوں سے اٹھا، پھر سٹاک ایکسچینج کے حصص بے قیمت ہونے لگے اور آخر میں لوگوں نے کرنسی نوٹوں کو ردّی کے ٹکڑے سمجھتے ہوئے اپنی بچت سونے اور چاندی کی صورت میں محفوظ کرنا شروع کر دی۔ بینکوں کو اپنی دکانوں کے مستقل بند ہونے اور حکومتوں کو معاشی طور پر تباہ ہونے کا خطرہ محسوس ہوا تو انہوں نے سب سے پہلے سود کو معطل کر دیا اور ابھی تک دنیا کے اکثر ترقی یافتہ ممالک میں سود کی شرح ایک فیصد کے لگ بھگ ہے، جسے انتظامی اخراجات کے طور پر وصول کیا جاتا ہے۔ لیکن دوسرا قدم زیادہ چالبازی والا تھا۔ فوراً تمام بینکوں نے اسلامی بینکنگ کے نام پر کھڑکیاں کھول دیں۔ بڑے بڑے معاشی پنڈت اس کی افادیت کا درس دینے لگے۔ اس کے نفع و نقصان میں شراکت کو عیاں کرنے لگے۔ یوں بینکوں کے سودی کھاتوں سے خوفزدہ لوگوں نے اپنی رقوم ایسے کھاتوں میں منتقل کرنا شروع کر دیں جنہیں یہ لوگ اسلامی کہتے تھے‘ یہاں تک کہ دنیا بھر میں تیس فیصد سے زیادہ رقوم ان کھاتوں میں جمع ہوگئیں جن میں سے بیشتر مسلمانوں کی تھیں۔ اسلامی بینکنگ اور اس کا تصورتو تین چار دہائیاں پرانا ہے اور معاشی ماہرین یہودیوں کے ایجاد کردہ اور سود خوروں کے وضع کردہ بینکنگ کے نظام پر مدت سے اسلام کا غلاف چڑھانے کی انتھک کوشش کرتے رہے ہیں‘ لیکن پاکستان میں اس کی ترقی اور پھیلائو سپریم کوٹ کے اس تاریخی فیصلے کے بعد ہوا جو14 رمضان 1420ہجری کے دن اس نے سنایا۔ عدالت عظمیٰ نے تمام بینکوں کے مروجہ طریقِ کار کو حرام قرار دیتے ہوئے 30 جون2001ئتک سودی بینکاری ختم کرنے کے لیے کہا۔ سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ نواز شریف حکومت کی اس اپیل پر کیا جو انہوں نے اپنے پہلے دورِ اقتدار میں شریعت کورٹ کے فیصلے کے خلاف کی تھی اور جس میں سودی نظام کو جاری رکھنے کی درخواست کی تھی۔ پاکستان کو اللہ کی عدالت میں سرخرو کرنے والے ان ججوں میں جسٹس وجیہ الدین بھی شامل تھے جنہیں اسی پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ نے صدارت کے قابل نہ سمجھا۔اللہ جب دلوں پر مہر لگا دے تو پھر پارٹی مفاد سے آگے کچھ نظر نہیں آیا کرتا۔ اس فیصلے کے بعد بینکوں کے اس کریہہ کار وبار کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالنے کا کام تیزی سے شروع ہوا۔مفتیان کرام، اسلامی معیشت دان اور بینکاری کے جغادری سرجوڑ کر بیٹھے کہ کس طرح دو سو سال پرانے اس سرمائے اور سود پر پلنے والے نظام کو مشرف بہ اسلام کیا جائے۔ سارا حسنِ ترتیب جوں کا توں رہا‘ چیک بک بدلی نہ کھاتے، اے ٹی ایم کا طریقہ بدلا نہ قرضہ لینے اور دینے کا معاملہ… ہاں البتہ یہ بتایا گیا کہ ہم آپ کی آمدن کو کسی ایسے کاروبار میں نہیں لگائیں گے جس میں سود کاعمل دخل ہو۔ فقہ کی تدوین اور اجتہاد سے مضاربہ، مرابحہ، مسوّمہ، بیع مسلم اور اجارہ جیسے تصورات بینکنگ کی روزمرہ زندگی میں متعارف ہوئے۔ لوگوں کو ایک گونہ اطمینان ہونے لگا کہ چلو اب ہم حرام نہیں کھائیں گے نہ ہماری رقوم حرام جگہ خرچ ہوں گی۔ اس وقت ملک میںپانچ خالص اسلامی بینک کام کررہے ہیں اور14کمرشل بینکوں نے اسلامی بینکاری کی کھڑکیاں کھول رکھی ہیں۔ اسلامی بینکاری اور نفع و نقصان کی شراکت پر کھاتے داری کو دیکھنے کی ذمہ داری سٹیٹ بینک آف پاکستان کی ہے۔ بینکوں کے جمع کرائے گئے اعداد و شمار دیکھیں تو آپ کے پائوں تلے سے زمین نکل جائے؛ حالانکہ لوگ ان اسلامی بینکوں پر اس وجہ سے بھروسہ کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک مفتی کوشرعی ایڈوائزر رکھا ہوا ہے۔ سٹیٹ بینک کے ریکارڈ کے مطابق مارچ 2013ء تک اسلامی بینکاری والے کمرشل بینکوں نے جوریکارڈ مرکزی بینک میں جمع کرایا اس میں اسلامی بینک کاری اور سودی بینک کاری کی کوئی علیحدہ تقسیم موجود نہیں۔ یعنی بکری اور خنزیر کا گوشت ایک جگہ جمع ہے۔ ہم حسنِ ظن رکھتے ہیں کہ انہوں نے اندرونی طور پر یہ حساب کتاب علیحدہ رکھا ہوگا‘ لیکن وہ اعداد و شمار جنہوں نے مجھے خوف میں مبتلا کیا وہ ہر اس شخص کے لیے پریشان کن ہیں جو اپنے سرمائے کو سود سے پاک رکھنا چاہتا ہے۔ مارچ2013ء تک پوری اسلامی بینکنگ انڈسٹری کے اثاثہ جات847ارب تھے جن میں کھاتوں کی رقم 704ارب تھی۔ اس رقم میں سے انہوں نے666ارب روپے اپنی مختلف سکیموں میں لگائے یعنیInvestکئے۔ میں باقی سکیموں کا تذکرہ نہیں کرنا چاہتا کہ یہ ایک لمبی بحث ہے۔ لیکن ان تمام بینکوں نے تقریباً308ارب روپے یعنی اپنی کل کھاتے داری کا 44فیصد فیڈرل گورنمنٹ سکیورٹیز میں لگایا‘ یعنی حکومت پاکستان کو قرض دیا۔ وہ حکومت جو گذشتہ 50 برسوں سے خسارے کا بجٹ پیش کر رہی ہے، اُسے دی گئی رقم پر منافع کمایا‘ لیکن اسے عام بینکوں کے سودی منافع سے مختلف دکھانے کے لیے ’’اجارہ سکوک‘‘ کے نام سے بھول بھلیوں والا ایک طریقِ کار وضع کیا گیا۔ ’’ سکوک‘‘ ایسے سرٹیفکیٹ کو کہتے ہیں جو کسی ناقابل انتقال(Tangible) اثاثے کی مالیت کے برابر ہوتے ہیں۔ دیکھئے‘ حکومت کو اپنے کسی ڈیم ، موٹروے یا کسی اور پراجیکٹ کیلئے قرض لینا ہو تو وہ اس قرض کا معاہدہ اسلامی بینک کے سا تھ کرتی ہے جسے ’’اجارہ‘‘ کہا جاتا ہے‘ اس قرض کو اسلامی طریقِ تجارت میں ڈھالنے کے لیے ایکSPV(Special purpose vehicle) بنائی جاتی ہے جو اسی حکومتی ادارے کی ایک کاغذی کمپنی ہوتی ہے۔ وہ اس پراجیکٹ کی کنسلٹنٹ سے ویلیویشن وغیرہ کرواتی ہے، پھر وہ اس پراجیکٹ کی قیمت کے برابر سکوک شیئرز یا بانڈ جاری کرتی ہے جنہیں یہ تمام اسلامی بینک خریدتے ہیں اور منافع کماتے ہیں۔ اس کی مثال جنوری2006ء میں جاری ہونے والے8ارب کے واپڈا سکوک بانڈ ہیں جنہیں ایک کاغذی کمپنی ’’واپڈا فرسٹ سکوک کمپنی‘‘ نے جاری کیاجو منگلا ڈیم کی توسیع کے لیے جاری کئے گئے۔ان بانڈوں پرسود کا ایک شاندار تڑکا ا س طرح لگایا گیاکہ ان کی ادائیگی چھ ماہ کے KIBOR ریٹ جمع 35 Basis پوائنٹ کے ساتھ کی گئی۔اپنے سادہ لوح عوام کے لیے بتاتاچلوں کہKIBORکا مطلب ہے Karachi inter bank open market rate۔ یہ عالمی سطح پر لندن انٹربینک اوپن مارکیٹ ریٹ کی طرح کا نظام ہے۔ اسے جو بھی نام دیں ، کرنسی ریٹ کہیں یا کچھ ا ور‘ لیکن تمام معیشت دان جانتے ہیں کہ یہ دنیا میں سود کو ماپنے کا پیمانہ ہے کہ کس شرح سود پر بینک دوسرے بینکوں سے لین دین کر سکتے ہیں۔ یہ روزانہ کے حساب سے گھٹتا بڑھتا ہے۔ ان تمام سکوک بانڈز یا شیئرز جن پر حکومت ان کو منافع دے رہی ہے وہKIBORاور LIBORکے شرح پر ہے۔ کون سا کاروبار اور کون سی تجارت اور کون سا نفع و نقصان‘ سود کو حلال کرنے کا ایک راستہ ہے۔ اس تمام سرمائے کو حکومت پاکستان کی ضمانت حاصل ہے ۔ کوئی بتا سکتا ہے موٹروے، منگلا ڈیم یا کسی اور منصوبے میں کتنا نفع اور کتنا نقصان ہوا۔ ساری حکومت نقصان میں ہے۔ لیکن سکوک بانڈ پر KIBORاور LIBORکی شرح پرمنافع کی ادائیگی ہو رہی ہے۔ اس منافع کو وہ شراکت کا کھاتہ بتا کر سادہ لوح لوگوں کو اسلامی منافع دیتے جا رہے ہیں۔کیا حکومت کو پیسے دے کر ایک شرح پر منافع لینا نفع نقصان کا کاروبار ہے یا سود۔ کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام؟ حضرت دائود علیہ السلام کے زمانے میں بنی اسرائیل کے افراد نے اللہ کے ایک حکم کی ایک خاص مکر کے ساتھ خلاف ورزی شروع کی۔ اللہ نے حکم دیاتھا کہ ہفتے کے دن کاروبار یا شکار وغیرہ نہ کرو۔ انہوں نے دریا کے اندر نہریں بنا دیں اور ان نہروں میں جال لگا دیے۔ مچھلیاں ہفتے کے دن آتیں اور جالوں میں پھنس جاتیں‘ وہ انہیں پڑا رہنے دیتے اور اتوار کے دن نکال لیتے اور ساتھ تازہ شکار بھی کرتے۔ اللہ کے ساتھ مکرو فریب کا یہ طریقہ ایسا تھا جس نے اللہ کے غضب کو دعوت دی اور حکم ہوا کہ ’’جائو ہو جائو تم بندر‘‘ اور وہ بندربن گئے۔ سوال پوچھا جاتا ہے کہ حل کیا ہے۔ مجھے حیرت ان مفتیان ِ کرام پر ہے و شلوارٹخنے سے نیچے نہیں جانے دیتے، داڑھی کی لمبائی کم ہونے پر فسق کا فتویٰ صادر کر دیتے ہیںاور جن کے ہوتے ہوئے یہ سب ہو رہا ہے اور وہ خاموش ہیں ‘ دلیل دیتے ہیںکہ ہم ایک راستہ نکال رہے ہیں۔ اللہ کے ہاں حق اور باطل میں کوئی درمیان کا راستہ نہیں۔ کسی گناہ پر آدمی خود کو، خاندان کو ، دوستوں کو ، قبیلے کو بلکہ پوری قوم کو مطمئن کر سکتا ہوگا لیکن کیا یہ جواز روز حشراللہ کے سامنے دیا جا سکے گا۔