نوّے کی دہائی کا آغاز تھا۔ گجرات سے جنم لینے والا نیشنل انڈسٹریل کوآپریٹو بینک اپنی پوری آب و تاب سے چل رہا تھا۔ اچانک شہر میں افواہ پھیلی کہ بینک بند ہو رہا ہے۔ صبح سویرے اس بینک کی برانچوں کے باہر لوگوں کی لائنیں لگی ہوئی تھیں جو اپنی رقوم نکالنا چاہتے تھے۔ چند ایک چیک تو کیش ہوئے پھر بہانے شروع ہوگئے… کیش منگوایا ہے‘ ابھی آتا ہی ہوگا‘ ہیڈکوارٹر سے وین چل پڑی ہے۔ گیارہ بجے تک ملازمین بینک کو تالا لگا کر بھاگ گئے۔ یہ صرف ایک شہر میں پھیلی ہوئی چھوٹی سی افواہ کا نتیجہ تھا۔ لوگ صرف بینک سے اپنے کاغذ کے نوٹ مانگ رہے تھے لیکن دھوکے باز‘ جھوٹی اور فراڈ پر مبنی سودی بینکاری کی اوقات یہ تھی کہ صرف دو گھنٹے میں یہ عمارت زمین بوس ہو گئی۔ ابھی تو نوبت کاغذ کے نوٹوں تک پہنچی تھی جس پر یہ عبارت تحریر ہوتی ہے: ’’بینک دولت پاکستان ایک سو روپیہ‘ حاملِ ہٰذا کو مطالبہ پر ادا کرے گا۔ حکومت پاکستان کی ضمانت سے جاری ہوا‘‘۔ اس عبارت کے نیچے گورنر سٹیٹ بینک کے دستحط ثبت ہوتے ہیں۔ یعنی یہ ایک رسید ہے‘ ایک وعدہ ہے‘ ایک حلف نامہ ہے کہ اس کے بدلے میں جب اور جس وقت رسید کا حامل سونا‘ چاندی‘ اجناس یا جو چیز طلب کرے حکومتِ پاکستان اس کو ادا کرے گی۔ اس وقت ملک میں ایک ہزار سات سو ستتر ارب کے نوٹ گردش میں ہیں۔ اگر ایک صبح اٹھارہ کروڑ عوام کھڑے ہو کر یہ اعلان کر دیں کہ ہم ان ردی کے ٹکڑوں کو نہیں جانتے‘ تم نے اس پر جو تحریر لکھی ہے‘ جو وعدہ کیا ہے‘ جو اسٹامپ پیپر ہمیں دیا ہے‘ اس کے مطابق ہمیں ان کاغذوں کے بدلے سونا‘ چاندی یا کوئی بھی جنس جو تم بہتر تصور کرتے ہو‘ دے دو‘ تو صرف پانچ منٹ میں یہ سود اور کاغذ کے نوٹوں پر کھڑی عمارت دھڑام سے گر جائے گی اور اس کے ملبے کے نیچے جمہوری حکومت ہو یا آمریت سب دفن ہو جائیں گے۔ اس مکار‘ چالاک‘ فریبی اور لوگوں کو دھوکہ دینے کے اصولوں پر مبنی سودی بینکاری کے اس معاشی نظام پر ہم بیش بہا کتابیں لکھتے ہیں۔ اس کے مستحکم اور غیر مستحکم ہونے کے اصول وضع کرتے ہیں۔ معاشیات یعنی اکنامکس کا مضمون یونیورسٹیوں تک پڑھایا جاتا ہے۔ پندرہ بیس سالوں کی تعلیمی محنت میں انہوں نے یہ سمجھنے کی مہارت حاصل کی ہوتی ہے کہ یہ کاغذ کے اسٹامپ پیپرز جنہیں کرنسی نوٹ کہا جاتا ہے اور یہ بینکاری نظام کیا ہے؟ کیسے ناپا جائے کہ اس کاغذ کی قیمت اوپر ہو گئی ہے یا نیچے؟ افراطِ زر کی چڑیا کس گراف پر فراٹے بھرتی ہے؟ کرنسی کے نوٹ جو سٹیٹ بینک چھاپتا ہے ان سے دولت (Money) کیسے جنم لیتی ہے؟ بینک کیسے انہی نوٹوں کو اپنے کھاتوں میں دو گنا اور تین گنا کر لیتا ہے جسے M1 اور M2 کا نام دیا جاتا ہے؟ بینک دیوالیہ ہوجائیں تو اس سودی نظام کو بچانے کے لیے کیسے حکومت عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ انہیں دیتی ہے؟ کس طرح بینکوں کو بچانے کے لیے انہیں انشورنس کمپنیوں کے ذریعے آکسیجن فراہم کی جاتی ہے؟ عام آدمی کے پیسے سے ایک پورا متبادل نظام وضع کیا جاتا ہے کہ بینکوں کا سارا خسارہ ان انشورنس پالیسیوں سے پورا کیا جائے جو بینکوں نے خریدی ہوتی ہیں۔ لیکن اس نظام کے پیچھے ایک کاغذ ہے جس پر ایک چھوٹی اور بے سروپا عبارت تحریر ہے کہ ’’حاملِ ہٰذا کو مطالبے پر ادا کرے گا‘‘۔ دنیا کا کوئی بھی ملک امریکہ ہو یا برطانیہ‘ فرانس ہو یا جرمنی‘ بھارت ہو یا چین اپنا یہ لکھا ہوا وعدہ پورا نہیں کر سکتے۔ اس لیے کہ اس وعدے کی بنیاد ہی جھوٹ پر ہے۔ چند ماہ پہلے جب یونان میں معاشی بحران آیا تو لوگ بینکوں کے دروازوں پر نوٹ حاصل کرنے جمع ہو گئے۔ اس ملک کے تین شہر تو ایسے تھے کہ دکانداروں نے گاہکوں سے نوٹ لینے بند کر دیے اور کہا کہ گھر سے کوئی چیز بھی اٹھا لائو‘ ہم اس کے عوض سودا دے دیں گے لیکن اس بے کار‘ ردی کے ٹکڑے پر بھروسہ نہیں کریں گے جس پر ایک چھوٹی سی عبارت تحریر ہے۔ یہ ایک خون چوسنے والا اور ظالم نظام ہے۔ اس کے رکھوالوں نے گزشتہ پچاس برسوں سے یہ طرز عمل اختیار کیا ہے کہ عام آدمی کی بجائے حکومتوں کو قرض دو۔ عام آدمی مر بھی سکتا ہے‘ دیوالیہ بھی ہو سکتا ہے‘ وہ کاروبار میں نقصان اٹھانے لگے تو اسے رعایت بھی دینی پڑتی ہے اور اسے ساتھ ساتھ یہ پتا بھی چلتا رہتا ہے کہ اس نے پانچ لاکھ قرضہ لیا تھا اور اب تک پندرہ لاکھ ادا کرچکا ہے لیکن پھر بھی اس پر قرض باقی ہے۔ لیکن حکومت کو قرض دینا کتنا فائدے کا سودا ہے۔ حکومت ایک تو اربوں میں قرض لیتی ہے اور شرح سود بھی اچھی ملتی ہے۔ عوام نے جو پیسہ یا بچت بنکوں میں جمع کروائی ہوتی ہے یہ سودی بینکار حکومت کو اگر پندرہ فیصد شرح سود پر دیتے ہیں تو اس میں سے پانچ یا چھ فیصد اپنے پاس رکھ کر آٹھ یا نو فیصد سود لوگوں کو دے دیتے ہیں۔ لیکن ہوتا کیا ہے؟ حکومت یہ سود اور قرض کیسے واپس کرتی ہے؟ کوئی اے جی این قاضی ، شعیب ، شوکت عزیز ، حفیظ پاشا یا اسحاق ڈار انہی عوام پر ٹیکس لگاتا ہے۔ بجلی ، پٹرول ، گیس سب پر ٹیکس لگاکر پیسہ وصول کرتا ہے اور پھر انہی بنکوں کو لوٹا دیتا ہے جو اس سود کے کاروبار سے اس قوم کا خون چوس رہے ہوتے ہیں۔ جھوٹ اور فراڈ کا عالم یہ ہے کہ اس وقت 313 ارب روپے کے سونے کے ذخائر موجود ہیں اور اگر اس میں 4.6 ارب روپے کے سونے کے وہ ذخائر بھی شامل کرلیے جائیں جوانگلستان میں بنک آف انڈیا کے پاس پڑے ہیں جو 1947ء سے آج تک واپس ہی نہیں کیے گئے‘ تو یہ کل 318 ارب روپے کا سونا بنتا ہے۔ اس محدود سونے پر حکومت پاکستان نے جو رسیدیں یعنی کرنسی نوٹ جاری کیے ہیں اور جن پر لکھا کہ ’’ مطالبے پر ادا کرے گا‘‘ وہ ایک ہزار سات سو ارب کی مالیت کی ہیں۔ یہ تو سٹیٹ بنک کے نوٹوں کی کہانی ہے ۔ اس کے بعد سود خور بنکوں کا مرحلہ آتا ہے۔ بنکوں کو ایک خاص شرح ’’ریزرو‘‘ نوٹ رکھ کر مصنوعی دولت تخلیق کرنے (Artificial Credit Creation) کا اختیار ہے۔ اکتوبر 2007ء تک تمام بنک 7 فیصد نوٹ اپنے پاس رکھ کر باقی سرمایہ اپنی خط و کتابت یعنی Transaction سے دولت بنا سکتے تھے۔ لیکن نومبر 2012ء میں یہ شرح کم کرکے 3 فیصد کردی گئی اور یہ آج تک قائم ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ بنک اصل نوٹوں کے مقابلے میں چالیس گنا زیادہ سرمایہ تخلیق کرسکتے ہیں جسے معیشت کی زبان میں M2 کہتے ہیں۔ اس وقت اس سرمائے کی کل مقدار نو ہزار آٹھ سو اٹھائیس ارب روپے ہے ۔ کیا خوبصورت طریقہ ہے بنک کا! یہ کاغذ شوگرمل ، کھاد والے ، دوائیوں والے ، مشینری والے ، ملبوسات والے غرض مختلف ہاتھوں سے ہوتا ہوا گزرتا ہے اور ان میں نہ اصل نوٹ گھوم رہے ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کا کوئی متبادل ۔ لوگ اپنی مصنوعات خرید و فروخت کرتے ہیں لیکن بنک کو امیر سے امیر تر بناتے جاتے ہیں؛ یعنی اگر اس وقت اس ملک کے تمام کھاتے دار اپنے چیک لے کر بنکوں کے دروازے پر کھڑے ہوجائیں کہ ہماری رقم ہمیں واپس کر دو تو بنک ان کو وہ رسیدیں بھی نہیں دے سکتے جو حکومت جاری کرتی ہے جسے کرنسی نوٹ کہا جاتا ہے‘ اور اگر اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام اپنے ہاتھوں میں ایک ہزار سات سو ستر ارب کے نوٹ لے کر سٹیٹ بنک کے دروازے پر کھڑے ہوجائیں اور کہیں کہ اس پر لکھا ہوا اپنا وعدہ پورا کرو اور ہمیں اس کے بدلے میں سونا ، چاندی یا کوئی اور جنس ہی دے دو تو صرف چند منٹوں میں یہ پورا نظام زمین بوس ہوجائے گا۔ کوئی اس جھوٹ اور فراڈ کے خلاف ایسی تحریک نہیں چلاتا ، کوئی سیاسی پارٹی یہ نہیں کہتی کہ حکومت جو جھوٹ بول کر نوٹ چھاپ رہی ہے‘ اس رسید کو لینے سے انکار کردو اور اس کے بدلے میں کوئی جنس طلب کرو جس کا انہوں نے وعدہ کیا ہے۔ اس لیے کہ اس پورے سودی نظام کو تحفظ دینے کے لیے جمہوریت ، پارلیمنٹ اور اس طرح کے ادارے قائم کیے گئے جن کا کام ہی اس جھوٹ اور فراڈ کی معیشت کو سہارا دینا ہوتا ہے۔ یہ صرف پاکستان میں ہی نہیں دنیا کے ہر ملک میں ہے۔ پوری دنیا کے اربوں انسانوں کو اسی دھوکے ، فراڈ اور جھوٹی رسیدوں کے ذریعے پاگل بنایا گیا ہے۔ کس قدر بودا ، کمزور اور بے بنیاد ہے یہ پورا سودی نظام جسے صرف ایک گھنٹے کے اندر زمین بوس کیاجاسکتا ہے۔