قائد اعظم محمد علی جناح وہ عظیم رہنما تھے‘ جنہیں اللہ نے ایسے دور میں ایک اسلامی ریاست کی بنیاد رکھنے کے لیے چُنا جب پوری دنیا میں سیکولر تصور کے تحت نسل، رنگ، زبان اور علاقے کو بنیاد بنا کر قومی ریاستیں وجود میں آ رہی تھیں۔ پوری دنیا کے انسانوں کو اسی بنیاد پر تقسیم کر کے بہت بڑے چڑیا گھر میں تبدیل کیا جا رہا تھا۔ جنگ عظیم اوّل کے بعد لیگ آف نیشنز بنی تو 1920ء میں اس نے پاسپورٹ کا ڈیزائن منظور کیا۔ 1924ء میں ویزا ریگولیشن، آئین اور پھر بارڈر سکیورٹی فورسز کے ذریعے ایک پنجرے کے انسانوں کو دوسرے پنجرے میں جانے سے روک دیا گیا۔ ایسی ریاستیں وجود میں آ رہی تھیں جن کی بنیاد خالصتاً نسلی اور علاقائی تھی۔ یہی طاقتور نظریہ برصغیر پاک و ہند پر بھی لاگو ہونے کو تھا، ایک ایسا آزاد ہندوستان جس میں کسی بھی قسم کی جمہوری حکومت اپنے جمہوری اصولوں کے مطابق اکثریت کی آمریت (Tyrany of Majority) نافذ کرتی۔ اس بدترین مستقبل کو صرف وہ لوگ محسوس کر رہے تھے جنہیں اللہ نے چشم بینا عطا کی تھی۔ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے اور کوئی راستہ باقی نہ تھا کہ وہ متحدہ ہندوستان کی قومی ریاست کا حصہ بن جائیں یا پھر ایک نعرۂ مستانہ بلند کرتے ہوئے یہ اعلان کریں کہ بے شک ہم زبان ایک بولیں، لباس ایک جیسا پہنیں، کھانا ایک جیسا کھائیں، گیت ایک جیسے گائیں لیکن ہم علیحدہ قوم ہیں اس لیے کہ ہم کلمہ طیبہ پڑھتے ہیں۔ یوں قومی ریاستوں کے مینا بازار میں ہندوستان میں بسنے والے بنگالیوں، پنجابیوں، بلوچوں، پشتونوں اور سندھیوں نے اپنی قومیتوں کا انکار کرتے ہوئے ایک اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی۔ یہ تاریخ کا ایک معجزہ تھا جس کے لیے اللہ نے قائد اعظم محمد علی جناح کو منتخب کیا۔ ایسے معجزے کے لیے جو قیادت ضروری ہوتی ہے اسے بصیرت کی آنکھ بھی عطا ہوتی ہے۔
بصیرت کی اس آنکھ کا تذکرہ اس لیے کر رہا ہوں کہ آج بعض لوگ قائد اعظم کے کردار اور نظریے کو اپنے مخصوص خیالات کے تعصب سے داغدار کر رہے ہیں۔ قائد اعظم کے زمانے میں بھی ایسے لوگ موجود تھے اور قائد اعظم نے ان لوگوں کو اپنی زندگی میں ہی مخاطب کرتے ہوئے ایک ایسا جواب دیا تھا اور ان کے رویے کو ایسے الفاظ سے یاد کیا تھا جو اس قدر واضح ہیں کہ آنے والی کئی صدیوں میں بھی محققین قائد اعظم کی اسلامی شریعت کے نفاذ سے وابستگی کو دھند لا نہیں سکتے۔ ایسے طبقات پاکستان کے قیام سے پہلے بھی ہندوستان میں موجود تھے اورآج بھی ہیں۔ ان کے لیے یہ بات انتہائی حیرت، استعجاب اور دکھ کی تھی کہ اسلام کے نام پر بھی کوئی ملک قائم ہو سکتا ہے۔ انہوں نے اپنے مروّجہ علم سے مذہب کے نام پر قومیت کا خانہ ہی کھرچ دیا تھا۔ ان میں انگریز کے سو سالہ دور غلامی کی پیداوار بیوروکریٹ، انگریزی رنگ ڈھنگ میں رچے فوجی افسران، انگریز کی عطا کردہ مراعات سے بننے والے وڈیرے، خان، چودھری اور سردار شامل تھے۔ ان کے ہمراہ وہ دانشور طبقہ بھی تھا جن کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک ملک کلمۂ طیبہ کی بنیاد پر وجود میں آئے گا اور پھر اس کے رہنما اس ملک میں شریعت کو نافذ کرنے کی کوشش کریں گے، وہ شریعت جسے یہ لوگ فرسودہ اور ناقابلِ نفاذ ثابت کرنے میں وہ اپنی توانائیاں صرف کرنے میں عمریں گزار چکے تھے۔ پاکستان کے قیام کے سا تھ ہی انہوں نے یہ بحث چھیڑ دی کہ یہ ملک اسلام کے لیے نہیں بلکہ مسلمانوں کے لیے بنایا گیا ہے۔ یہ معاشی وجوہ پر بنا، لہٰذا اس کا قانون موجودہ ماڈرن ریاستوں کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ ایسی باتیں اس عظیم لیڈر قائد اعظم تک بھی پہنچیں۔۔۔ وہ جو اس خطے کے مسلمان شہیدوں کے خون کا امین تھا، جسے علم تھا کہ یہاں دس لاکھ لوگوں نے کس مقصد کے لیے جان دی ہے، یہ نحیف و نزار مگر عزم و استقلال کا پیکر ان سازشی چہروں کو بے نقاب کرنا چاہتا تھا۔ اس نے ایک ایسے فورم کا انتخاب کیا جہاں سب قانون دان جمع ہوں اور اس کے کہے ہوئے ایک ایک لفظ کو سمجھتے ہوں۔ قائد اعظم نے ان سیکولر طبقات کی شرارتوں کا ذکر کرتے ہوئے تقریر کا آغازکیا اور اپنا اور اس ملک کے قیام کا نظریہ پوری وضاحت سے بیان کیا۔ 25 جنوری 1948ء کو سندھ بار ایسی ایشن، کراچی میں خطاب کرتے ہوئے اس عظیم قائد نے کہا:
"Why this feeling of nervousness that the future constitution of Pakistan is going to be in conflict with the shariat Law--- there are people who want to create a mischief and make the propaganda that we will scrap Shariat Law. Islamic Principles have no Parallel. Today they are as applicable in actual life as they were 1300 years ago.
