"OMC" (space) message & send to 7575

ذات الٰہی اور قرآن کا تصور عذاب

انسانی ذہن کا کمال یہ ہے کہ وہ اس وسیع و عریض کائنات میں اسی بات کو سچ مانتا ہے جو اس کے فہم و ادراک کے دائرے میں آتی ہے۔موجودہ سیکولرازم کی بنیاد دو اصولوں پر ہے۔ پہلا سائنسی سچائی (Scientific Truth) اور دوسرا یہ کہ ہر واقعہ اپنے پس منظر میں کوئی نہ کوئی محرک رکھتا ہے جسے علت و معلول (Cause and Effect) کا اصول کہا جاتا ہے۔ جہاں تک سائنسی سچائی اور حقیقت کا تعلق ہے تو اس کا عالم یہ ہے کہ ایک صدی تک نصاب میں پڑھائے جانے والے سائنسی اصول،کلیے اور قانون اگلی صدی میں سفید جھوٹ کی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں، لیکن ماہرین سائنس انہیں سچائی کے طور پر حصولِ علم میں سرگرداں لوگوں کو پڑھاتے رہتے ہیں۔ دوسرا اصول یہ ہے کہ ہر واقعہ کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے۔ سمندر سے بخارات اڑتے ہیں، بادل بنتے ہیں اور بارش برستی ہے۔ بیج بویا جاتا ہے، پانی دیا جاتا ہے تو فصل اگتی ہے۔ پہاڑوں میں موجود معدنیات پانی کو گرم یا زہریلا کرتی ہیں، زمین کے اندر لاوا نرم سطح سے ابلتا ہے، مختلف براعظموں کی پلیٹیں مستقل حرکت میں ہیں اور ان کی حرکت سے زلزلہ آتا ہے۔ جراثیم اور وائرس سے مختلف بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ جہاں کہیں معاملہ سمجھ سے بالاتر ہو جائے اسے ایک لاینحل سوال (Mystry) کہہ کر دعویٰ کیا جاتا ہے کہ انسان کی جستجو جاری ہے اور ایک دن وہ اس راز کو بھی پا لے گا۔ یہ ہے وہ بنیاد اور تصور جس کی متعین حدود کے اندر یہ لوگ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات کو کھینچ کر لاتے ہیں۔ جبکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا دعویٰ ہے کہ وہ خالقِ اسباب ہے۔ وہ ''باری‘‘ ہے یعنی ایک ایسا مصّور یا تخلیق کار جس کے پاس اسباب نہ ہوں‘ تو بھی وہ خلق کرتا ہے۔ 
دنیا کا ہر خالق اسباب کا محتاج ہے لیکن اللہ اسباب خود تخلیق کرتا ہے۔ اللہ کی کائنات کے رازوں کو جاننا اللہ کے نیک بندوں کی صفات میں سے ہے‘ لیکن اس کائنات کے رازوں کو جاننے کا مقصد معرفتِ الٰہی کے لیے ہونا چاہیے۔ اللہ فرماتا ہے: ''جو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے ہوئے ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر غور کرتے ہیں اور پھر پکار اٹھتے ہیں‘ اے پروردگار تو نے یہ سب کچھ باطل پیدا نہیں کیا (آل عمران:191)۔ یہ ہے کائنات کے رازوں کو جاننے کا مقصد کہ جوں جوں اس کی نعمتوں کا ادراک کرو‘ اللہ کی بڑائی آپ پر واضح ہو۔ لیکن موجودہ تمام تر سیکولر علم کی بنیاد یہ ہے کہ جوں جوں علم میں اضافہ ہوتا ہے، اس پر انسان کی بڑائی کا خمار چڑھتا چلا جاتا ہے اور وہ پکار اٹھتا ہے: ''انسان عظیم ہے یا خدا‘‘۔ اسی طرح انسان نے زندگی گزارنے کے جو اصول وضع کیے ہیں اور جو ادارے بنائے ہیں وہ اللہ کو بھی ان اصولوں کی کسوٹی پر پرکھتا ہے۔ مثلاً وہ عادل رب کو چیف جسٹس کی کرسی پر بٹھاتا ہے اور اس کو وہی اختیارات دینا چاہتا ہے جو چیف جسٹس کو آئین کے تحت حاصل ہیں‘؛حالانکہ اللہ تو گناہوں کو نیکیوں میں بدلنے، گناہوں کو چھپانے، تمام گناہوں کو معاف کرنے والا ہے۔ ایسا تو کسی آئین کے مطابق ممکن ہی نہیں۔ اس کے ہاں تو ایک سچی تو بہ انسان کو صاف شفاف کر دیتی ہے۔ اسی لیے یہ لوگ جب اللہ کے تصورِ عذاب کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو اسے ایک چیف جسٹس کی کرسی پر لابٹھاتے ہیں اور پھر یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ ایسا عذاب نازل کرے جس میں بے قصور بچ جائیں اور قصور وار سزا پائیں۔ یہ قرآن اور اللہ کے بتائے ہوئے اصولوں سے بالکل الٹ تصور ہے۔ اللہ نے یہ دنیا فیصلوں کے لیے نہیں بلکہ امتحان کے لیے بسائی ہے اور فیصلے کے لیے روزِ قیامت مقرر ہے۔ جزا اور سزا کے سب فیصلے وہیں ہوں گے جہاں کوئی گروہ، خاندان ، سیاسی پارٹی ، مذہبی جماعت، مسلکی گروہ اکٹھا پیش نہیں ہوگا۔ ''اور ان میں ہر شخص قیامت کے دن اللہ کے حضور پیش ہوگا فرداً فرداً‘‘۔ (مریم:95) پھر وہ اس دنیا میں قوموں پر عذاب کیوں نازل کرتا ہے؟ اس عذاب کا فلسفہ اللہ خود قرآنِ پاک میں بیان فرماتا ہے: ''اور ہم انہیں لازماً مزہ چکھائیں گے چھوٹے عذاب کا بڑے عذاب سے قبل، شاید کہ یہ رجوع کرلیں‘‘۔(السجدہ:21) یہاں اللہ کسی فرد پر علیحدہ عذاب نازل نہیں کرتا بلکہ پورے گروہ یا قوم میں سے کسی کو استثنیٰ نہیں ہوتا۔ وہ فرماتا ہے: ''اور ڈرو اس وبال سے جو تم میں سے صرف ظالموں کو ہی لاحق نہیں ہوگا‘‘۔(الانفال:25) یہ بھی اسی کا اختیار ہے کہ وہ کبھی کبھی نیک لوگوں کو اپنے عذاب سے خاص طور پر محفوظ رکھتا ہے اور اس میں بھی صرف ا یسے لوگوں کو اللہ بچاتا ہے جو لوگوں کو برائی سے روکتے رہتے تھے۔'' ہم نے بچالیا ان لوگوں کو جو برائی سے روکتے تھے‘‘۔(الاعراف:165) اس آیت کے آغاز میں اللہ ان لوگوں کا بھی ذکر کرتا ہے جو لوگوں کو کہتے تھے: ''تم ان لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ ہلاک کرنے والا ہے یا سخت عذاب دینے والا ہے‘‘۔(آلِ عمران:164) یعنی وہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ خاموش بیٹھو، اللہ خود ان کو دیکھ لے گا۔ اللہ نے ان خاموش رہنے والوں کو بھی عذاب میں مبتلا کر دیا۔ 
برائی سے روکنے والوں کا استثنیٰ بھی اللہ کا اپنا فیصلہ ہے، وہ چاہے تو بچائے اور چاہے تو ہلاک کر دے‘ اس لیے کہ موت صرف ایک عالم سے دوسرے عالم کی طرف منتقلی کا نام ہے اور روزِ قیامت عذاب کے دوران ہلاک ہونے والے فرداً فرداً پیش ہوں گے۔ جس کے اعمال اچھے ہوں گے وہ جنت میں جائے گا اور جس کے اعمال بُرے ہوں گے وہ جہنم کا مزا چکھے گا۔ یہ ہے وہ فلسفہ جس کے تحت اللہ لوگوں کو جھنجھوڑنے اور اپنی جانب لوٹ آنے کے لیے عذاب نازل کرتا ہے۔ اس کے نزدیک چھوٹی سے چھوٹی پریشانی سے لے کر بڑی سے بڑی مصیبت اس کی جانب سے نازل ہوتی ہے تا کہ انسان اسے یاد کرے اور آخرت میں سرخرو ہو۔ وہ تو کسی ظالم بادشاہ کو بھی اپنا عذاب ہی کہتا ہے اور پھرقوموں کو یاد دلاتا ہے کہ میں نے اس ظالم سے تمہیں نجات دلائی ''جب ہم نے تم کو فرعون کے لوگوں سے نجات دی جو تمہیں بڑا عذاب دیتے تھے‘ تمہارے بیٹوں کو ذبح کرڈالتے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رکھتے، یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر بڑی بلا (امتحان ) تھی‘‘۔ (البقرہ 49) لیکن علت ومعلول اور سائنسی سچائی کو حرف آخر سمجھنے والے انہیں دنیا کے عوامل سمجھتے ہیں۔ اسی لیے جب کہا جاتا ہے کہ عذاب میں اللہ کی طرف رجوع کرو، اس سے اجتماعی استغفار کرو تو اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ لیکن میرا اللہ تو حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کی مثال دے کر شدید خواہش کا اظہار کرتا ہے کہ قومیں اس سے اجتماعی توبہ کریں۔ یونسؑ کی قوم اجتماعی طور پر اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوگئی تھی اور اللہ نے عذاب ٹال دیا تھا۔ اللہ فرماتا ہے:'' بھلا کوئی بستی ایسی کیوں نہ ہوئی کہ ایسے وقت ایمان لے آتی کہ اس کا ایمان اسے فائدہ پہنچا سکتا۔ البتہ صرف یونس ؑ کی قوم کے لوگ ایسے تھے۔ جب وہ ایمان لائے تو ہم نے دنیوی زندگی میں رسوائی کا عذاب ان سے اٹھالیا اور ان کو ایک مدت زندگی کا لطف اٹھانے دیا‘‘۔(یونس98) یہ ہے قوموں اور نبیوں سے اللہ کی شدید خواہش۔ اللہ کی اسی خواہش پر سیدالانبیاءﷺ اور ان کے ساتھیوں نے عمل کیا۔ اگر کچھ عرصہ بارش نہ برستی تو پوری اُمت شہروں سے باہر نکل آتی اور بارش کے لیے رورو کر نماز استسقاء ادا کرتی ۔ نماز استسقاء کیا ہے؟ اجتماعی استغفار ہی تو ہے۔ آپس میں لڑائی شروع ہوتی تو سورہ الحجرات کی 9ویں اور 10ویں آیات کے مطابق اللہ کے حکم کو سامنے رکھتے ہوئے مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح کی کوشش کی جاتی‘ خواہ اس میں سیدناامام حسنؓ کو خلافت سے دستبردار کیوں نہ ہونا پڑتا ، اس لیے کہ وہ سمجھتے تھے کہ اللہ گروہوں میں تقسیم ہونے کو بھی اپنا عذاب بتاتا ہے۔ ''کہو‘ وہ اس بات پر قدرت رکھتا ہے کہ کوئی عذاب تم پر اوپر سے بھیجے یا تمہارے پائوں کے نیچے سے نکال دے یا تمہیں مختلف ٹولیوں میں بانٹ کر ایک دوسرے سے لڑا کر ایک دوسرے کی طاقت کا مزا چکھائے‘‘۔(الانعام:65) اسی لیے انہوں نے اللہ کے احکامات کی جانب رجوع کیا۔ سیدہ عائشہ ؓ کا عمر بھر کا پچھتاوا اور حضرت علیؓ کا قرآن کو حکم مان کر صلح پر آمادہ ہونا۔ہاںجب امت نے یہ روش ترک کی تو خون میں نہاتی رہی۔ اجتماعی استغفار کی اللہ کی شدید خواہش سے انکار کی اور کیا وجہ ہوسکتی ہے‘ سوائے اس کے کہ ہمیں ہمارا اکڑا ہوا سر اور تنی ہوئی گردن لوگوں کے سامنے ہمیںاللہ کے حضور جھکنے نہیں دیتی۔ لوگ کیا کہیں گے؟ کس قدر احمق ہے، غیر سائنسی، جاہل، بھلاقتل وغارت بھی اللہ کے حکم سے رکتے ہیں، بھلا ا من و امان بھی اللہ قائم کرتا ہے، بھلا معاشی ترقی بھی ا للہ کے حکم سے ہوتی ہے؟ بے وقوف، جاہل، کس لائن میں جا کر کھڑا ہو گیا ہے؟ تم نے تو پڑھ لکھ کر غارت کردیا ہے، لیکن میرے اللہ نے اپنے پیارے رسولﷺ کے ذریعے '' سورۃالقریش‘‘ میں جب قریش کو کعبے کے رب کی عبادت کے لیے پکارا تو دو بلند بانگ دعوے کیے: ہم نے تمہیں بھوک میں کھانا کھلایا اور خوف میں امن دیا‘ لیکن ان لوگوں کے نزدیک یہ کتنی غیر سائنسی بات ہے! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں