"OMC" (space) message & send to 7575

مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارہ

مومن کی فراست کے بارے میں تو سیّد الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’مومن کی فراست سے ڈرو، اس لیے کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھ رہا ہوتا ہے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ دنیا بھر کے معیشت دان، عالمی سطح کے مفکرین، دانشور اور صاحبانِ علم تو پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ اس دنیا کی بدقسمتی کا آغاز اس دن سے شروع ہو گیا تھا جب سود کے کریہہ کاروبار کو ایک مضبوط اور مستحکم ادارے کی صورت منظم کرنے کے لیے بینکنگ سسٹم اور کاغذ کی کرنسی کی داغ بیل ڈالی گئی تھی، لیکن ہمارے مسلمان اس سسٹم میں خیر پیدا کرنے کی بے سود کوشش میں مصروف ہیں۔1692ء میں بینک آف انگلستان کی بنیاد رکھی گئی اور صرف دو سال بعد1694ء میں اس بینک نے کاغذی کرنسی جاری کی۔ اس وقت تک اس کرنسی کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ کمپنیوں کے حصص کے فروغ کا کاروبار بھی شروع کیا گیا۔ انگلستان میں سائوتھ سی کمپنی اور فرانس میں مسس سپی کمپنی نے1711ء میں حصص مارکیٹ میں فروخت کیے۔ سائوتھ سی کمپنی جنوبی امریکہ سے عورتوں اور بچوں کو اغوا کر کے امریکہ میں غلام کے طور پر بیچتی تھی۔ لیکن جب جنوبی امریکہ میں سپین نے فتح حاصل کرنا شروع کی اور کمپنی کاکاروبار ڈوبا تو میڈیا کو میدان میں لایاگیا۔ 1920ء کے آغاز میں کمپنی کے شیئرز کی قیمت120پونڈ تھی۔ اخباری بیان بازی اور ماہرین کے تبصرے نشر ہوئے تو شیئر کی قیمت ایک ہزار پونڈ ہو گئی اور اسی سال اس کمپنی کے شیئر گِر کر100پونڈ ہوگئے۔ یوں اسی سال دونوں کمپنیاں بیٹھ گئیں، دیوالیہ ہو گئیں لیکن دونوں کے مالکان امیر ہوگئے اور حصص خریدنے والے اُجڑ گئے۔1716ء میں فرانس میں Bank Genraleکے نام سے بینک کی اجازت دی گئی۔ ابھی تک معاملہ پرائیویٹ بینکوں تک محدود تھا‘ لیکن آہستہ آہستہ ان سود خور بینکاروں نے حکومتوں کو بھی قرض کی راہ دکھائی اور انہیں عام آدمی کی بچت کے ساتھ کھیلنے کے ڈھنگ بتائے۔ پھر جب سو سال کی محنت اور عالمی استعماری قو توں کی چالبازی سے اس دنیا کے نقشے پر قومی ریاستیں وجود میں آئیں تو ہر ملک کے لیے ایک سنٹرل بینک اور ایک کاغذی کرنسی لازمی قرار دے دی گئی۔ یوں دنیا کے ہر ملک کے آئین میں سود کے اس کاروبار کو آئینی تحفظ حاصل ہو گیا اور ہر ملک کے سنٹرل بینک نے اپنے ملک میں سودی کاروبار کو تحفظ فراہم کیا۔ اس پورے نظام کو مزید قابل قبول بنانے اور عوامی سنددینے کے لیے جمہوریت کا نعرہ بلند ہوا اور سود کے سرمائے پر پلنے والے کارپوریٹ اداروں نے پارٹی فنڈز میں سرمایہ کاری کی تاکہ ان تمام منتخب نمائندوں کی زبانیں قابو میں کی جائیں۔ اس گھن چکر کا ایک اور پھندا حکومتوں کا قرض دینا تھا۔ بینکوں کے وجود سے پہلے بھی اس دنیا میں انسان رہتے تھے اور حکومتیں بھی چلتی تھیں۔ لیکن نہ کوئی خسارے کا بجٹ ہوتا تھا اور نہ حکومتی قرضے۔ یہ سب اس لیے کیا گیا کہ اگر کوئی حکومت سود سے نجات حاصل کرنا بھی چاہے تو اسے وہ معاہدے یاد دلائے جائیں جو اس نے قرض لیتے ہوئے سود ادا کرنے کے لیے کئے تھے۔ اس کے لیے حکومت کا غریب ہونا شرط نہ تھا۔ امریکہ جیسا امیر ملک بھی آج 16ہزار ارب ڈالر کا مقروض ہے۔’’ اب نکل کے دکھائو اس سودی گھن چکر سے‘‘۔ کبھی کبھی کوئی سیاست دان آواز اٹھاتا رہا لیکن سودی کارپوریٹ اور بینکوں کے ہاتھوں بکے ہوئے جمہوری نظام میں ایسی آوازیں کچل دی گئیں۔ مثال کے طور پر10جون 1932ء کو امریکہ کے ایوانِ زیریں کے رکن لوٹس ٹی میکفیڈن(Louis T McFadden) نے گرجدار آواز میں کہا: ’’ہمارے ملک میں ایک ایسا بد دیانت ادارہ ہے جس کی پوری دنیا میں مثال نہیں ملتی۔ یہ فیڈرل ریزروبینک اور فیڈرل ریزر و بورڈ ہے۔ اس حکومتی ادارے نے امریکہ کے عوام اور حکومت کو بار بار بری طرح دھوکے دئیے ہیں۔ اس نے سود کی مد میں کئی بار اتنی رقم عوام سے وصول کی ہے جو اصل قرض سے کئی گنا زیادہ ہے۔ اس نے حکومت کو بھی دیوالیہ کیا اور خود بھی دیوالیہ ہوا۔ یہ کس قدر غلط فہمی ہے کہ لوگ اسے حکومتی ادارہ سمجھتے ہیں۔ لیکن یہ دراصل 12 ریزرو پرائیویٹ بینکوں کی ملکیت ہے اور اس گھن چکر میں امریکہ کے آٹھ ہزار بینک شامل ہیں ۔ یہ ایک سسٹم ہے جو عوام کے پیسے ہی حکومت کو قرض دیتا ہے اور پھر حکومت انہی عوام پر ٹیکس لگا کر بینکوں کو سود ادا کرتی ہے‘‘۔ یہ شاید امریکہ میں سودی بینکاری کے خلاف کسی جمہوری ادارے میں آخری آواز تھی جو81سال پہلے گونجی۔اس کے بعد یہ سسٹم اس قدر جڑ پکڑ گیا کہ آج 43ہزار ملٹی نیشنل کمپنیوں کو ایک مضبوط اورمستحکم گروپ کنٹرول کرتا ہے جو147کمپنیوں پر مشتمل ہے اور ان کمپنیوں کو دنیا کے25بڑے بینک کنٹرول کرتے ہیں۔ یہ بینک ان کمپنیوں کے درپردہ مالک ہیں۔ کہیں حصص کے طور پر تو کہیں قرض خواہ کی حیثیت سے تو کہیں سرمایہ کار کے طور پر۔ ان تمام بینکوں کو ان کے ملکوں کے سنٹرل یا سٹیٹ بینک تحفظ دیتے ہیں اور یہ سنٹرل بینک ایک عالمی ادارے بینک آف انٹرنیشنل سیٹلمنٹ کے ممبران ہیں جو عالمی سطح پر کاغذ کے نوٹوں کی قیمتوں کا تعین کرتا ہے۔ یہ طے کرتا ہے کہ کس ملک کو غریب کرنا ہے اور کس کو امیر رکھنا ہے۔ یہ پورا سسٹم دنیا بھر کے تھنک ٹینکوں، این جی اوز، خفیہ اداروں اور بہت سی تنظیموں کو مستقل روپیہ فراہم کرتا ہے۔ لیکن اس سرمائے کی بہت بڑی رقم میڈیا کی نذر کی جاتی ہے۔ دنیا کی چھ بڑی کارپوریٹ کمپنیاں دنیا بھر کا 97فیصد میڈیا کنٹرول کرتی ہیں اور یہ97فیصد میڈیا تین بڑے میڈیا گروپس میں تقسیم ہے۔ یہ بینک اور کارپوریٹ ادارے ’’ فری میسن‘‘اور’’ سکل ایڈ بونز‘‘ جیسی خفیہ تنظیموں سے لے کر ورلڈ وائلڈ لائف جیسے اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی عوام سے لوٹے ہوئے پیسے سے فنڈ دیتے ہیں اور انہی کے پیسے سے ملک میں میڈیا اور سول سوسائٹی جنم لیتی ہے۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اس پورے شراب خانے میں جس کی ایک ایک اینٹ حرام کے پیسے اور سود کے دھندے سے گندھی ہے ہمارے اسلامی بینکاری کے ماہرین ایک کونے میں مصلیٰ بچھا کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے اسے حلال کر لیا ہے۔ انہیں اللہ کے اس اعلانِ جنگ کی حکمت ہی سمجھ میں نہیں آتی جو اس نے سود کے خلاف کیا۔ کسی اور بدترین گناہ کے خلاف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کا اعلان کیوں نہ کیا۔ اس لیے کہ اس خبیر اور علیم کو معلوم تھا کہ یہ سودی نظام ایک دن پوری دنیا کو کس طرح شکنجے میں لے لے گا اور اس کے تحفظ کے لیے پارلیمنٹ، سول سوسائٹی اور میڈیا یک جان ہو جائیں گے۔ اسلامی بینکاری پر میرے گذشتہ کالم کے جواب میں بہت سے ماہرین نے خطوط تحریر کیے۔ وہ حکومت کو قرضہ دے کر حاصل ہونے والی اضافی رقم کو جائز قرار دینے پر دلائل دیتے رہے۔سب سے اہم دلیل یہ تھی کہ دراصل یہ ایک اجارہ سکوک بانڈ کے ذریعے دیا جاتا ہے۔ یعنی وہ کاغذی کمپنی جو حکومت ہی بناتی ہے وہ کسی پراجیکٹ مثلاً ڈیم یا موٹروے وغیرہ کو خرید لیتی ہے اور پھر حکومت اس کے استعمال پر کرایہ ادا کرتی رہتی ہے۔ سبحان اللہ! دنیا میں ایسا کونسا کرایہ ہے جو ہر صبح KIBORکراچی انٹر بینک ریٹ یا LIBORلندن انٹر بینک ریٹ کے حساب سے روز بدلتا ہے، ویسے ہی جیسے ان دونوں کے حساب سے سود کی شرح اوپر نیچے ہوتی ہے یا کرنسی کے ریٹ بدلتے ہیں۔ ان علمائے کرام کے ذاتی مکان بھی ہونگے جو انہوں نے کرائے پر دیئے ہوں گے کیا وہ ہر صبح KIBORکا ریٹ دیکھ کر کرایہ دار سے کرایہ طلب کرتے ہیں؟ اللہ کے لیے سودی نظام کی اس عمارت سے نکل جائیے۔ یہ مال و متاعِ دنیا ایک دھوکہ ہے۔ آپ نے خود قرآن میں پڑھا اور پڑھایا ہے۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اس بینکاری کے نظام نے ہر مسلک کے مفتی کو شریعہ ایڈوائز بنایا ہوا ہے۔ کتنے ہی سادہ لوح خطیب ہیں جو مسجدوں میں بیٹھے یہ یقین کر لیتے ہیں کہ سب ٹھیک ہے۔ لاکھوں عام مسلمان یہ اعتبار کر لیتے ہیں کہ سب حلال ہے۔ آپ کا مقام تو اس پورے نظام کے خلاف جہاد کرنے کا تھا۔ دنیا بھر کے بے دین معیشت دان بھی اس سودی نظام کے خلاف آوازیں اٹھا رہے ہیں اور یہ بینک آپ کی چھتری تلے پناہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ مومن کی فراست کو تو اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ ایک مصلّے کی جگہ آپ کو اس سودی سسٹم کے اندر ملی ہے‘ خدارا اس مصلّے کو بینک سے باہر بچھا کر دیکھیں آپ کو اللہ کے نور سے وہ کچھ نظر آئے گا کہ آپ اس پورے سودی نظام کے خلاف جہاد میں رینگتے، گھسٹتے ہوئے بھی داخل ہونے کو سعادت تصور کر یں گے۔ نوٹ:انشااللہ اگلے ماہ کے کالموں میں وقفے وقفے سے سود کے متبادل نظام پر ایک سلسلۂ تحریر شروع کیا جائے گا جس کیلئے آپ سے خصوصی دعائوں کی درخواست ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں