سیاسی جماعتیں عوام کی حقیقی نمائندہ ہونے کی دعویدار ہیں‘ بلاشبہ کروڑوں لوگ انہیں سپورٹ کرتے ہیں‘ عوام کی حمایت سے ہی کوئی جماعت اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہو سکتی ہے‘ عوام اور سیاسی جماعتوں کا یہ تعلق تقاضا کرتا ہے کہ جب کبھی عوام پر افتاد آن پڑے تو سیاسی جماعتیں عوام کو مصیبت میں تنہا نہ چھوڑیں‘مگر سیاسی جماعتوں میں عوام کے ساتھ تعاون کی روایت مفقود ہے۔ حکومت میں آ کر سرکاری وسائل کو خرچ کر کے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ عوام کی خدمت کا حق ادا کر دیا ہے‘ یہ سوچ جماعت اسلامی کے علاوہ ہر جماعت میں پائی جاتی ہے۔ جماعت اسلامی شاید واحد جماعت ہے جس میں کارکنان کو فلاحی کاموں کی تربیت دی جاتی ہے‘ یہی وجہ ہے کہ آفت کے وقت سب سے پہلے جماعت اسلامی کے کارکنان متاثرین کی مدد کو پہنچتے ہیں۔کہنے کو تحریک انصاف کی ٹائیگر فورس‘ جمعیت علمائے اسلام کی انصار الاسلام‘ پیپلزپارٹی کے جیالے اور مسلم لیگ (ن) کے متوالے موجود ہیں جو سیاسی سرگرمیوں میں تو پیش پیش ہوتے ہیں مگر فلاحی کاموں میں کم کم دکھائی دے رہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی بے اعتنائی کے برعکس غیر سرکاری امدادی تنظیمیں‘ ادارے اور نجی سطح پر لوگوں نے ایثار کی مثال قائم کر دی ہے۔ سماج کے یہ روشن چہرے اُمید کی کرن بن کر متاثرہ علاقوں میں امدادی سامان پہنچا رہے ہیں۔نمائش اور کریڈٹ سے بے نیاز یہ لوگ متاثرین کو ریسکیو کرنے سے لے کر بنیادی ضروریاتِ زندگی فراہم کر رہے ہیں۔عمومی تاثر ہے کہ پاکستان کے عوام اور مخیر حضرات نے 2010ء کے سیلاب میں جس جذبے کا اظہار کیا تھا حالیہ سیلاب میں اس سے کئی گنا زیادہ امداد فراہم کی گئی ہے۔امدادی کیمپوں میں ضروریاتِ زندگی کی اشیا کے انبار لگ چکے ہیں‘ جنہیں شفافیت کے ساتھ مستحقین اور متاثرین تک پہنچانے کی ضرورت ہے‘ خیبر پختونخوا میں الخدمت فاؤنڈیشن اور اے این پی کے کارکنان ایک ساتھ فلاحی سرگرمیوں میں مصروف دکھائی دیے۔ دکھی انسانیت کی خدمت کیلئے انہی رویوں کی ضرورت ہے۔
افسوس کا مقام ہے کہ سیاسی جماعتیں ابھی تک سیلاب متاثرین کیلئے حکمت عملی نہیں بنا پائیں۔ سیاسی قیادت نے عوام کو مشکل کے اس موقع پر مایوس کیا ہے۔معاملہ قائدین کے سیاسی بیانات تک محدود ہے۔آپ اندازہ کریں کہ جو سیاسی جماعتیں آج فنڈ جمع کر رہی ہیں وہ امداد لے کر متاثرین تک کب پہنچیں گی؟ غور طلب بات یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے قائدین عوام اور مخیر حضرات سے سیلاب متاثرین کی مدد کیلئے اپیل کر رہے ہیں مگر بطور مثال کسی ایک سیاستدان کو پیش نہیں کیا جا سکتا جس نے سیلاب متاثرین کیلئے اپنے اثاثوں میں سے کچھ دینے کا اعلان کیا ہو۔ نہ صرف یہ کہ سیاستدان متاثرین کی مدد سے پہلو تہی برت رہے ہیں بلکہ ایسے نازک موقع پر ریاست مخالف سرگرمیوں میں بھی ملوث ہیں۔ شوکت ترین‘ تیمور سلیم جھگڑا اور محسن لغاری کی جو آڈیو لیک ہوئی ہے اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
سیاسی جماعتیں جب صوبائی اور وفاقی سطح پر حکومت میں نہ ہوں تب بھی پارٹی سسٹم ایسا ہونا چاہئے کہ عوام بے یارو مدد گار اور حالات کے رحم و کرم پر نہ رہیں‘ مگر سیاسی جماعتیں حکومتی وسائل کو استعمال کرنے کی سوچ سے باہر نہیں نکل سکی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے کارکنان کا فلاحی سرگرمیوں کیلئے سامنے آنا اس لئے بھی ضروری ہے کیونکہ حکومت کے پاس وسائل کم ہیں۔ تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ سیلاب متاثرین کے حوالے سے وفاق اور صوبوں کی ترجیحات اور حکمت عملی الگ ہے۔وفاق اور صوبوں میں پائی جانے والی اس تفریق کا نقصان یہ ہو رہا ہے کہ سیلاب زدگان کی مدد کیلئے متفقہ حکمت عملی سامنے نہیں آ سکی۔ ابتدائی سطح پر وفاق کی طرف سے 38 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے جس میں سے 15 ارب روپے سندھ کو جاری کیے گئے ہیں‘ 10 ارب روپے بلوچستان کو دینے کا اعلان کیا گیا ہے‘ تاہم خیبرپختونخوا اور پنجاب کے سیلاب متاثرین کو وفاق کی جانب سے امداد دینے کا فی الحال اعلان سامنے نہیں آ سکا ہے۔ سیلاب متاثرین کیلئے مختص 38 ارب روپے میں سے سندھ اور بلوچستان کا حصہ نکال دیا جائے تو پنجاب اور خیبرپختونخوا دونوں صوبوں کیلئے 13 ارب روپے باقی بچتے ہیں۔ پنجاب کے جنوبی اضلاع میں سیلاب سے منہدم ہونے والے گھر اور فصلوں کی تباہی کو دیکھا جائے‘ اسی طرح خیبرپختونخوا میں سیلابی ریلے سے منہدم ہونے والی عمارتوں اور مکانات کو مدنظر رکھا جائے تو وفاق کی جانب سے مختص کی گئی رقم سے نقصان کہیں زیادہ ہوا ہے۔ سرکاری وسائل پر کسی ایک صوبے کے عوام کا حق نہیں ہے بلاتفریق تمام صوبوں کے متاثرہ علاقوں کے عوام کو فنڈز کی یکساں تقسیم یقینی بنائی جانی چاہئے۔
تحریک انصاف قیادت کا رویہ بھی مایوس کن ہے۔عمران خان نے ٹیلی تھون کے فنڈز جمع کرنے کا اعلان کیا تو سیلاب متاثرین کا نام لینے کے بجائے کہا کہ لوگ تحریک انصاف کو فنڈز دیں۔انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ پی ٹی آئی کو فنڈز دیں‘ پنجاب حکومت کو دیں یا خیبرپختونخوا حکومت کو دیں‘ حالانکہ سیلاب زدگان کیلئے تمام فنڈز وفاق کے پاس جمع ہونے چاہئیں پھر وفاق ہر صوبے کو نقصان کے حساب سے فنڈز جاری کرے‘ وفاق اور صوبوں کے نزاع کی وجہ سے کئی علاقے نظر انداز ہو رہے ہیں‘ اس وقت گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں سیلاب سے نقصانات کی اطلاعات ہیں‘ رابطہ پل سیلاب کی نذر ہونے کی وجہ سے زمینی رابطہ منقطع ہوا ہے‘ مواصلاتی نظام درہم برہم ہے‘ اس قدر نقصان کے باوجود یہ علاقے وفاق اور صوبائی حکومتوں کی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں۔
سیلاب کا خطرہ ابھی ٹلا نہیں‘ اب بھی دریائے سوات‘ پنجگوڑا‘ دریائے کابل اور دریائے سندھ میں پانی کی سطح بلند ہے۔ اگر بالائی علاقے سیلابی ریلے سے محفوظ رہ جاتے ہیں تب بھی جنوبی پنجاب اور سندھ کے نشیبی علاقوں کے متاثر ہونے کے خدشات ہیں کیونکہ بالائی علاقوں کا پانی دو تین دن کے وقفے سے نشیبی علاقوں میں پہنچتاہے۔ تحریک انصاف خیبرپختونخوا میں تین سو چھوٹے ڈیم بنانے کا دعویٰ کرتی رہی ہے‘ اگر چند ڈیم بھی بنے ہوتے تو سیلاب سے اس قدر تباہی نہ ہوتی۔ مہمند اور مُنڈا ڈیم کا ٹھیکہ تحریک انصاف کے ایک سابق وزیر کی کمپنی کو دیا گیا‘ اس کے علاوہ ڈیموں کی کہانی میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔
حکومتوں کی ناقص منصوبہ بندی کو عذابِ الٰہی سے تعبیر کرنا درست رویہ نہیں۔ قدرتی آفات انسانوں کیلئے آزمائش ہیں اس لیے نقصان سے بچنے کیلئے تدبیر کا حکم دیا گیا ہے۔ سیلاب کی تباہ کاری سے بچنے کیلئے چونکہ حکومتوں نے پیشگی اقدامات کرنا تھے جن میں غفلت برتی گئی ہے۔ اگر سیلاب عذابِ الٰہی ہے تو پھر اہلِ سیاست اور اشرافیہ کے محلات اس سے محفوظ کیوں رہتے ہیں؟کچے مکانات اور جھونپڑیاں اور بے زبان جانورہی اس کی زد میں کیوں آتے ہیں؟ ہم جسے عذابِ الٰہی سے تعبیر کر رہے ہیں دراصل وہ مس مینجمنٹ ہے۔اگر آبی مسائل کو سمجھ کر منصوبہ بندی کر لی جائے تو نقصان کی شدت کو کم کیا جا سکتا ہے۔ ماہرین ارضیات اور عالمی ادارے متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کم از کم پانچ بڑی آفات کی زد میں آ سکتا ہے‘ جس میں سیلاب‘ خشک سالی‘ سطح سمندر کا بلند ہونا‘ صحرا کا بڑھ جانا‘ زرخیز زمینوں کا کم ہونا اور زلزلے شامل ہیں‘ مگر ہم نے ان آفات سے بچنے کیلئے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی۔ پاکستان پہلے ہی مالی بحران کا شکار ہے‘ اب سیلاب نے کمر توڑ دی ہے‘ جن میدانی علاقوں میں پانی کھڑا ہے وہاں کی زمینیں اگلے سیزن کیلئے کاشت کے اعتبار سے ناکارہ ہوگئی ہیں جو غذائی بحران اور مہنگائی میں اضافے کا سبب بنے گا۔ ایسے مشکل حالات میں اگر سیاسی قیادت ترجیحات کا تعین نہیں کرے گی تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ آنے والے وقت میں متاثرین سیلاب کے ساتھ ساتھ 22 کروڑ عوام کو بھی آزمائش کیلئے تیار رہنا ہو گا۔