وہ قوم جو اس کائنات میں اللہ کی فرمانروائی کا اقرار تو کرتی ہو لیکن اس کے ہر دشمن کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہونے میں شرم محسوس نہ کرتی ہو، جسے اللہ کی طاقت سے ر یاست کی طاقت پر زیادہ یقین ہو، جو تدبیرکو تقدیر پر مقدم جانتی ہو، جسے اسباب و علل پر اس قدر یقین ہو کہ کسی کام میں اللہ سے مدد طلب کرنا اپنی توہین سمجھتی ہو، اگر کوئی اسے یہ سمجھانے چلے کہ یہ سب فساد جو برپا ہے تمہارے اعمال کا نتیجہ ہے تو اس قوم کے افراد زورکا قہقہہ لگائیں گے اور کہیں گے کہ یہ تو ہمارے درمیان کچھ فسادی گروہ ہیں جنہیں درپردہ حکومتوں کی پشت پناہی حاصل رہی ہے۔ ان میں سے کچھ اسے عالمی طاقتوں کا کھیل بتائیں گے، کسی کو ریاست کی کمزوری نظر آئے گی اور کوئی اسے گزشتہ کئی برسوں کی پالیسیوں کا تسلسل کہے گا۔
لیکن اب لگتا ہے یہ سب بحثیں ختم ہونے والی ہیں۔ ہم سب ایک ایسے وقت میں داخل ہو چکے ہیں جس کے بارے میں اللہ نے ارشاد فرمایا تھا: ''خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا ہے اور یہ ان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے تاکہ ہم مزا چکھائیں ان کو ان کے بعض اعمال کا تاکہ وہ باز آ جائیں‘‘ (الروم 41:30) یہاں باز آ جانے کا مطلب اللہ کی جانب لوٹ آنا ہے۔ اللہ نے جہاں کہیں بھی قوموں پر مختصر عذابوں کا ذکر کیا، اس کا مقصد یہی بتایا کہ وہ انہیں جھنجھوڑتا ہے تاکہ وہ اللہ کی طرف رجوع کر لیں، اس سے مدد کے طلب گار ہوں، اس سے معافی مانگیں اور بے شک وہ بہت ہی رحیم اور معاف کرنے والا ہے۔ لیکن ہم اس سے نہ رحمت کی امید لگاتے ہیں اور نہ معافی کے طلب گار ہوتے ہیں۔ ایسے میں اس کے اٹل فیصلے صادر ہو جایا کرتے ہیں۔ برسوں سے ہم مہلت کی حالت میں تھے، لیکن لگتا ہے مہلت کے دن ختم ہو گئے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی علامات ہمارے تعصبات، ہماری انائیں، مادی وسائل پر اعتماد اور باہمی اختلافات ہیں جو ہمیں اس مقام پر لے آئے ہیں کہ کوئی راستہ سجھائی نہیں دیتا، کوئی حل نظر نہیں آتا، ایک اندھیری بند گلی ہے جس میں خوف، سناٹا، خون اور چیخ پکار ہے۔ نہ واپس پلٹنے کا ارادہ اور نہ ہی آگے بڑھنے کا کوئی راستہ۔
ہمیں راستہ کیوں دکھائی نہیں دے رہا؟ یہ سوال اس قوم کا ہر شہری اپنے آپ سے بھی کر رہا ہے اور ایک دوسرے سے بھی۔ ہر شہری مایوس بھی ہے اور خوفزدہ بھی۔ اسے مایوس اور خوفزدہ کرنے والے بہت ہیں۔ ہر روز اسے نفسیاتی بیمار بنانے والی تحریریں لکھی جاتی ہیں، ٹیلی ویژن کے ٹاک شوز میں فریقین باہم دست بگریبان ہوتے ہیں۔ کس قدر بدقسمتی کی بات ہے کہ ان سب لوگوں نے اس ملک کو ہیجان کی کیفیت میں مبتلا کیا اور اب ان میں سے ہر ایک، دوسرے پر الزام کا ملبہ پھینکتا ہے۔ گروہوں میں تقسیم در تقسیم یہ قوم اپنے تعصبات کا ایک راستہ دیکھنے کی عادی ہو چکی ہے اور وہ راستہ ہے ریاست کی طاقت کا۔
