تقریباً ایک سو سترہ سال قبل پوری دنیا پر حکومت کرنے کا منصوبہ ان لوگوں کی نظر میں ایک خواب نہیں تھا بلکہ ایک حقیقت تھی‘ جسے ایک دن پورا ہونا تھا۔ ایک ہزار سال تک دنیا بھر میں در بدر رہنے والی اس قوم کے تین سو کے قریب دانشور، مفکر، فلسفی اور ان کے مذہبی پیشوا، جنہیں ''ربّی‘‘ کہا جاتا ہے‘ سوئٹزرلینڈ کے شہر ''بال‘‘ میں جمع ہوئے۔ ان دانشوروں کا ہدف صرف ایک تھا کہ اس دنیا پر محسوس اور غیر محسوس طریقے سے کیسے مکمل طور پر اختیار حاصل کرنا ہے۔ ان سب نے مل کر ایک حکمتِ عملی ترتیب دی جسے آج کی دنیا ''پروٹوکولز‘‘ ''Protocols of the Elders of Zion'' کے نام سے جانتی ہے۔ یہ ایک خفیہ دستاویز تھی جس کا ایک نسخہ خفیہ تنظیم فری میسن کی ایک اعلیٰ عہدیدار خاتون کے گھر سے چوری ہو گیا اور 1902ء میں اس کے کچھ حصے روس کے دو اخباروں نے شائع کر دیے۔ اس کے بعد 1905ء میں یہ کتابی شکل میں سامنے آ گئی۔ اس سے قبل 1903ء میں اس کتاب کے مختلف زبانوں میں ترجمے بھی ہو چکے تھے۔ جب یہ دستاویز منظر عام پر آئی تو عام طور پر لوگ اسے دیوانے کا خواب سمجھتے تھے۔ کچھ بڑے بڑے عیسائی پادری اسے عیسائیت کے خلاف ایک سازش بھی گردانتے تھے۔ آج تک ان پروٹوکولز کے بارے میں بحث جاری ہے۔ کوئی اسے یہودیوں کے خلاف ایک سازش قرار دیتا ہے کہ اس کو بنیاد بنا کر ان کا یورپ اور خصوصاً جرمنی میں قتل عام کیا گیا، کیونکہ جب جرمنی کا جمہوری رہنما ''ہٹلر‘‘ عوام کی واضح اکثریت سے جیت کر برسر اقتدار آیا تو 1933ء میں اس نے اس دستاویز کو جرمنی کے سکولوں میں پڑھانے کے لیے لازمی قرار دے دیا، لیکن اس سے مختلف ایک رائے یہ ہے کہ یہودیوں نے ایک ہزار سال کی در بدری سے تنگ آ کر اپنے دفاع کے لیے اکٹھے ہونے اور دنیا پر حکومت کرنے کے خواب دیکھے اور ان کی تعبیر ڈھونڈی۔ عموماًکہا جاتا ہے کہ یہ اجلاس 1896ء یا 1897ء میں منعقد ہوا تھا، جس میں دنیا پر محسوس اور غیر محسوس طریقے سے غلبے کا خواب یا حکمت عملی مرتب کی گئی تھی اور طے کیا گیا تھا کہ ایک سو سال کے اندر ہم نے اپنے ہدف کو پورا کر لینا ہے۔ آج کی دنیا یعنی سو سال بعد 1996ء یا 1997ء کی دنیا ہم سب کے سامنے ہے اور تھوڑی سی سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی کتنی آسانی سے اس بات کا اندازہ لگا سکتا ہے کہ آج پوری دنیا پر ایک غیر محسوس اور محسوس دونوں طریقے سے یہود کا قبضہ مکمل ہو چکا ہے۔ اس لیے وہ تصور کہ یہ دستاویز جعلی اور من گھڑت تھی اور اسے روس اور جرمنی کے یہود دشمن طبقات نے ان کے قتل عام کا بہانہ بنانے کے لیے تیار کیا تھا، اب دم توڑ چکا ہے اور آج کی دنیا اس بات پر تحقیق کر رہی ہے کہ یہ منصوبہ ساز ذہن کس بلا کے تھے اور انہوں نے ایک طویل مدتی حکمت عملی کو کیسے قابل عمل بنایا اور کس طرح اس پر عمل درآمد کیا۔ اس دستاویز میں کل چوبیس پروٹوکول ہیں۔ ہر ایک پروٹوکول ایک علیحدہ شعبے کے بارے میں علیحد ہ دستاویز ہے۔ پہلا پروٹوکول بنیادی نظریے کی وضاحت کرتا ہے اور دوسرا پروٹوکول اس حکمت عملی کی بنیادی تصویر (Outline) بتاتا ہے اور ان اداروں کا ذکر کرتا ہے جن کو ہاتھ میں لے کر دنیا کا اقتدار حاصل کرنا ہے۔ اس دوسرے پروٹوکول میں سب سے زیادہ ذکر پریس اور میڈیا کا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں: '' آج کے دور میں ریاستوں کے پاس ایک ایسی قوت ہے جو لوگوں کے ذہنوں میں خیالات پیدا کرتی اور انہیں آگے بڑھاتی ہے۔ یہ پریس کی قوت ہے۔ پریس کا اصل کردار یہ ہے کہ ناگزیر ضروریات کی نشاندہی کرتا ہے، عوام کی شکایات اور تکالیف کو سامنے لاتا ہے۔ یہ بے اطمینانی اور بے چینی کی فضا بھی پیدا کرتا ہے اور اس کی تشہیر بھی کرتا ہے۔ یہ پریس ہی تو ہے جس کے ذریعے آزادیٔ تقریر کا عملی اظہار ہوتا ہے۔ غیر یہودی ریاستیں چونکہ اس طاقتور حربے کے استعمال سے ناآشنا اور بے بہرہ ہیں، لہٰذا یہ طاقت کلی طور پر ہمارے ہاتھ آ چکی ہے۔ پریس کی وجہ سے ہم خود پسِ پردہ رہ کر غیر یہود عوام پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اسی کے ذریعے ہم سونے جیسی قیمتی دھات پر قابض ہوئے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اسے حاصل کرنے کے لیے خون اور آنسوئوں کے سمندر سے گزرنا پڑا ہے، اپنے بہت سے عزیزوں کی قربانی دی ہے، لیکن اس سے ہمیں بے بہا فائدہ بھی پہنچا ہے۔ یاد رکھیے کہ ہمارا ہر فرد ظلم و ستم کا نشانہ بنا ہے۔ خدا کی نظروں میں ہمارا ایک فرد ہزار غیر یہودی افراد کے برابر ہے‘‘۔
میڈیا اور اس کے ذریعے دنیا کی تسخیر ایک ذریعہ ہے جسے پروٹوکول کے ابتدائیہ ہی میں تسلیم کر لیاگیا تھا۔ لیکن بارہواں پروٹوکول مکمل طور پر پریس کی طاقت اور قوت کے استعمال کے بارے میں تحریر کیا گیا ہے۔ یہاں اس باب میں درج اہم سطور دیکھیے اور حیران رہ جائیے کہ ایک صدی پہلے دیکھا جانے والا یہ خواب اب کیسے حقیقت بن چکا ہے: '' ہم میڈیا کے سرکش گھوڑے پر سوار ہو کر اس کی باگ کو اپنے قبضے میں رکھیں گے، ہم اپنے دشمنوں کے قبضے میں کوئی ایسا موثر اور طاقت ور اخبار نہیں رہنے دیں گے کہ وہ اپنی رائے کو موثر ڈھنگ سے لوگوں کو بتا سکیں اور نہ ہی ہم ان کو اس قابل چھوڑیں گے کہ ہماری نگاہوں سے گزرے بغیر کوئی خبر لوگوں تک پہنچ سکے۔ ہمارے قبضے میں ایسے اخبارات و رسائل ہوں گے جو مختلف گروہوں کی تائید و حمایت حاصل کریں گے۔ خواہ یہ جماعتیں جمہوریت کی علمبردار ہوں یا انقلاب کی داعی۔ حتیٰ کہ ہم ایسے اخبارات کی بھی سرپرستی کریں گے جو انتشار و بے راہ روی، جنسی و اخلاقی انارکی یہاں تک کہ ظالم و جابر حکومتوں اور ڈکٹیٹروں اور آمروں کا دفاع اور حمایت کرتے ہوں گے۔ ہم اس انداز اور اسلوب سے خبروں کو پیش کریں گے کہ قومیں اور حکومتیں ان کو قبول کرنے پر مجبور ہو جائیں گی۔ ہم یہودی ایسے دانشوروں، ایڈیٹروں اور نامہ نگاروں کی حوصلہ افزائی کریں گے جو بدکردار ہوں اور خطرناک مجرمانہ ریکارڈ رکھتے ہوں۔ ہم ذرائع ابلاغ کو خبر رساں ایجنسیوں کے ذریعے کنٹرول کریں گے۔ ہم دنیا کو جس رنگ کی تصویر دکھانا چاہیں گے وہ پوری دنیا کو دیکھنا ہو گی‘‘۔
ان اہداف پر غور کریں اور پھر آج دنیا بھر کے میڈیا پر ایک نظر دوڑائیں تو آپ کو یہ بات سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی کہ یہ تمام اہداف حاصل ہو چکے ہیں۔ اس وقت دنیا کا 97 فیصد میڈیا تین بڑی کمپنیوں کی ملکیت ہے اور یہی میڈیا باقی چھوٹے چھوٹے میڈیا ہائوسز کا رخ متعین کرتا ہے۔ آج کا دور وہ زمانہ ہے کہ سیدالانبیاء ﷺ نے جس کے بارے میں خبر دی تھی، وہ دور کہ جس کے بارے میں آپ کے فرمان کے مطابق اسلام اجنبیت میں چلا جائے گا۔ صحیح مسلم کی اس حدیث حسن کے الفاظ یہ ہیں: حضرت عبداللہ ابن عمر نے نبی کریم ﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہوئے فرمایا کہ '' اسلام کی ابتداء بھی اجنبیت کی حالت میں ہوئی تھی اور عنقریب دوبارہ اجنبیت کی حالت کی طرف لوٹے گا‘‘۔ یہ اجنبیت کیوں ہے؟ یہ بے نام و نشاں ڈیڑھ ارب سے زیادہ مسلمان کس لیے دربدر ہیں؟ اس لیے کہ آج کے دور کے سرکش گھوڑے کی لگامیں ان کے ہاتھ میں ہیں جو ہمیں روندنے کا عزم رکھتے تھے اور اسے پورا کر رہے ہیں۔ لیکن یہ ڈیڑھ ارب سے زیادہ بے نام و نشاں مسلمان اس سرکش گھوڑے کی ٹاپوں تلے مسلے جانے کے بعد بھی اسی گھوڑے سے توقع رکھتے ہیں، اسی سے گلہ کرتے ہیں، اسی کو کہتے ہیں کہ ہمارا سچ بھی دکھائو۔ ایسا نہیں ہو گا، ہرگز نہیں ہو گا۔ یا تو اس سرکش گھوڑے کی باگ اپنے ہاتھ میں لے لو یا پھر اس کے مقابل اپنا '' اسپ تازی‘‘ لے کر میدان میں نکلو۔