یہ صرف ایک کتاب نہیں جس کے مندرجات نیو یارک ٹائمز میں چھپے تو شور بپا ہو گیا۔ کارلوٹاگیل (Carlotta Gall) نے اپنی اس کتاب میں افسانوی انداز سے پاکستان کی حکومت خصوصاً فوج کا تعلق اسامہ بن لادن کے ساتھ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس نے جس طرح کوئٹے کی گلیوں اور بازاروں میں طالبان کی ٹریننگ اور بھرتی کے افسانے تراشے ہیں، اس پر اسلام آباد، لاہور اور کراچی کے دانشور تو شاید یقین کر لیں لیکن بلوچستان کے قبائلی معاشرے میں بسنے والے لوگ‘ جہاں ذرا سی آمدورفت لوگوں کی آنکھوں سے پوشیدہ نہ رہتی ہو اور جس معاشرے کے بارے میں آج بھی لوگ اعتماد سے کہتے ہوں کہ وہاں نہ قتل چھپ سکتا ہے نہ چوری، وہاں کے رہنے والے یہ کہانی پڑھیں یا تصویریں دیکھیں تو انہیں ہنسی آئے گی۔ لیکن اس کتاب کو یقین کی طرح پھیلانے والوں کی کمی نہیں۔ پوری دنیا کا میڈیا جن لوگوں کے کنٹرول میں ہے‘ وہ یہ کہانی یہیں ختم نہیں کریں گے بلکہ یہ تو ان کے لیے آغاز ہے۔ آغاز کیوں ہے؟ اس کا جواب ہر اُس شخص کو آسانی سے مل سکتا ہے جو گزشتہ دو تین برسوں سے اسرائیل اور امریکہ میں موجود طاقتور ترین صہیونی لابی کی طرف سے 2014ء میں آنے والے دنوں کے خواب اور اس حوالے سے دنیا بھر میں پھیلائے جانے والے پروپیگنڈے کے بارے میں جانتا ہو۔ اسرائیلی اور امریکی میڈیا ان دنوں کی پیش گوئیوں سے بھرا پڑا ہے۔
ان پیش گوئیوں کا آغاز وہ یہودیوں کی مقدس کتاب تالمود سے کرتے ہیں۔ تالمود کے مطابق ''جب چاندگرہن لگتا ہے تو یہ بنی اسرائیل کے لیے بُرا شگون ہوتا ہے، لیکن اگر چاند کا چہرہ ایسے سرخ ہو جائے جیسے خون تو سمجھو دنیا پر تلوار آ رہی ہے‘‘۔ دنیا بھر کے یہودی گزشتہ دو ہزار سال سے ان چاند گرہنوں کا مطالعہ کرتے چلے آ رہے ہیں۔ یہودیوں میں تصوف کی بہت بڑی تحریک ہزاروں سال سے چلی آ رہی ہے جسے وہ 'قبالہ‘ کہتے ہیں۔ ان کے ہاں پہلے تصوف کا علم زبانی طور پر منتقل کیا جاتا رہا لیکن پھر تصوف پر مبنی لٹریچر نے جنم لیا۔ تین کتابیں 'باہیر‘ 'سفر راذیل حمالنح‘ اور 'ظہر‘ لکھی گئیں۔ آج بھی یہ سلسلۂ تصوف ' قبالہ‘ کی رہنما تصانیف مانی جاتی ہیں۔ حروفِ ابجد اور الفاظ کے اعداد نکالنے کا سلسلہ ان کے ہاں رائج ہے۔ ہمارے ہاں بھی حروفِ ابجد وہی ہیں جو ان کے ہاں ہیں۔ یہودی علم نجوم سے دور رہتے ہیں لیکن چاند اور سورج کے گرہنوں کے دوران زمین پر ہونے والی تبدیلیوں کا مطالعہ اپنی مقدس کتابوں کی روشنی میں ضرور کرتے ہیں۔
ان کے نزدیک تاریخ میں جب کبھی چار خونی چاند گرہن ایک ترتیب میں آئے تو بنی اسرائیل کے لیے ایسی آفت کا آغاز ہوا جس میں یقینی فتح پوشیدہ ہوتی ہے اور آخر فتح ہو ہی جاتی ہے، ایسا تاریخ میں بار بار ہوا۔ اس سارے عمل کو وہ 'ایلی‘ یعنی اللہ کی نشانیوں میں سے ایک واضح نشانی جانتے ہیں۔ خونی چاند گرہن، مکمل چاند گرہن کو کہا جاتا ہے یعنی جب چاند زمین کے سائے میں چھپ جانے کی وجہ سے بالکل سرخ رُو ہو جاتا ہے۔ یہ چار مسلسل چاند گرہن گزشتہ پانچ سو سال میں صرف تین مرتبہ لگے۔ ان کی اہمیت کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ اس بات کا بھی ذکر کرتے ہیں کہ یہ خونی چاند کسی نہ کسی یہودی مذہبی دن کے دوران ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ گزشتہ صدیوں میں یہ چاند گرہن دو یہودی مذہبی دنوں میں مسلسل رونما ہوتے رہے اور اب 2014ء میں دو دفعہ اور 2015ء میں پھر دو دفعہ مسلسل انہی دنوں میں رونما ہوں گے۔ گزشتہ پانچ سو سال کی تاریخ میں پہلی دفعہ 1492-93ء میں ایسا ہوا اور بنی اسرائیل پر آفت آئی۔ سپین کو ازابیلا اور فرڈیننڈ نے فتح کیا اور یہودیوں پر افتاد ٹوٹ پڑی۔ وہ قتل کیے گئے، غلام بنا لیے گئے، ان سے زبردستی عیسائی مذہب اس طرح قبول کروایا گیا کہ سود کھانا لازمی قرار دیا گیا اور ہفتے کے دن کاروبارکرنا بھی۔ لیکن اسی دوران کولمبس نے امریکہ دریافت کر لیا جسے یہودی اپنے لیے 'ایلی‘ یعنی اللہ کی طرف سے ایک فتح کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ یہودی وہاں جا کر آباد ہوئے اور آج وہ اس کی سیاست، معیشت اور میڈیا پر قابض ہیں۔ دوسری دفعہ ایسے چار خونی چاند گرہن 1949-50ء میں ظہور پذیر ہوئے تو اسرائیل وجود میں آ چکا تھا اور ڈیوڈ بن گوریان کی حکومت بن چکی تھی۔ اس حکومت کے خلاف سات عرب ممالک کی افواج متحد ہو کر حملہ آور ہوئیں۔ اس وقت اسرائیل ایک نوزائیدہ ملک تھا اور مغرب میں یہودیوں کے خلاف نفرت اور قتلِ عام سے بھاگے ہوئے یہودی یہاں آباد تھے۔ اسرائیل کے پاس صرف ایک ٹینک تھا لیکن قوم پرست عربوں کے پاس دو سو ٹینک تھے۔ اسرائیلی یہ سمجھتے ہیں کہ 'ایلی‘ نے انہیں قوم پرست، روس نواز عربوں پر فتح دی۔ تیسری دفعہ یہ چار خونی چاند 1967-68ء میں طلوع ہوئے۔ اس دوران مشہور عرب اسرائیل معرکہ ہوا۔ ایک جانب قوم پرست اور کمیونسٹ نواز عرب تھے جنہیں روس کی پشت پناہی حاصل تھی۔ اسرائیل کی آ بادی 8 لاکھ تھی اور عرب 5 کروڑ تھے۔ چار ملک مصر، شام، لبنان اور اردن نے حملہ کیا۔ روس نے دو ارب ڈالر کا اسلحہ فراہم کیا۔ یہ وہ جنگ تھی جس میں مصر کے سیکولر حکمران جمال عبدالناصر نے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا: ''اے فرعون کے بیٹو! آج تمہارا موسیٰ کے بیٹوں سے مقابلہ ہے۔ اپنی تاریخی شکست کا بدلہ چکا لو‘‘۔ ان نام نہاد مسلمان اور سیکولر عربوں نے دراصل اللہ کے دشمن کا نام لیا جو مناسب بات نہ تھی۔ دوسری جانب امریکہ اسرائیل کی مدد کو آیا اور دو ہزار سال بعد یروشلم کا مقدس شہر یہودیوں کے قبضے میں چلا گیا۔
