اس امت کی آخری اجتماعی علامت خلافت عثمانیہ ختم ہو رہی تھی۔ امت رنگ، نسل، زبان اور علاقے کی بنیاد پر تقسیم کی جا رہی تھی۔ ایسے میں مسلمانانِ ہند وہ خوش قسمت قوم ہے جسے اللہ نے اقبال عطا کیا۔ ملت اسلامیہ کی گزشتہ ایک ہزار سال کی تاریخ میں اس سے توانا آواز نہیںگونجی۔ یہ توانا آواز کیوں ضروری تھی؟ اس لیے کہ اہل نظر جانتے تھے کہ اللہ کے آخری کلام قرآنِ حکیم کے مطابق یہ وہ زمانہ تھا جب یاجوج اور ماجوج کے لشکروں کو کھول دینے کا اذن ہو گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ سورۃ الانبیاء میں فرماتے ہیں: ’’اور طے ہو چکا ہے، اس بستی کے لیے جسے ہلاک کر دیا ہم نے کہ وہ نہیں پلٹ سکیں گے، یہاں تک کہ جب کھول دیے جائیں گے یاجوج اور ماجوج اور وہ ہر بلندی سے نکل پڑیں گے‘‘ (الانبیاء: 96,95)۔ یروشلم کی جس بستی کی ہلاکت کا اس آیت میں تذکرہ ہے، اس میں بنی اسرائیل کی واپسی جنگِ عظیم اوّل کے بعد شروع ہوئی اور دجالی نظام کے ہمرکاب یاجوج اور ماجوج اس دنیا پر اپنا نظام مسلط کرنے لگے۔ سیّدالانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی حدیث کے مصداق سب سے پہلی کڑی جو ٹوٹے گی وہ خلافت ہو گی، یعنی مسلمانوں کی مرکز یت کا خاتمہ ہو گا (مفہوم)۔ اسی دور میں خلافت عثمانیہ ٹوٹی۔ اسی زمانے میں دجّال کے اہم ترین ہتھیار ربا یعنی سود نے ایک منظم بینکاری کے نظام کی شکل اختیار کی۔ سیکولر قومی جمہوری ریاست کا تصور مضبوط ہوا اور اللہ کے اقتدار اعلیٰ کی جگہ ریاست کو اقتدار اعلیٰ کا درجہ حاصل ہو گیا۔ یہ سب اس خوبصورت طریقے سے ہو رہا تھا کہ کسی کو اندازہ تک نہ ہوا کہ اس کے بعد آنے والے دنوں میں ملتِ اسلامیہ، اسلامی نظام حکومت، سود کے بغیر معیشت اور قوانین اسلامی کے نفاذ کی بات کرنا ایسے ہو جائے گا جیسے کوئی احمقوں کی بستی میں رہتا ہو۔ جن تصورات پر امت تیرہ سو سال چلتی رہی انہی کو ناقابلِ عمل اور حقیقت سے دور قرار دے دیا جائے گا۔ یہی وہ وقت تھا جب اس امت کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اقبال جیسا تحفہ عطا کیا۔ سیّدالانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے مکتب فیض سے عشقِ رسولؐ میں ڈوبا ہوا یہ مرد قلندر امت کے لیے بشارتیں بھی دیتا رہا اور آنے والے وقت کے خطرات سے ڈراتا بھی رہا۔ یہ بلبلِ شیریں سخن، یہ فلسفیٔ بے مثال اور شاعرِ رنگین نوا کس دروازے کا گدا اور کس باغ کی بلبل تھا! اقبال نے اپنی شاعری کے آغاز ہی میں یہ معاملہ واضح کر دیا تھا۔ ان کی نظم ’’حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں‘‘ میں ایک خواب کا ذکر ہے جس میں اقبال نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے حضور اپنی ایک حاضری کا ذکر یو ںکیا ہے: گراں جو مجھ پہ یہ ہنگامۂ زمانہ ہوا جہاں سے باندھ کے رختِ سفر روانہ ہوا قیودِ شام و سحر میں بسر تو کی لیکن نظام کہنۂ عالم سے آشنا نہ ہوا فرشتے بزم رسالتؐ میں لے گئے مجھ کو حضور آیۂ رحمت میں لے گئے مجھے کو کہا حضور نے‘ اے عندلیبِ باغِ حجاز کلی کلی ہے تری گرمئی نوا سے گداز اس محفل میں اقبال کو سیّدالانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے جس لقب سے پکارا وہ تھا ’’عندلیبِ باغِ حجاز‘‘ یعنی ’’حجاز کے باغ کی بلبل‘‘۔ اقبال کا پورا کلام حجاز کی خوشبوئوں سے معطر ہے۔ ’’نغمہ ہندی ہے مگر لے تو حجازی ہے مری‘‘ یہ نظم اقبال کی ابتدائی نظموں میں سے ایک ہے، یہی وجہ ہے کہ اقبال اس دور میں جب ہندوستان کے گیت بھی لکھتے ہیں تو اس زمین سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی محبت کا تذکرہ یوں کرتے ہیں: ’’میرِ عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے‘‘۔ یا پھر یہ شعر: سالارِ کارواں ہے میرِ حجاز اپنا اس نام سے ہے باقی آرامِ جاں ہمارا اقبال کی زندگی کے آغاز اور آخر، دونوں سِروں پر دو نظمیں یا دو کلام ہیں۔۔۔ایک جس کا تذکرہ اوپر کیا گیا جس کا عنوان ’’حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں‘‘ ہے جو بانگ درا کی ابتدائی نظموں میں سے ایک ہے۔ دوسرے کلام کا نام بھی حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ یہ فارسی کے قطعات ہیں اور یہ ارمغانِ حجاز میں ہیں جو علامہ اقبال کے انتقال کے بعد شائع ہوئی۔ یہ قطعات اس وقت لکھے گئے جب اس عندلیب باغِ حجاز نے حجاز جانے کا قصد کیا اور اپنے آقا و مولا سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے حضور حاضری کے لیے تیاری شروع کی۔ اقبال کی یہ دیرینہ خواہش تھی۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں ’’ عندلیبِ باغِ حجاز‘‘ کے سینے میں جو تڑپ تھی وہ شدید ہو گئی تھی۔ لندن کی دوسری گول مینر کانفرنس میں شرکت کے لیے روانہ ہوئے تو 20 اگست1931ء کو پورٹ سعید پہنچے۔ عدن کی بندرگاہ پر کھڑے ہو کر ساحلِ عرب کو حسرت سے تکتے ہوئے اقبال اپنی کیفیت کو ایک خط میں یوں بیان کرتے ہیں: ’’اے عرب کی مقدس سرزمین، تجھ کو مبارک ہو۔ تو ایک پتھر تھی جس کو دنیا کے معماروں نے رد کر دیا تھا مگر ایک یتیم بچے نے خدا جانے تجھ پر کیا جادو کیا کہ موجودہ دنیا کی تہذیب و تمدن کی بنیاد تجھ پر رکھی گئی۔۔۔تیرے ریگستانوں نے ہزاروں مقدس نقشِ قدم دیکھے ہیں۔ کاش میرے بدکردار جسم کی خاک تیرے ریت کے ذروں میں مل کر تیرے بیابانوں میں اڑتی پھرے اور یہی آوارگی میری زندگی کے تاریک دنوں کا کفارہ ہو۔ کاش میں تیرے صحرائوں میں لٹ جائوں اور دنیا کے تمام سامانوں سے آزاد ہو کر تیری تیز دھوپ میں جلتا ہوا اور پائوں کے آبلوں کی پروا نہ کرتا ہوا اس پاک سرزمین میں جا سکوں جس کی گلیوں میں اذانِ بلالؓ کی عاشقانہ آواز گونجتی تھی‘‘۔ گول میز کانفرنس سے واپسی پر حرم کے سفر کی تیاری شروع کی تو سوچا، جب کسی کے گھر جاتے ہیں تو کوئی تحفہ لے کر جاتے ہیں، میرے دامن میں تو کچھ بھی نہیں۔ اسی کیفیت میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے سامنے نذارنے کے طور پر پیش کرنے کے لیے قطعات لکھنا شروع کیے جن کا عنوان’’ حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ رکھا۔ یہ تمام قطعات ایسے ہیں کہ ہر قطعے پر آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ دل طیبہ کی ہوائوں میں گم ہو جانے کو بے تاب ہو جاتا ہے اور ذہن حدود و قیود سے ماوراء عشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی سرمستی میں کھو جاتا ہے۔ کیا خوبصورت آغاز ہے: بایں پیری رہ یثرب گرفتم نوا خواں از سرودِ عاشقانہ چو آں مرغے کہ در صحرا سرِشام کشاید پر بہ فکرِ آشیانہ (میں نے اس بڑھاپے میں یثرب کی راہ اختیار کی ہے۔ عاشقانہ نوا خوانی کی مستی و سرور میں چلا جا رہا ہوں، اس پرندے کی طرح جو صحرا میں شام کے وقت اپنے گھونسلے کو لوٹنے کے لیے پر پھیلادیتا ہے) اس کے بعد کیفیتوں کی سرمستیاں ہیں، عشق کے ترانے ہیں اور مسلمانوں کی حالتِ زار پر سرکار دو عالمؐ سے صرف ایک درخواست کی گئی ہے۔۔۔’’نگاہے یارسول اللہ نگاہے‘‘ اور آخری شعر میں اقبال کی بے بسی ایک عاشق کی فریاد بن کر یوں گویا ہوتی ہے: دلے برکف نہادم دلبرے نیست متاع داشتم غارت گرے نیست درون سینۂ من منزلے گیر مسلمانے زمن تنہا ترے نیست ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم میں نے اپنا دل ہتھیلی پر رکھا ہے لیکن کوئی لے جانے والا نہیں، میرے پاس دولت تھی لیکن کوئی دولت لوٹنے والا نہ تھا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم آپ میرے سینے میں قیام فرمائیے، مسلمان ہوں، مجھ سے زیادہ تنہا اور کوئی نہیں ہے‘‘۔