"RS" (space) message & send to 7575

مذاکرات سے راہِ فرار کیوں؟

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ انہوں نے قمر جاوید باجوہ صاحب کو توسیع دے کر بڑی غلطی کی تھی۔ خان صاحب کے مطابق جب ان کی حکومت کے خلاف اتحادی جماعتوں نے محاذ آرائی شروع کی تو انہوں نے باجوہ صاحب سے پوچھا کہ آپ مجھے کلیئر کر دیں کہ ادھر ہیں یا اُدھر؟ اگر آپ میرے ساتھ نہیں ہیں تو پھر میں حکمت عملی تبدیل کر لوں۔ خان صاحب نے باجوہ صاحب پر بھروسا کرنے کو اپنی کمزوری قرار دیا ہے۔ خان صاحب کے اعتراف سے معلوم ہو رہا ہے کہ ان کی اپنی کوئی سیاسی حکمت عملی نہیں تھی‘ اگر توسیع دینا غلطی تھی تو دوبارہ توسیع کی پیشکش کرکے یہ غلطی دہرانے کی کوشش کیوں کی گئی؟
خان صاحب چاہتے ہیں کہ مارچ میں عام انتخابات کرا دیے جائیں‘ ان کے بقول اگر اتحادی حکومت مارچ کے آخر تک الیکشن کے لیے تیار ہے تو تحریک انصاف اسمبلیاں توڑنے کے مؤقف سے پیچھے ہٹ جائے گی‘ بصورتِ دیگر فوری طور پر خیبرپختونخوا اور پنجاب کی اسمبلیاں تحلیل کر دی جائیں گی۔ وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی بھی مارچ میں انتخابات کی بات کرتے ہیں لیکن اس سے اُن کا مقصودوہ نہیں جو خان صاحب کو مقصود ہے۔ مارچ کے آخر میں الیکشن کے پیچھے کہانی یہ ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017ء کے مطابق اگر 13اپریل 2023ء تک یہ اسمبلیاں تحلیل نہ ہوئیں تو پھر بعد میں تحلیل ہونے کے باوجود ان اسمبلیوں کے انتخابات اکتوبر 2023ء میں عام انتخابات کے ساتھ ہوں گے۔
چودھری پرویز الٰہی نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی طرف جاتے جاتے اللہ نے ہمارا راستہ بدل دیا اور راستہ دکھانے کے لیے اللہ نے جنرل (ر)قمر جاوید باجوہ کو بھیج دیا۔ چودھری پرویز الٰہی نے اعتراف کیا کہ قمر جاوید باجوہ نے کہا تھا کہ آپ کا اور آپ کے دوستوں کا عمران خان والا راستہ زیادہ بہتر ہے۔ چودھری پرویز الٰہی نے انٹرویو کے دوران جو انکشاف کیا ہے‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ (ق) اتحادی ہونے کے باجود مخالف سمت میں کھڑے ہیں۔ تحریک انصاف کے قائدین جنرل (ر)قمر جاوید باجوہ پر الزامات عائد کر رہے ہیں جبکہ چودھری پرویز الٰہی سمجھتے ہیں کہ اُنہوں نے اُن کی درست رہنمائی کی۔ چند روز قبل تک مونس الٰہی اور چودھری پرویز الٰہی کے بیانات میں تضاد نظر آ رہا تھا کیونکہ مونس الٰہی تحریک انصاف کی بات کرتے تھے جبکہ چودھری پرویز الٰہی اس کے برعکس بیان دیتے تھے مگر اب چودھری پرویز الٰہی اور مونس الٰہی دونوں تحریک انصاف کے بیانیے کے خلاف بیان دیتے نظر آتے ہیں۔
دوسری طرف اطلاعات ہیں کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان بھی اسمبلیاں تحلیل کرنے کے حق میں نہیں ہیں کیونکہ خیبرپختونخوا میں گزشتہ نو برس سے تحریک انصاف کی حکومت ہے جسے اپوزیشن کی طرف سے بظاہر کوئی خطرہ نہیں۔ اگر تحریک انصاف کے پی میں اسمبلیاں تحلیل کرنا چاہے تو اس پر فوری عمل ہو سکتا ہے لیکن چونکہ اسمبلی کی مدت پوری ہونے سے پہلے صوبے میں ترقیاتی کاموں کی رفتار تیز کر دی جاتی ہے تاکہ اگلے الیکشن میں کامیابی یقینی بنائی جا سکے ‘اس لیے خیبرپختونخوا حکومت کو خدشہ ہے کہ اگر اسمبلیاں تحلیل کر دی گئیں تو جن ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل سے عوامی حمایت حاصل ہونے کی توقع ہے وہ پورے نہیں ہو سکیں گے۔ جن دو صوبوں کی حکومت ختم کرکے تحریک انصاف عام انتخابات کی راہ ہموار کرنا چاہتی ہے‘ ان صوبوں میں اسمبلیاں توڑنا خود تحریک انصاف کے لیے مشکل ثابت ہو سکتا ہے۔ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کو اپنے ایسے اراکین کی طرف سے بھی مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے‘ جو اپنے حلقوں میں بڑا ووٹ بینک رکھتے ہیں مگر انہیں تحریک انصاف کے ٹکٹ سے محروم رکھا گیا اور اُن پر الیکٹ ایبلز کو ترجیح دی گئی۔ دوسری طرف پچیس سے زائد ایسے الیکٹ ایبلز ہیں جنہیں خدشہ ہے کہ آئندہ انتخابات میں انہیں تحریک انصاف کا ٹکٹ جاری نہیں کیا جائے گا۔ ان حقائق کو نظر انداز کر کے اگر خان صاحب اسمبلیاں تحلیل کرتے ہیں تو وفاقی حکومت کے پاس کئی آپشنز موجود ہیں۔ اسمبلیاں تحلیل کرنے سے پہلے گورنر کی طرف سے وزیراعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے کہا جا سکتا ہے‘ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جا سکتی ہے اور کسی حد تک گورنر راج کا آپشن بھی موجود ہے اگرچہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد گورنر راج کا آپشن کافی مشکل بنا دیا گیا ہے۔ گورنر راج کو وزیراعلیٰ کے مشورے سے مشروط کیا گیا ہے‘ اس کے باوجود گورنر راج کا احتمال تو موجود ہے۔ جب وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر دی جائے اور صوبے کے حالات کشیدہ ہونے کے خدشات ہوں تو ڈائریکٹ گورنر راج بھی لگ سکتا ہے۔
دوسری طرف حکومت کے پاس اسمبلیوں کی تحلیل روکنے کے کئی آپشنز موجود ہیں مگر لگتا ہے کہ وہ اپنی طرف سے پہل کرکے کوئی انتہائی اقدام اٹھانے سے گریزاں ہے تاکہ اسے موردِ الزام نہ ٹھہرایا جائے۔ پی ڈی ایم کے پیشِ نظر یہ بات بھی ہو سکتی ہے کہ مارچ کے اختتام پر رمضان المبارک شروع ہو رہا ہے جس میں انتخابات نہیں کرائے جا سکیں گے۔ اس پس منظر میں کہا جا سکتا ہے کہ بجٹ پیش کرنے سے پہلے عام انتخابات کا انعقاد عملی طور پر بہت مشکل ہو گا۔ ایسی صورت میں خان صاحب کو نئے انتخابات کے لیے مزید انتظار کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس لیے ہونا تو یہ چاہیے کہ وہ صوبائی اسمبلیوں کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے دیں‘ انتخابات کے مطالبے کے ساتھ ملکی معیشت میں بہتری کا مطالبہ بھی کریں۔ اس لیے تحریک انصاف کو حکومت کے ساتھ جامع مذاکرات کرنے چاہئیں کیونکہ انتخابات کے نتیجے میں اگر اگلی حکومت پھر تحریک انصاف کی قائم ہوتی ہے تو معاشی چیلنجز بہرصورت موجود ہوں گے۔
خان صاحب کو تو سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسی بات پر خوش ہو جانا چاہیے تھا کہ پونے چار سال حکومت میں رہنے کے باوجود معاشی خرابی کا انہیں ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا رہا ہے۔ اس وقت حکومت کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل کرنا نہایت مشکل ہو گیا ہے۔ اگر حکومت آئی ایم ایف کی سخت شرائط پر مزید مہنگائی کرتی ہے تو عوام کی نظروں میں غیر مقبول ٹھہرے گی اور اگر آئی ایم ایف کی بات نہیں مانتی تو اربوں ڈالرز کا بندوبست کہاں سے کرے گی؟ کیونکہ رواں مالی سال میں تقریباً بائیس ارب ڈالرز کی ادائیگیاں کرنی ہیں‘ سعودی عرب اور چین نے تو قرضوں کی وصولی مؤخر کر دی ہے مگر دیگر ممالک کے ساتھ معاملات طے پانا ابھی باقی ہے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ سیلاب کی تباہی کے بعد قرضوں کی ادائیگی میں اسے سہولت مل جائے۔ آج موجودہ حکومت کو مالی مشکلات کا سامنا ہے‘ کل اگر کسی دوسری جماعت کی حکومت قائم ہوتی ہے تو اسے بھی مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ چین نے تقریباً چار ارب ڈالرز کے قرضے مؤخر کیے ہیں‘ اسی طرح سعودی عرب نے تقریباً تین ارب ڈالرز کے قرضے مؤخر کیے ہیں۔ بلاشبہ یہ موجودہ حکومت کی اہم کامیابی ہے۔ اس کے برعکس اگر تحریک انصاف کی حکومت ہوتی تو اس تعاون کی بھی توقع نہیں کی جا سکتی تھی کیونکہ یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ تحریک انصاف کی حکومت کے چین اور سعودی عرب کے ساتھ مثالی تعلقات نہیں رہے تھے۔ آئی ایم ایف اور امریکہ کے ساتھ تحریک انصاف حکومت کے تعلقات محتاجِ بیان نہیں ہیں‘ ایسے حالات میں اگر تحریک انصاف کی حکومت ہوتی تو اس کے لیے ملک کو سنبھالنا پی ڈی ایم سے بھی مشکل ہو جاتا۔ اس لیے جامع مذاکرات اقتدار کے تمام شراکت داروں کے حق میں ہیں‘ جس سے راہِ فراہ اختیار کرنا سب کے لیے نقصان دہ ہو گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں