آج اگر کسی بھی ماہرمعاشیات و اقتصادیات یا عظیم ترقیاتی منصوبہ ساز سے سوال کریں کہ دنیا کا کوئی ملک سودی قرضے کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے؟ تو وہ آپ کے سامنے معاشیات کی پچاس ساٹھ مشکل قسم کی تھیوریاں پیش کرے گا،دنیا بھر کے ملکوں کے اعداد و شمار بتائے گا۔ جی ڈی پی،جی این پی،تبادلہ زر، افراطِ زر، عالمی کساد بازاری، مالیاتی اتارچڑھائو اور ایسے ہی دوسرے پُررعب تصورات‘ خوفناک ہیبت کے ساتھ پیش کرکے آخر میں ایک لفظ بولے گا ’’ناممکن‘‘۔ آپ سوال کریں گے کہ کیا ہم اپنے وسائل میں رہ کر اپنی زندگی بہتر نہیں بنا سکتے؟ اس کے چہرے پرآپ کے معصومانہ سوال کے جواب میں تمسخر آمیز تاثر نمایاں ہو جائے گا۔ بعض ماہرین آپ کی جہالت پر ہنسنے لگیں گے۔ وہ اُلٹا آپ کو امتحان میں ڈالنے کے لیے سوال کرے گا: امریکہ کو جانتے ہو،کتنا امیر ملک ہے۔آپ اثبات میں سرہلائیں گے۔ وہ آپ کی حیرت میں اضافہ کرنے کے لیے کہے گا کہ امریکہ کا کل قرضہ16ہزار ارب ڈالر ہے۔ امریکہ سودی قرضے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا تو تم کس کھیت کی مولی ہو۔ ایسے تمام ماہرینِ اقتصادیات گزشتہ سو سال کی پیداوار ہیں۔ دنیا میں سودی بینکاری کے نظام کی جڑیں مضبوط ہونے سے پہلے بھی لوگ اپنی ضروریات کے لیے قرضے لیا کرتے تھے لیکن کبھی ملک، حکومتیں اور ریاستیں مقروض نہیں ہوا کرتی تھیں۔ میں عظمتِ رفتہ کی بات نہیں کرتا کہ بہت سے ترقی اور ٹیکنالوجی کے خمار میں ڈوبے ہوئے بزعمِ خود پڑھے لکھے افراد کو یہ ناگوار گزرتی ہے۔ فوراً کہنے لگتے ہیں کہ اس وقت کون سا جہاز اڑتے تھے،ٹرینیں چلتی تھیں،پُل اور موٹروے بنائے جاتے تھے‘ مشینری برآمدکرنا پڑتی تھی، شہری سہولیات مہیا کرنا ہوتی تھیں یا تعلیمی ادارے بنانا ہوتے تھے۔ اب تو ترقی کرنے کی ضروریات ہی ایسی ہیں کہ قرض کے بغیر بڑے بڑے پراجیکٹ بنائے ہی نہیں جاسکتے۔ لیکن اگرایک سوسال کی برصغیر پاک وہند کی اقتصادیات ان کے سامنے رکھ دی جائے تو ان کے پاس کوئی جواب باقی نہ رہے۔ انگریز جو اس ملک کو لُوٹنے اور کمانے آیا تھا‘ اس نے اس ملک سے بہت کچھ لُوٹا اور یہاں کے سرمائے سے اپنے ملک کو خوشحال کیا۔ وہ یہاں اپنی جیب سے خرچ کرنے نہیں آیا تھا۔ اس کو کیا مصیبت پڑی تھی کہ اپنے پیسوں سے یہاں ترقیاتی کام سرانجام دے۔ 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد پورے ہندوستان پر برطانوی راج کا پھر یرا لہرانے لگا اور یہ ملک تاج برطانیہ کے ماتحت ہوگیا۔تاج برطانیہ کے تحت7 اپریل1860ء کو برطانوی پارلیمنٹ میں ہندوستان کے لیے ممبر فنانس جیمزولسن نے پہلا بجٹ پیش کیا۔ اس وقت تک دنیا بھر کا آزاد میڈیا برطانیہ کو ہندوستان کے معاشی قتل کرنے والے بھیڑیئے کے طور پر پیش کرچکا تھا۔ 23جولائی1856ء کے نیویارک ٹریبیون نے برطانیہ کی لوٹ مار کا تفصیلی ذکر کیا اور کہا کہ مغل دورکا ہندوستان دنیا بھر کو مال برآمد کرتا تھا‘ اب وہ صرف برطانوی مال کی کھپت کی سب سے بڑی منڈی بن چکا ہے۔ لیکن1860ء کے پہلے بجٹ سے لے کر28فروری1947ء کو پیش کیے جانے والے اس بجٹ تک جسے وزیرخزانہ لیاقت علی خان نے پیش کیا تھا اور جسے ایک غریب آدمی کا بجٹ کہا گیا تھا‘ انگریزپورے ہندوستان کی ضروریات اس ملک کے وسائل سے پوری کرتا تھا،تمام ترقیاتی کام بغیر کسی قرضے کے انجام پاتے تھے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ٹیکس کے نام پر سب سے بڑی آمدن زمینوں سے حاصل ہونے والے مالیہ سے تھی۔ 1914-15ء کا کل بجٹ8 کروڑ 50لاکھ پونڈ تھا۔ اس میں سے ایک کروڑ 90لاکھ پونڈ ریلوے،45 لاکھ پونڈ نہری نظام پر خرچ کیے جاتے اور دو کروڑ بیس لاکھ پائونڈ سے ایک بہت بڑی فوج پالی جاتی۔لیکن اس سب کے باوجود انگریز نے اس ملک میں کلکتہ سے لے کر چمن اور طورخم تک ریلوے کاایک مربوط نظام بنایا۔ صرف سبی سے کوئٹہ تک29بڑی چھوٹی سرنگیں ہیں جن میں سے ایک ڈھائی میل لمبی ہے۔ چمن کے خوجک پہاڑ کی سرنگ ساڑھے تین میل لمبی ہے۔ ریلوے اسٹیشن کے ساتھ پھاٹک، کوارٹر، کالونیاں، اعلیٰ افسران کی رہائش گاہیں تعمیر کی گئیں۔ دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام قائم کیا اور بنجر علاقوںکو لہلہاتے کھیتوں میں تبدیل کردیا۔اس نہری نظام کو بنانے پر 3کروڑ 50لاکھ پائونڈ لاگت آئی۔ ہر ضلع میں انسانوں اور جانوروں کے ہسپتال بنائے۔کالج ،سکول اور یونیورسٹیاں قائم کیں۔ ڈپٹی کمشنر کا وسیع دفتر اور پولیس کامربوط نظام بنایا۔ چھوٹے چھوٹے شہر میں میونسپل ادارے بنائے جو پانی،صحت،پرائمری تعلیم اور صفائی کے ذمہ دار تھے۔ فوج کے کنٹونمنٹ بنائے، ڈاک خانوں کا جال بچھایا، ٹیلی گراف سسٹم شروع کیا،1920ء میں بی بی سی ریڈیو قائم ہوا تو1926ء میں کلکتہ ریڈیو کا آغاز ہوگیا۔ عدالتی نظام بنایا اور سول جج سے لے کر ہائی کورٹ تک عدالتیں قائم کیں۔ صرف لاہور، راولپنڈی اور مری کی مال روڈ کی شاندار عمارات یا دہلی اور کلکتہ کی خوبصورت تعمیرات کو گننا شروع کریں تو وہ ہزاروں تک جاپہنچتی ہیں۔یہ سارے کے سارے کام اُس نے اسی ملک کے وسائل اور یہیں سے اکٹھے کیے جانے والے ٹیکسوں سے کئے اور خودبھی ہندوستان میں برطانوی مال بیچ کر سالانہ تیس کروڑ پائونڈ برطانیہ بھجوائے۔ یہ بات صرف انگریز دور تک محدود نہیں ہے۔ پاکستان بننے کے بعد ہم تقریباً 24 سال تک اپنے ہی وسائل سے اپنا ملک چلاتے رہے۔ یہ وہ دور تھا جب اس مملکتِ خداداد پاکستان کا ذکر دنیا بھر کی معاشی ترقی کی نصابی کتب میں’’سبز انقلاب‘‘(Green Revolution)کے نام سے کیا جاتاتھا اور اسے دنیا بھر کے لیے ترقی کا ایک ماڈل سمجھا جاتا تھا‘ اس لیے کہ ہمیں اس وقت تک سود پر قرضہ لے کر اللّے تللّے کرنے کی لت نہیں پڑی تھی۔ اگرچہ ہمیں عالمی طاقتوں نے اس زہریلے نشے کی لت لگادی تھی لیکن وہ اس قدر کم تھی کہ اس کے زہریلے نشے نے ہماری رگوں میں سرایت نہیں کیا تھا۔ 1970-71ء کے بجٹ تک ہمارا کل قرضہ3425ملین ڈالر تھا اور ہم نے اس سال 182ملین ڈالر قسط ادا کی تھی جس میںسے81ملین سود تھا۔ لیکن اب اس ملک کا ہر فرد یہاں تک کہ ہرنومولود چھیاسی ہزار روپے کا مقروض ہے اور بیرونی قرضوں کا کل حجم 130ارب ڈالر ہے۔ یہ ہے سود کا گھن چکر جس میں الجھ کر ہم اصل رقم کئی بار ادا کرچکے ہیں اور یہ صرف ہم نہیں امریکہ جیسے ملک کے عوام بھی ان سود خوربھیڑیوں کو ایک انداز ے کے مطابق کل قرضے کی رقم کم از کم تیرہ بار ادا کرچکے ہیں۔ لوگ سوال کرتے ہیں اور معیشت دان علم بگھارتے ہیں کہ ہم ترقیاتی کام کیسے کریں؟ بڑے بڑے پراجیکٹ کیسے پایۂ تکمیل تک پہنچیں؟ ٹیکنالوجی کہاں سے درآمد کریں؟ لیکن کوئی مڑ کرنہیں دیکھتا کہ ساڑھے تین میل لمبی خوجک سرنگ صرف16ماہ کے عرصے میں اسی ملک کے وسائل اور اسی ملک کے عوام کی محنت شاقہ سے مکمل ہوئی۔ آزادی کے بعد ہم پچاس سال تک سوچتے رہے کہ لواری سرنگ کیسے بنے؟ کون بنائے؟ سرمایہ کہاں سے آئے؟ وہ ساری ترقی جو اس برطانوی دور میں ہوئی وہ صرف مالیہ کی رقم اور اسی برصغیر کے وسائل سے ہوئی۔ سودی قرض کی لعنت ایسی ہے کہ آج ہم کئی اقسام کے ٹیکس عائد کرنے کے باوجود فاقہ زدہ، غریب،مفلوک الحال اور بدقسمت اقوام میں شمار ہوتے ہیں اور ہمیں بار بارمعیشت دان یہ یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر بینک، سود اور عالمی قرضہ جات کانظام ختم کردیا جائے تو زندگی تباہ ہو جائے۔ معیشت کا پہیہ رک جائے۔معیشت دانوں کا یہی علمی گورکھ دھندا ہے جو شکنجے کی طرح ہر قوم کے گلے میں پڑا ہے اور اس سے دنیا بھر کی اقوام کا خون چوس کر سود خور بینکاروں کے پیٹ بھرے جارہے ہیں۔