مدتوں پہلے جب بلوچستان میں تحریکوں کا آغاز ہوا (یہ ساٹھ کی دہائی تھی) ہر کسی کو ایک قومی سوشلسٹ انقلاب کے خواب نظر آنے لگے، بہت سے سردار اور ملک حکومت کے خیر خواہ ہو گئے، حکومتی مراعات نے ان کے اثرورسوخ کا تحفظ شروع کر دیا۔ صوبے میں قومی تحریکوں نے ہتھیار اٹھائے تو ان مراعات یافتہ طبقوں کا ایک ہی مطالبہ تھا۔۔۔ ریاست ان باغیوںکا قلع قمع کیوں نہیں کرتی؟ یہ سب ڈاکو، چور اور مفرور ہیں جو ان قوم پرستوں کے ساتھ اکٹھے ہو گئے ہیں، ریاست اپنی رٹ قائم کرے۔ اس کے بعد یہ رٹ چار بار قائم کرنے کی کوشش کی گئی۔ ہر بار امن قائم کرنے کا دعویٰ، ہر بار ریاست کا غلبہ اور دشمنوں کا صفایا، لیکن آگ سلگتی رہی، راکھ میں چنگاریاں موجود رہیں اور آج یہ چنگاریاں اتنی بڑی آگ بن چکی ہیں کہ ریاست بے بس نظر آتی ہے۔
ریاست کب بے بس ہوتی ہے؟ ریاست کیوں بے بس ہوتی ہے؟ ریاست اس وقت بے بس ہوتی ہے جب اسے قتل و غارت کے پس منظر میں کسی نظریے کا سامنا کرنا پڑ جائے۔ انسانی تاریخ بڑی ظالم ہے۔ انسان نے ہر دور میں اپنی کسی نہ کسی محبت کے لیے بے گناہ انسانوں کا خون بہایا ہے۔ اس کے لیے صرف اور صرف مذہب یا آخرت کی سرخروئی ضروری نہیں ہوتی۔ مائوزے تنگ جب چند لاکھ لوگوں کو لے کر لانگ مارچ کرنے نکلا تو وہ ایک ارب چینی عوام پر اپنی مرضی کی''کمیونسٹ شریعت‘‘ نافذ کرنا چاہتا تھا، چیانگ کائی شیک کی حکومت کو امریکہ کی مالی اور فوجی امداد میسر تھی۔ لانگ مارچ میں مرنے والوں کے لیے آخرت میں کوئی اجر، جنت یا حوروں کا وعدہ شامل نہ تھا، لیکن ریاست اپنی ناکامیوں کا منہ چاٹتی رہ گئی۔ یہی حال روس میں زارِ روس کے ان دستوں کا ہوا جو خاص طور پر یورپ کے جنگجو قبائل سے چن کر بنائے گئے تھے۔ لینن اور ٹراٹسکی کے ہمراہ بھی معدودے چند لوگ تھے جو روس میں اپنی مرضی کا نظام اور اپنی مرضی کی ''کمیونسٹ شریعت‘‘ کا نفاذ چاہتے تھے۔ کسی بھی ملک میں یہ مکمل طور پر کچلے نہیں گئے۔ پورے جنوبی امریکہ میں گوریلے مدتوں ریاست کی فوجوں سے لڑتے رہے، کتنے ملک تھے جو ان گوریلوں کو امریکی امداد سے کچلنے کی کوشش کرتے رہے۔ پہاڑوں، دریائوں، جنگلوں میں ان کے ساتھ مقابلہ رہا لیکن ان سب نے اس قتل و غارت کا جواز ایک نظریے میں ڈھونڈا ہوا تھا اور وہ نظریہ تھا۔۔۔ ''کمیونزم کا نفاذ‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ ان تمام ریاستوں نے‘ جو جنوبی امریکہ میں واقع تھیں‘ ان سب گوریلوں کو اپنے ساتھ بٹھا کر معاملہ طے کیا۔ کہا جاتا ہے کہ سری لنکا میں ریاست نے کمال کر دکھایا۔ وہاں تامل ایک قابل شناخت آبادی تھی، ان کا رہنا سہنا، اٹھنا بیٹھنا اور زبان تک علیحدہ تھی۔ ان کے مقابلے میں جو دوسری قوم اکثریت میں تھی وہ متحد تھی اور وہ جنگ کر کے انہیں ختم کرنے کے لیے تیار تھی۔ لیکن جہاں قتل و غارت اور لوٹ مارکو ایک نظریے کی بنیاد فراہم کر دی جائے، یہ ملکی آبادی کے ہر طبقے میں پھیل جاتی ہے، کمیونسٹ گوریلے ایک رنگ، ایک نسل اور ایک زبان کے لوگ نہیں ہوتے تھے، ان کے ٹھکانے بھی ایک علاقے میں نہیں تھے، یہی وجہ ہے کہ یا تو انہوں نے ملکوں پر قبضہ کر لیا اور ریاست کو شکست دے دی یا پھر ریاست نے ان سے گفتگو کے بعد امن قائم کیا۔
تاریخ کا یہ سبق پاکستان میں ہر کسی نے پڑھا ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ چلی، ہنڈراس، ارجنٹائن اور کولمبیا جیسے ملکوں میں فوج اور پولیس کے لوگ بھی مر رہے تھے، عوام بھی قتل ہو رہے تھے لیکن ریاست نے عوام کے مفاد اور امن کی خواہش میں ان گوریلوں سے مذاکرات ختم نہ کیے۔ ہم میں سے ہر دانشور نے یہ تا ریخ پڑھی ہے لیکن ہمارا تعصب ہمیں یہ مشورہ دینے پر مجبور نہیں کرتا۔ ہماری نفرت چاہتی ہے کہ یہ جنگ و جدل ایسے ہی جاری رہے۔ ریاست کی طاقت کے استعمال کے علم بردار کون ہیں؟ ایک طبقہ وہ ہے جو گزشتہ پچاس برس سے فوج کو گالی دیتا آ رہا ہے، جس نے بلوچستان سے لے کر مشرقی پاکستان تک ہر جگہ فوج اور ریاست کی طاقت کے استعمال کو ناجائز قرار دیا اور فوج کو مطعون کیا۔ آج یہ سب کے سب ریاست کے استعمال اور فوج کے حق میں آواز بلند کر رہے ہیں۔ دوسرے وہ ہیں جن کا مسلکی اختلاف اپنی نفرت کا سارا زورآپریشن پر لگا رہا ہے تاکہ جو قتل و غارت کی خواہش ان کے دلوں میں امڈتی ہے وہ ریاست یا فوج پوری کر دے۔ ایسے میں میڈیا کے دانشور اس آگ اور کشت و خون کا منظرنامہ دیکھنے کی طلب میں بوڑھے ہو چکے ہیں۔
لیکن شاید اب قضا و قدرکے فیصلے یہ منظر دکھانا چاہتے ہیں۔ صاحبان نظر خوابوں میں ایک ایسی خونریزی دیکھ رہے ہیں جس میں نہ مسجدوں کے عمامے بچیں گے اور نہ سیاست دانوں کے سروں کے تاج۔ زمین اپنی جنبش کے لیے تیار ہے۔ ایک صاحب نے کہا سب الٹ جائے گا، جو پست ہیں وہ بلند اور جو بلند ہیں وہ پست ہو جائیں گے۔ ریاست کی طاقت والے بھی اس کا مزہ چکھ لیں گے اور فتنہ و فساد والے بھی ۔۔۔ رہے نام اللہ کا جو یہ سب اس لیے برپا کرتا ہے کہ آپ اس کی جانب لوٹ جائو، جو بچ نکلے گا وہی اس ملک کا امین ہو گا۔