میں نے اصل انگریزی عبارت اس لیے تحریر کر دی ہے تاکہ قائد اعظم کے اصل الفاظ میں چُھپی اس نفرت کو ملاحظہ کیا جا سکے جو انہوں نے ایسے عناصر کے خلاف دکھائی تھی جو انہیں اِس دور میں سیکولر اور اسلامی شریعت کے مخالف ثابت کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ تقریر کا ممکن حد تک ترجمہ یہ ہے:
'' یہ پریشانی اور ہیجان کیوں ہے کہ پاکستان کا آئندہ آئین اسلامی شریعت سے متصادم ہو گا۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جو تہمتیں دھر کے فساد پھیلانے والے ہیں اور پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ ہم شریعت کے قانون کو اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں۔ اسلامی اصولوں کا کوئی نعم البدل نہیں۔ یہ آج بھی اسی طرح نافذالعمل ہیں جس طرح تیرہ سو سال پہلے تھے‘‘۔
یہ ہے اس قائد اعظم کا جواب‘ ان سب سیکولر دانشوروں کو جو آج ان کی ذات میں کیڑے نکالنے کے لیے کبھی سٹینلے والپرٹ اور کبھی ہیکٹر بولتھیو کی کتابوں کی ورق گردانی کرتے پھرتے ہیں، کبھی ان کے زمانہ طالب علمی کے خدوخال سے انہیں نئے مطالب پہناتے ہیں، کبھی ان کے لباس اور رہن سہن سے انہیں سیکولر ثابت کرتے ہیں۔ اگر سارا یورپ آج مسلمان ہو جائے تو کیا یورپ کے مسلمان دھوتی پہننے لگیں گے؟۔ آدمی مسلمان یا سیکولر نظریات سے ہوتا ہے، لباس سے نہیں۔ قائد نے اپنی آخری تقریر‘ جو سٹیٹ بینک کے افتتاح کے موقع پر کی تھی، میں سودی نظام کے خلاف جنگ کا اعلان کیا تھا اور وہ اس لشکر کا حصہ بن گئے تھے جو اللہ اور اس کے رسول کا لشکر ہے۔ اللہ نے پورے قرآن میں صرف سود کے خلاف جنگ کا اعلان کیا ہے، کیا وہ قائد جو اس جنگ میں شریک ہو، سیکولر ہو سکتا ہے؟ مجھے یہاں قائد اعظم کی زندگی اور طرزِ زندگی سے مثالیں دے کر ثابت نہیں کرنا کہ وہ کیسے نظریات رکھتے تھے۔ میں ایسے لوگوں کا جواب بھی نہیں دینا چاہتا کہ اس ساری بحث کا مقصد قائد اعظم کی شخصیت کو متنازع بنانا ہے۔ آج یہ سیکولر دانشور بھی ویسے ہی لوگ ہیں جن کی تحریروں، گفتگو اور طرزِ سیاست سے قائد کو زندگی میں اس قدر صدمہ پہنچا کہ نپی تلی اور محتاط گفتگو کرنے والے قائد اعظم نے ایسے افراد کے لیے (Mischief) کا لفظ استعمال کیا جس کا عرف عام میں مطلب '' تہمتیں دھر کے فساد پھیلانے والے‘‘ (ترجمہ کتابستان کی لغت سے) ہے۔ قائد اعظم نے یہ نام ان کو دیا جو ان کے بارے میں یہ تاثر پھیلاتے تھے کہ وہ اس ملک میں اسلامی شریعت نافذ نہیں کرنا چاہتے۔ یہ 1948ء میں بھی موجود تھے اور آج بھی۔۔۔۔ تہمتیں دھر کر فساد پھیلانے والے!