گزشتہ دو سال سے یہودی آنے والے چار خونی چاند گرہنوں کا انتظار کر رہے ہیں اور پورے اسرائیل کے معبدوں میں مستقل دعائیں اور دیوار گریہ پر عبادت ہو رہی ہے۔ ان میں پہلا خونی چاند گرہن 15 اپریل 2014ء کو لگے گا۔ اس دوران یہودیوں کا مشہور تہوار 'یدش‘ جسے انگریزی میں Passover کہتے ہیں، ہو گا۔ یہ سات دن تک چلتا ہے۔ اس دوران یہودی مخصوص روٹی پکاتے اور معبدکے سامنے قربانی کرتے ہیں۔ دوسرا خونی چاند گرہن 8 اکتوبر 2014ء کو لگے گا اور اس دوران یہودیوں کا مشہور مذہبی دن سکوٹ ہو گا جسے انگریزی میں Feast of Tabernacle کہا جاتا ہے۔ اس تہوار کے آخر میں یوم کپور آتا ہے۔ یہ یہودیوں کی مصر سے صحرائے سینائی کی طرف روانگی اور پھر چالیس سال تک وہاں اللہ کے عذاب میں بھٹکنے کی یاد میں ہے۔ تیسرا خونی چاند 4 اپریل 2015ء کو طلوع ہو گا اور یہ 'یدش‘ کے دنوں میں ہو گا اور چوتھا خونی چاند 28 ستمبر 2015ء کو ہو گا اور یہ سکوٹ کے دنوں میں ہو گا۔ پوری عالمی یہودی برادری یہ تصور کر رہی ہے کہ یہ اسرائیل کے لیے کسی جنگ کا آغاز ہو گا‘ جس کے آخر میں فتح ہو گی۔ ان کے اخبارات، رسائل اور میڈیا میں اس سارے عمل کو Tragedy and then Triumphکہتے ہیں۔ یعنی ''غم و اندوہ کے بعد کامیابی‘‘۔ اس سارے پس منظر میں دنیا بھر کا یہودی میڈیا بلکہ مغربی میڈیا‘ جو ان کے قبضے میں ہے، تمام عرب ممالک میں آنے والی عرب بہار کو مسلم امہ کے لیے خوفناک قرار دے رہا ہے اور بتا رہا ہے کہ اب عرب دنیا پورے عالم کے لیے ایک خطرہ بن چکی ہے۔ اس دوران وہ یہ بھی پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ امریکہ اب دنیا میں امن قائم کرنے کے قابل نہیں رہا اور اسرائیل کو خود آگے بڑھ کر عالمی دہشت گردی کو روکنا ہو گا۔ مسلمانوں سے جنگ کے راستے میں سب سے زیادہ کھٹکنے والی چیز پاکستان کا ایٹمی پروگرام ہے۔ اس کے خلاف ایک منظم مہم کا آغاز بہت پہلے سے ہو چکا ہے لیکن اب اس میں شدت لائی جائے گی۔ عربوں کی بے چینی سے فائدہ اٹھا کر حملوں کی تیاریاں کی جا رہی ہیںکیونکہ یہودیوں کی اکثریت یہ یقین رکھتی ہے کہ اب ان کی عالمی حکومت قائم ہونے کے دن آ گئے۔ یہ وہی حکومت ہے جسے سیّدالانبیاءﷺ نے مسیح دجّال کے ظہور سے تعبیر کیا ہے۔ خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے، آپﷺ نے فرمایا: '' دجّال کا ظہور اس وقت ہو گا جب مساجد میں اس کا ذکرختم ہو جائے گا‘‘۔ کیا ہم پھر اس خطرے کا مقابلہ فرعون کی اولاد، قریش کی قوم، سائرس اعظم کی نسل اور موئن جودڑو کے وارثوں کی حیثیت سے کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر شکست ہمارا مقدر ہے، اس لیے کہ میرے اللہ کا وعدہ صرف اپنے بندوں کے ساتھ ہے رنگ، نسل، زبان اور علاقے کے بندوں کے ساتھ نہیں۔