"OMC" (space) message & send to 7575

صبر آزما امن کی راہ

وہ ایک انتہائی مقبول شاعر اور موسیقار تھا ، اس کے ساتھ ساتھ وہ شوقیہ مصوری بھی کرتا تھا ، لیکن اس کی شہرت کی اصل وجہ اس کی مشہور نظم''Confesión de un Soldado‘‘ (ایک فوجی کے اعترافات) تھی جو اس نے1946ء میں صرف سترہ سال کی عمر میں لکھی۔اس نے وائلن بجانا سیکھی اور چھ افراد کے ساتھ مل کر ایک میوزیکل گروپ'' بیونس آئرس‘‘ بنایا۔ لیکن وہ نکارا گوا کے گوریلوں کا ساتھی تھا جو حکومت کے خلاف جدوجہد میں مصروف تھے۔ اس کے تعلقات ایک خاتون صحافی ایمپرو زیلیا(Ampero Zelaye) کے ساتھ تھے۔21ستمبر 1956ء میں یہ خاتون اپنے اس محبوب شاعراور موسیقار ریگوبرٹو ''Regoberto‘‘ کوانتہائی شاندار کلب میں ایک کافی پارٹی میں لے گئی جس میں نکارا گوا کا صدر سموزا بھی موجود تھا۔ پارٹی کے دوران اس انقلابی شاعر اور موسیقار نے پستول نکالا اور صدر سموزا کے سینے میں گولیاں اتار دیں اور بھاگ نکلا۔ سموزا کو پانامہ کینال ہسپتال میں داخل کیا گیا جہاں وہ چند روز موت و حیات کی کشمکش میں رہنے کے بعد انتقال کر گیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پورے جنوبی امریکہ کے ممالک میں گوریلا کارروائیاں جاری تھیں۔ گوریلے بندوق کے ذریعے اپنے ملکوں میں ''کمیونسٹ شریعت‘‘ نافذ کرنا چاہتے تھے۔ ان کو کچلنے کی خاطر امریکہ نے فوجیوں کو تربیت دینے کے لیے سکول آف ا مریکاز کھول رکھا تھا جہاں انہیں گوریلوں کے خلاف فوجی ایکشن کرنے ، انہیں صفحۂ ہستی سے مٹانے، ان پر بدترین تشدد کرنے اور انہیں مختلف غیر انسانی طریقوں سے نفسیاتی مریض بنانے کی ٹریننگ دی جاتی تھی۔ آج بھی اس سکول کے بنائے گئے مینوئل دنیا بھر میں ریاستی جبرو تشدد کی تاریخ میں اہم دستاویز سمجھے جاتے ہیں۔ دوسری جانب وہ گوریلے تھے جو فوجی قافلوں پر حملے کرتے، انہیں اغوا کرتے، بدترین طریقے سے قتل کرتے ۔ان میں یہ طریقہ عام تھا کہ وہ اپنے قیدی کے نازک اعضا کاٹ دیتے اور خون بہنے دیتے۔ گوریلے عام لوگوں کو بھی جنہیں وہ مخبر یا حکومت کا سرگرم ساتھی سمجھتے‘ اغوا کرتے، مار دیتے یا پھر ہاتھ پائوں توڑ کر معذور بنا کر پھینک دیتے۔ کمیونسٹ گوریلوں کے علاوہ دائیں بازو کے سرمایہ دارانہ ذہنیت کے حامل جمہوریت پسند گوریلے بھی تھے جنہیں امریکی مدد حاصل تھی ، یہ بندوق کے زور پر ملک میں سرمایہ دارانہ جمہوریت نافذ کرنا چاہتے تھے۔ ان کے بہت سے گروہ تھے جنہوں نے مل کر ایک بڑا گروپ تشکیل دیا جسے کونٹراز(Contras)کہتے تھے ۔ یہ گروہ ایک سے زیادہ ملکوں میں اپنا اثرو رسوخ رکھتا اور گوریلا کارروائیاں کرتا تھا۔ امریکہ نے1984ء سے1987ء تک اس گروہ کو خفیہ
طریقے سے چالیس ملین ڈالر کی امداد اور اسلحہ فراہم کیا۔ ان کی کارروائیاں نکاراگوا، ہنڈراس اور کوسٹاریکا جیسے ممالک میں تھیں جبکہ کمیونسٹ گوریلے السلواڈور سے لے کر چلی تک دیگر ممالک میں سرگرم عمل تھے۔ ایک گروہ طاقت کے زور پر''سرمایہ دارانہ جمہوری شریعت‘‘ کا نفاذ چاہتا تھا اور دوسرا گروہ'' کمیونسٹ شریعت‘‘ کا غلبہ۔ دونوں گروہ اپنی اپنی ریاستوں کے خلاف لڑ رہے تھے۔ کمیونسٹ گروہ کو کیوبا کے ذریعے سوویت یونین کی امداد حاصل تھی۔ اس آگ نے جنگ ِعظیم اوّل کے بعد سلگنا شروع کیا اور سوویت یونین کے زوال کے کئی سال بعد تک اس کی زد میں آئے کئی ملک امن وامان کی زندگی کو ترس گئے۔ 
امریکی اسلحے کی فروخت کے لیے بازار سجے ہوئے تھے ، خریدوفروخت کے بازار کا سب سے بڑا سکینڈل ایران کونٹراز سیکنڈل تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کونٹرا گوریلا ہنڈراس کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے جنگ کر رہے تھے۔ ادھر امریکہ نے دنیا کو اپنا چہرہ خوبصورت دکھانے کے لیے1984ء میں کونٹرا گوریلا کی امداد کم کرنے کے لیے بل پاس کر دیا ، لیکن ریگن انتظامیہ نے خفیہ طور پر یہ کام جاری رکھا اورکونٹراز کے ذریعے ایران کو اسلحہ فروخت کرنا شروع کر دیا تاکہ اس رقم سے کونٹرا کی امداد کی جائے۔ ایران کو عراق کے خلاف اسلحہ کی ضرورت تھی ، اس کام میں اسرائیل کا وزیراعظم شمعون پیریز شامل ہوا ، اس نے ایک ایرانی منو چہر قربانی فر کو جو امریکہ میں مقیم تھا، ایرانی حکومت سے معاملہ کرنے پر مجبور کیا جسے اس آڑے وقت میں اسلحے کی ضرورت تھی۔ یوں اگست1985ء سے اکتوبر1996ء تک ایران کو اسلحہ کی ترسیل اسرائیل کے ذریعے جاری رہی جس کے بدلے میں ایران نے لبنان میں حزب اللہ پر اپنا اثر ورسوخ ڈالا تا کہ وہ ان امریکیوں کو رہا کر دے۔ یوں حزب اللہ نے جولائی1986ء میں دواور اکتوبر1986ء میں تین امریکیوں کو رہا کر دیا۔ اس کے شکرانے کے طور پر سی آئی اے کے سربراہ ویلیم کیسی (William Casey) نے ایران کو اگلے دس سال تک اسلحے کی ترسیل جاری رکھی۔ اس اسلحے کے فروخت کی آمدنی جنوبی امریکہ کے ان گوریلوں پر خرچ ہوتی جو اپنے ملکوں میں ریاستوں کے خلاف جنگ جاری رکھے ہوئے تھے۔
جس دور میں ان تمام ممالک میں جنگیں جاری تھیں ایک ملک کے گوریلے دوسرے ملک میں دندنا تے پھرتے تھے ۔ چی گویرا جس کی تصویریں آج بھی کئی انقلابی اپنی گاڑیوں اور دفتروں میں لگاتے ہیں، ارجنٹائن میں پیدا ہوا اور بولیویا، پیرو، یوسی ڈور ، پانامہ، کوسٹاریکا، نکارا گوا،ہنڈراس اور ایلسلوا ڈور میں '' کمیونسٹ جہاد‘‘ کرتاکیوبا میں امریکہ سے لڑنے لگا۔ آخر میں بولیویا میں 8اکتوبر 1967ء کو پکڑا گیا۔ بولیوین فوج کے ایک سپاہی ماریو تیران نے درخواست کی کہ اسے چی گویرا کو گولی مارنے دی جائے کیونکہ اس کے تین بہترین دوستوں کو اس کے گوریلوں نے بدترین تشدد سے ہلاک کیا تھا۔ اس سے آخری سوال یہ کیا گیا کہ کیا تم نے جو غیر انسانی سلوک کیے ان کے بارے میں موت سے پہلے سوچ رہے ہو ، تو اس نے کہا:''I am thinking of immorality of revolution'' (میں تو انقلاب کی غیر اخلاقی نفسیات پر غور کر رہا ہوں۔) جس طرح چی گویرا آج ہیرو ہے جو کمیونسٹ شریعت کا نفاذ چاہتا تھا اسی طرح ریگوبرٹو کا مجسمہ بھی نکارا گوا میں نصب ہے جو سرمایہ دارانہ جمہوری شریعت کو طاقت سے نافذ کرنا چاہتا تھا اورر یاست کے سربراہ کا قاتل بھی تھا۔
لاکھوں لوگوں کے قتل کے بعد ان تمام ریاستوں نے فیصلہ کیا کہ ہم نے اپنے ملکوں میں امن قائم کرنا ہے۔ ادھر روس ختم ہو چکا تھا، کمیونسٹ انقلاب دم توڑ چکا تھا مگر امریکہ باقی تھا ، انہوں نے امریکہ کو خیرباد کہا ، اس کے مفادات سے اپنے آپ کو علیحدہ کیا اور ریاست کے دشمنوں سے مذاکرات شروع کیے۔ کونٹراز سے مذاکرات کاآغاز 28جنوری 1988ء کو ہوا ، وہی آغاز جو عموماً ہوتا ہے۔۔۔ ہتھیار رکھو،آئین تسلیم کرو، قیدی رہا کرو۔ لیکن امریکہ کی مداخلت بھی جاری رہی اور گوریلا کارروائیاں بھی چلتی رہیں، ایکشن ہوتے رہے اور مذاکرات بھی چلتے رہے۔ کونٹرا گوریلوں پر الزام بھی شدید تھے۔وہ ڈاکٹروں اور نرسوں کو قتل کرتے تھے ، ہسپتالوں کو آگ لگاتے تھے، عام شہریوں کے قتل اور اغوا میں ملوث تھے، جن شہروں پر قبضہ کرتے اس کی املاک جلا دیتے، عورتوں کو جنسی تشدد کے بعد قتل کرتے۔ اسی طرح کے الزامات دوسرے انقلابی گروہوں پھر بھی تھے، لیکن ان تمام ممالک نے کئی سال کے مذاکرات کے بعد اپنے ملکوں میں امن قائم کر لیا۔ جب بھی مذاکرات شروع ہوتے تو امریکی میڈیا اور اس کے حواری چیختے، عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں شور مچاتیں۔ آج بھی ان کی رپورٹیں مظالم کی داستانوں سے بھری پڑی ہیں ، لیکن وہ تمام رپورٹیں گرد آلود الماریوں کا حصہ بن چکی ہیں کیونکہ جنوبی امریکہ کے ان تمام ممالک کی حکومتوں نے سارے زخم بھلا کر امن کے سفر کا آغاز کر دیا ہے۔ جو جنگ امریکہ نے شروع کی تھی اور اسے ان ممالک کی جنگ بنادیا تھا ، انہوں نے امریکی مفادات کو اپنی سرحدوں سے باہر دھکیل دیا ہے۔ سکول آف امریکاز بند ہوگیا ، گوریلا شہری زندگی کا حصہ بن گئے۔ یہ بہت صبر آزما کام ہے۔ یہ کٹھن مرحلہ ہے لیکن قومیں اگر خود فیصلہ کریں تو ممکن ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں